گوادر کو پاکستان کا حصہ بنانے والے سابق وزیراعظم ملک فیروز خان نون کی آپ بیتی۔ ۔۔قسط نمبر 54
ایک صبح میں گھوڑے پر سوار ہو کر سیر کیلئے نکلا اور اٹاوہ سے دوہی میل دور گیا تھا کہ راستے میں ایک گاؤں پڑا جس کا نام سینٹ زرے تھا۔ بچے سکول سے باہر نکل رہے تھے۔ ان میں آٹھ نو سال کی ایک لڑکی بھی تھی جو انگریزی کا ایک لفظ تک نہیں سمجھتی تھی۔ میرے اے ڈی سی نے بتایا کہ یہ ایک فرنچ سکول ہے۔ جہاں انگریزی نہیں پڑھائی جاتی۔ بعد میں یہ حقیقت بھی معلوم ہوئی کہ وہاں فرانسیسی اور برطانوی نسلوں کے باشندے آپس میں بہت کم میل جول رکھتے ہیں۔ مختلف دعوتوں میں شرکت کے بعد میں یہی تاثرلے کر واپس ہوا۔ مدتوں اس مسئلہ پر زبردست تحریک چلتی رہی کہ فرانسیسی کو پارلیمنٹ کی زبان کے طور پر قبول کیاجائے یا نہ کیا جائے۔ بالآخر کتابِ آئین میں اسے متبادل زبان کے طور پر شامل کر لیا گیا اور چونکہ فرانسیسیوں کی اناکی تسکین ہو چکی تھی۔ لہٰذا اس کے بعد کسی ممبر نے ، جو اپنے خیالات کو پارلیمنٹ کے دوسرے ارکان تک پہنچانے کا خواہش مند ہوتا تھا فرانسیسی زبان میں تقریر نہیں کی اور بیشتر ارکان انگریزی بولنے لگے۔ پاکستان کی آزادی کے بعد میں کراچی میں نئی مرکزی اسمبلی کارکن مقرر ہوا تو یہ نظیر میرے لیے نہایت کارآمد ثابت ہوئی۔ بنگال کے نمائندے بنگالی میں تقریر کرنے پر مصر تھے جسے ہم مغربی پاکستان کے لوگ سمجھنے سے معذور تھے۔ اس وقت میں نے اصرار کیا کہ بنگالی کو متبادل زبان کے طور پر قبول کر لیا جائے اور یہ دیکھ کر خوشی ہوئی کہ اسمبلی نے اس تجویز کی تائید میں قانون منظور کر لیا۔ اس کے بعد سے شاید ہی کسی بنگالی رکن نے کبھی بنگالی زبان میں تقریر کی ہو ۔ یہ ایک مسئلہ اصول ہے کہ آپ اگر لوگوں کی انا کی تسکین کر دیں تو مخالف بھی دوست بن جاتے ہیں۔
گوادر کو پاکستان کا حصہ بنانے والے سابق وزیراعظم ملک فیروز خان نون کی آپ بیتی۔ ۔۔قسط نمبر 53 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
میں پہلی بار ینیڈا بحری جہازپر گیا تھا۔ پہلا پڑاؤ کیوبے میں کیا۔ یہ تقریباً ایک فانسیسی شہر ہی ہے ۔ یہاں مجھے معلوم ہوا کہ فرانسیسی کسان نہایت کنجوس ہوتے ہیں۔ وہ گھوڑوں سے ہل چلاتے ہیں ، پیسے بچاتے ہیں اور گھر کے قریب ہی زمین کا قطعہ خریدتے ہیں، جسے اپنے بیٹوں میں تقسیم کر دیتے ہیں اور پھر وہ بھی انہی کی طرح ان میں گھوڑوں سے ہل چلاتے ہیں۔ لیکن انگریز نوآباد کار کھیتی باڑی کا کام بڑے پیمانے پر شروع کر تے تھے۔ وہ اراضی کا خاصا بڑا قطعہ خریدتے ، اس کے بعد مشینیں خریدتے اور انہیں برف اور دھوپ میں چھوڑ کر بیٹھ جاتے ۔ کیونکہ سایہ کا انتظام کرنے کیلئے ان کے پاس رقم نہیں بچتی تھی۔ دو سال بعد وہ دیوالیہ ہو کر شہر میں واپس آجاتے تھے۔ اس طرح کے واقعات ان سپاہیوں کے ساتھ خاص طور پر گزرے جو پہلی جنگ عظیم کے بعد وہاںآباد ہونے کے لیے گئے تھے۔
میں ٹورنٹو گیا تو وہاں میری ملاقات جان میکونل سے ہوئی۔ و ہ روزنامہ سٹار کے مالک ہیں۔ دوسری جنگ عظیم میں انہوں نے دو سو پائلٹ اپنے خرچ پر بھرتی کیے اور انہیں انگلینڈ بھیجا تھا۔ وہ اور لارڈبیو برک بڑے گہرے دوست تھے۔ انہوں نے مزید دس لاکھ ڈالر کا عطیہ رائل ائیرفورس کو دیا تھا اور سرطان کے بارے میں تحقیق کے سلسلے میں بھی انہوں نے ایک خطیر رقم دی تھی۔ وہ پہلے کی طرح اب بھی بہت خلیق اور مخیر آدمی ہیں۔ ٹورنٹو میں میری ملاقات روبرٹ برین سے بھی ہوئی اور جلدی ہی ہم دونوں دوست بن گئے ۔ وہ ایک دیہی ڈاکٹر کے بیٹے تھے اور بعد میں حصص کے دلال بن گئے ۔ انہوں نے چاندی کی ایک کان کے حصے اونے پونے داموں خرید لیے تھے۔ بعد میں وہی کان انتہائی بیش قیمت ثابت ہوئی ۔ ان کے بارے میں مشہور تھا کہ اچانک راتوں رات لاکھوں کروڑوں ڈالر کے مالک بن گئے۔ ان کے پاس شکاری کتوں کا ایک ریوڑ اور گاف کا ایک نجی میدان تھا۔ گھوڑے بھی شوق سے پالتے تھے۔
ایک دفعہ ان کے شکاری کتوں کو دیکھنے کیلئے شہنشاہ جارج ششم نے اپنی سپیشل ٹرین رُکوالی تھی۔ ایک دن مسٹر برین نے مجھے ساتھ لیا اور ہم کتوں کا ریوڑ لے کر شکار کھیلنے نکلے ۔ شکار کا کام نہایت آرام دہ تھا ۔ لق و دق میدان کے درمیان سے پختہ سڑک گزرتی تھی۔ جب گھوڑا تھک کر چور ہو جاتا تو سوار نیچے اُتر کر پاپیادہ میدان پار کر تا اور سڑک پر آجاتا، جہاں اس کی اہلیہ کار میں اس کی منتظر ہوتی تھی۔ میں جس شکاری گھوڑے پر سوار تھا، اُسے میرے میزبان نے آئرلینڈ سے خریدا تھا۔ میں لاہور میں شکار پر اکثر جاتا رہتا تھا لیکن گھوڑے پر اُونچی جست میں نے کبھی نہیں لگائی تھی اور اس موقع پر تو میں صرف جودھ پوری برجس اور معمولی جوتا پہنے ہوئے تھا۔ ہمیں راستے میں کئی باڑوں کو پھلانگنا پڑا۔ میرے میزبان نے مجھے ہدایت کی کہ گھوڑے کو اپنی سی کرنے دیں اور سب کچھ ٹھیک ہی ہو گا۔ میں نے ان کی ہدایت پر عمل کیا۔ ہر بار ایسا ہوتا کہ گھوڑے کی جست کے ساتھ بھی زین سے سرک کر ہوا میں بلند ہو جاتا، لیکن خوش قسمتی سے دوبارہ زین پرچم جاتا۔ اس طرح میرے ملک کی آبرو بچی رہی اور میں ایک بار بھی نہیں گرا۔ کینیڈا کے ان گھڑ سواروں میں مجھے خاصی شہرت ملی اور وہ سب میرے دوست بن گئے۔
