پاناماکی سیاست

پاناماکی سیاست
پاناماکی سیاست

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

پانامہ لیکس کے حوالے سے وزیراعظم نے (چند روز کے اندر) دوسری بار قوم سے خطاب کیا۔ پہلی تقریر میں انہوں نے معاملے کی تحقیقات کے لئے سپریم کورٹ کے ایک سابق جج کی سربراہی میں کمیشن قائم کرنے کا اعلان کیا تھا، لیکن اس فیصلے کو وسیع تر تائید حاصل نہیں ہو سکی۔ مخالف سیاسی جماعتوں اور مبصروں کے ساتھ ساتھ غیر جانبدار حلقوں اور تجزیہ کاروں میں بھی اسے قبولیت نہیں مل پائی۔ اس فیصلے کو تو سراہا گیا کہ کمیشن قائم کرکے دودھ اور پانی کو الگ الگ کرنے کی کوشش کی جائے، لیکن اس کا سربراہ کوئی سابق جج ہو، اسے بہت کم لوگ قبول کرنے پر تیار نظر آئے۔ مسلم لیگ (ن) اور اس کے یک طرفہ حامیوں کے علاوہ کسی نے بھی اسے بنظر استحسان نہیں دیکھا۔ مخالف سیاستدانوں نے تو دھمکی کے انداز میں،لیکن سنجیدہ مبصرین نے سنجیدگی کے ساتھ یہ بات سمجھانے کی کوشش کی کہ اگر معاملہ کمیشن ہی کے سپرد کیا جانا ہے تو پھر اسے سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کی سربراہی میں بننا چاہیے۔


مخالف سیاسی رہنماؤں کی للکار اور توتکار کا یہ نتیجہ بھی نکلا کہ کوئی سابق جج اپنا سر اوکھلی میں دینے کو تیار نہیں ہوا۔ حکومت نے مختلف حضرات سے رابطہ کیا لیکن کسی نے بھی یک طرفہ تائید کے ساتھ یہ ذمہ داری اٹھانے پر آمادگی ظاہر نہیں کی۔ جسٹس سرمد جلال عثمانی قدرے مائل نظر آئے لیکن حکومت کے مخالفین ان پر چڑھ دوڑے، انگلی اٹھائی گئی کہ ان کی اہلیہ کا تعلق مسلم لیگ (ن) سے ہے۔ اہلیہ صاحبہ نے اس سے علیحدگی کا اعلان بھی کر دیا لیکن بات بن نہ پائی۔ جسٹس عثمانی نے بھی اس بھاری پتھر کو اٹھانے سے انکار کر دیا۔ اس دوران پیپلزپارٹی کے بعض متعلقین نے پارلیمانی کمیشن کے قیام کی تجویز بھی پیش کی لیکن شور و غوغا کے درمیان یہ بھی دب کر رہ گئی۔ رضا ربانی صاحب کا نام لیا گیا لیکن ان کا منصب اس کی اجازت نہیں دے سکتا تھا۔ عمران خان اور ان کے ہم نوا سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کی سربراہی میں قائم ہونے والے کمیشن کے علاوہ کچھ ماننے کو تیار نہ تھے۔ ان کا دعویٰ تھا بصورت دیگر سڑکوں پر نکل آئیں گے اور مسلم لیگ (ن) کی حکومت کے ساتھ اس طرح دودو ہاتھ کریں گے، جس طرح مسلم لیگ (ن) اپنے مخالفین کے ساتھ ماضی میں کرتی رہی ہے۔ میڈیا اور سول سوسائٹی کے معروضی حلقے بھی عافیت اسی میں جان رہے تھے کہ سپریم کورٹ تک معاملہ پہنچا دیا جائے، تاکہ دھماچوکڑی مچانے کا بہانہ کسی کو نہ مل سکے۔ وزیراعظم نوازشریف اس دوران اپنے چیک اپ کے لئے بیرون ملک گئے تو افواہوں کا بازار گرم ہو گیا۔ ان کے جنم جنم کے مخالف خبریں اڑانے لگے کہ انہیں ’’مقتدر‘‘ حلقوں نے واپس آنے سے روک دیا ہے، وہ طویل عرصہ بیرون ملک قیام کریں گے اور ایوان وزیراعظم میں دوبارہ اسی وقت قدم رکھ سکیں گے جب پانامہ لیکس سے باعزت بری قرار پائیں گے۔ وزیراعظم سے استعفے کا مطالبہ بھی کیا جانے لگا اور سراج الحق صاحب نے اپنا وزن (جتنا بھی ہے) اس پلڑے میں ڈال دیا۔ وزیراعظم نے چند روز کے اندر واپسی کا اعلان کرکے افواہ بازوں کے دانت کھٹے کر دیئے۔ معالجین نے انہیں واپسی کا سفر اختیار کرنے کی اجازت دے تھی۔