میراخیال ہے کہ اونیٹر یو کے وزیراعظم (جن کا دارالحکومت ٹورنٹو میں تھا ) کے وفاقی وزیراعظم مسٹر میکنزی کنگ کے ساتھ تعلقات خاصے کشیدہ تھے کیونہ سٹرکنک نے ان کی صوبائی پارلیمنٹ کے منطورکردہ ایک دو قوانین کو مسترد کر دینے کی ہدایت گورنر کے نام بھیجی تھی ۔ صوبہ کے وزیراعظم ، وفاقی وزیراعظم کے اس سلوک پر سخت برہم تھے اور مجھے یاد پڑتا ہے کہ بات چیت میں وحشیانہ قسم کے فقرے استعمال کرنے کے لیے وہ ایک خاص شہرت کے مالک تھے۔ چنانچہ یہ بیان بھی انہی سے منسوب کیا گیا کہ ’’یہ مینڈکی کا بچہ میکنزی کنگ اگر میرے صوبے میں آیا اور ٹرین کے ڈبے سے باہر سرنکالا تو میں اس کا سرکاٹ کر اس کی ہتھیلی پر رکھ دوں گا ۔ ‘‘ لیکن ظاہر ہے کہ انہوں نے ایسا کیا نہیں۔ ان کی گفتگو کا انداز ہی ایسا تھا۔ ایک صوبہ میں میری آمد پر گورنر کا اسے ڈی سی پنی کار ریلوے پلیٹ فارم پر عین میرے ڈبے کے سامنے لے کر آگیا ۔ یہ پہلا موقع تھا کہ میں نے کسی شخص کو سہ پہر کے چار بجے شراب کے نشے میں پایا۔ میرے دوست میجر ’’نے‘‘ جو اس وقت میرے ساتھ تھے، بہت سٹ پٹائے۔ کینیڈا کے لوگ اپنے یہاں شراب کے استعمال میں کمی کے لیے خاصی کوشش کر رہے ہیں۔ انہوں نے اس مضمون کا قانون منطور کیا ہے کہ شراب کی بوتل صرف دکان سے خریدی جا سکتی ہے اور خریدا ر ویسے تو شراب جس قدرچاہے پیے۔
لیکن اس کا یہ شغل صرف گھر کی خواب گاہ تک محدود رہنا چاہیے۔ پبلک مقامات مثلا ہوٹل اور اس کی طعام گاہ یا ہوٹل کے ڈرائنگ روم میں شراب خوری منع ہے ۔ وہاں ہوٹلوں میں شراب خانے نہیں تھے۔ ۱۹۴۷ء میں مجھے استنبول جانے کا اتفاق ہوا تو ایک ترک دوست نے مجھے اپنے گھر پر مدعو کیا۔ یہ جگہ شہر کے مضافات میں تھی ۔ میرے دوست نے معذرت کی کہ میرے پاس آپ کیلئے شراب موجود نہیں میں نے ان سے کہا کہ ہو یا نہ ہو میں بہر حال شراب نہیں پیتا۔ انہوں نے کہا کہ ہمارے قانون کی روسے ہر شخص پبلک مقامات پر جس قدر چاہے شراب پی سکتا ہے لیکن وہ اپنے گھر اور خواتین کا تقدس بڑی سختی سے ملحوظ رکھتا ہے ۔ ترک لوگ گھر میں نہ خود شراب پیتے ہیں، نہ کسی کو ایسا کرتے دیکھ سکتے ہیں۔