اس تمام ہاؤہو کے درمیان وزیراعظم نوازشریف اس نتیجے پر پہنچ چکے تھے کہ معاملہ سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کو ریفر کیا جانا چاہیے لیکن ان کے اردگرد بعض عناصر بھانت بھانت کے مشورے دینے میں مصروف تھے۔ بالآخر وزیراعظم قدم اٹھانے پر تیار ہو گئے اور اپنی نشریاتی تقریر میں اس کا اعلان کر دیا۔ لطیفہ یہ ہے کہ پانامہ لیکس میں آف شور اکاؤنٹس کھولنے والے کم و بیش 250 پاکستانیوں کے نام آئے ہیں۔ ان میں نوازشریف نامی کسی شخص کا براہ راست تذکرہ نہیں ہے، ان کے ان بچوں کے نام البتہ موجود ہیں جو بیرون ملک رہتے اور وہیں روٹی روزی کماتے ہیں۔ ان کا دعویٰ ہے کہ مغرب میں مستعمل طریقوں کے مطابق وہ ٹیکس بچا رہے ہیں اور اپنی جنت کو محفوظ بنانے میں لگے ہیں۔ ان کے علاوہ عدلیہ، وکلاء، میڈیا اور صنعت و تجارت کے کئی بڑے بڑے نام اس فہرست میں موجود ہیں، ان سے کسی نے ابھی تک نہ کچھ پوچھا ہے نہ ان کی طرف کوئی انگلی اٹھائی گئی ہے ۔اور تو اور سپریم کورٹ بار کے عہدہ داران بھی اپنے قانون دان ساتھیوں کے معاملے کی جانچ پرکھ کی بجائے دوسروں کے غم میں ہلکان ہو رہے ہیں۔


وزیراعظم کی تازہ تقریر نے اپنے مخالفین کے طوطے اڑا دیئے ہیں، ان کا سب سے بڑا مطالبہ منظور کر لیا گیا ہے۔ اس سے قطع نظر کہ وزیراعظم کی تقریر کیسی تھی، انہوں نے اپنا اور اپنے مخالفین کا موازنہ کس حد تک درست کیا اور اپنے حریفوں کو آڑے ہاتھوں لیا یا سیدھے، ان کے کس نکتے کی داد دی جانی چاہیے اور کس کو بے ذوقی پر محمول کیا جانا چاہیے، سو نہیں ہزار باتوں کی ایک بات یہ ہے کہ سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کو خط لکھنے کا اعلان ہی نہیں کیا گیا، خط ان تک پہنچا بھی دیا گیا ہے کہ جناب کمیشن بنا کر نیک و بد کا حساب کر دیجئے۔ یہ ایک نکتہ ہر نقط اور بے نقط پر بھاری ہے، اس لئے اس کا خیر مقدم کیاجانا چاہیے۔ جو لوگ پانامہ کو بہانہ بنا کر وزیراعظم کو نشانہ بنانا چاہتے ہیں، ان سے قطع نظر اس فیصلے کو وسیع تر تائید حاصل ہوگی اور من مرضی کا کمیشن مقرر کرنے کے اعلان نے انہیں جس اخلاقی دباؤ کا شکار کر دیا تھا، وہ اس سے نجات حاصل کر سکیں گے۔


کمیشن کے دائرہ کار کے بارے میں اب زبانیں لمبی ہو رہی ہیں۔ یہ درست ہے کہ اسے بہت پھیلایا گیا ہے اور یہ پھیلاؤ بہت تاخیر کا سبب بن سکتا ہے، لیکن اگر پانامہ کے نام پر سیاست کرنے والے داد طلب نگاہوں سے اِدھر اُدھر دیکھ سکتے ہیں تو کمیشن کے دائرہ کار کے حوالے سے سیاست کرنے والوں کو بھی بلا سوچے سمجھے دھتّا نہیں بنایا جا سکتا۔ دائرہ کار پر اعتراض کرنے والوں کو چاہیے کہ اپنی تجاویز پیش کریں، اگر ان میں کوئی وزن ہو گا تو انہیں عوامی تائید حاصل ہو جائے گی۔ اس وقت تو (نظربظاہر) یہ دکھائی دیتا ہے کہ کمیشن کے قیام کے اثرات کم کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ کہنے والے یہ بھی کہہ رہے ہیں کہ جنرل راحیل شریف نے بعض اعلیٰ فوجی افسروں کو بدعنوانی کے الزام میں سزا دے کر نہ صرف عمدہ مثال قائم کی ہے بلکہ حالات پراپنا دباؤ بھی بڑھا دیا ہے۔ اس کا مطلب یہ لیا جا رہا ہے کہ فوجی قیادت بھی بہر قیمت پانامہ کی تحقیقات چاہتی ہے، اسی لئے چند روز پہلے ایک تقریر میں انہوں نے بلا تمیز (Across the board) احتساب پر زور دیا ہے۔ جنرل پرویز مشرف کے خلاف قائم مقدمات کے حوالے سے اس پر سوالیہ نشانات موجود ہیں کہ ان کے معاملے میں تمیزکیوں روا رکھی گئی ہے؟ انہیں قانون کی نظر سے پوشیدہ رکھنے کے لئے مختلف حربے کیوں استعمال کئے جاتے رہے ہیں؟ اس کے باوجود بلا تمیز احتساب کی روایت قائم کرنے کی خواہش رد نہیں کی جا سکتی۔ یہ اپنی جگہ لائق تحسین ہے لیکن یہ بات ذہن میں رہنی چاہیے کہ ہر شخص اور ہر ادارے کو دستور کے تحت اپنا کردار ادا کرنا چاہیے جس کا کام اسی کو سانجھے اور کرے تو ٹھینگا باجے۔۔۔


[ یہ کالم روزنامہ ’’پاکستان‘‘ اور روزنامہ ’’دنیا‘‘میں بیک وقت شائع ہوتا ہے]

مزید :

کالم -