یہ بات ویسے تو دل کو لگتی ہے لیکن میراخیال ہے کہ کینیڈا کا وہ قانون نسبتاً بہتر ہے کہ کسی شخص کو اس کے گھر والوں کے سوا، دوسرا کوئی شخص پیتے ہوئے نہ دیکھے۔ اور گھر کے لوگ میخوار کو ایک خاص حد تک پابند رکھنے میں کامیاب بھی ہوسکتے ہیں۔ اس موقع پر یادآیا کہ ترکوں میں ایک رسم بڑی پرکشش ہے ۔ گھر کی بیٹی کھانے کے بعد عطرلے کر آتی ہے اور مہمانوں کو کافی کے پیالے دینے سے پہلے ان کے ہاتھوں پر عطر چھڑکتی ہے ۔ سرعام لوگ ایک دوسرے کوشراب کی پیش کش کرتے ہیں اور پی کر مدہوش بھی ہو جاتے ہیں۔ لیکن گھر کے اندر یہ بات ممکن نہیں ۔ ہم پاکستانی لوگ اس سلسلے میں خوش نصیب ہیں۔ کیونکہ یہاں کے مسلمان امتناعِ شراب کے معاملے میں بڑے کٹر ہیں قانون کی رو سے وہ اس وقت تک شراب نہیں خرید سکتے ، جب تک ڈاکٹران کے لیے تجویز نہ کرے ۔ یہی سبب ہے کہ مغربی پاکستان میں جہاں چار کروڑ کی آبادی ہے، بمشکل تین یا چار سو مسلمان ہوں گے جنہیں طبی بنیاد پر شراب خریدنے کی اجازت ہے۔ شراب اور تمباکو کو چونکہ اسبابِ تعیش میں شمار ہوتے ہیں اور بہت جلد عادت کاجزبن جاتے ہیں ۔ لہٰذا تمام ملکوں میں انہیں ٹیکسوں کی وصولی کا آسان ذریعہ سمجھا جاتا ہے ۔ پاکستان میں دہسکی کی ایک بوتل ساٹھ روپے سے زیادہ میں آتی ہے ۔ (۱۹۶۵ء)درآمدی قیمت صرف نور روپے ۔ باقی ایکسائز ڈیوٹی ہے۔اس کے باوجود لوگ اسے خریدتے ہیں۔
مجھے یاد پڑتا ہے کہ آزادی سے قبل پنجاب میں ، میں نے اپنے رفیق کارسر جو گندر سنگھ کو ، جو ایکسائز کے محکمہ کے وزیر تھے، مشورہ دیا تھا کہ وہ ضلع جالندھر میں شراب کی دُکانیں کھلوادیں کیونکہ سکھ شراب کی ناجائز خریدو فروخت کا کاروبار آزادی سے کرتے ہیں اور حکومت کو ٹیکس کا گھاٹا ہوتا ہے ۔ ان حالات میں تو یہی بہتر ہے کہ سرکاری طور پر دکانیں کھول دی جائیں۔ لیکن انہوں نے میری تجویز سے اتفاق نہیں کیا اور دلیل یہ دی کہ شراب کی ناجائز تجارت کرنے والے سب کے سب سکھ ہیں۔ چنانچہ ناجائز شراب جس قدر فروخت کی جاتی ہے اور اس کا منافع حاصل ہوتا ، اس کی رقم سکھوں کے اندر ہی ایک دوسرے کے ہاتھ میں منتقل ہوتی رہتی ہے۔ لیکن شراب کی سرکاری دکانیں کھل گئیں تو ایکسائز ڈیوٹی کی آمدنی حکومت کے خزانہ میں منتقل ہونے لگے گی اور اس آمدنی سے سرکاری سکولوں ہسپتالوں اور سڑکوں کی تعمیر کی صورت میں سکھ، ہندو اور مسلمان سبھی فائدہ اُٹھائیں گے اس مثال سے اندازہ ہو جائے گا کہ بر صغیر پاک و ہند کی انتظامیہ کو فرقہ وارانہ اختلافات نے کس بری طرح سے متاثر کیا تھا۔ پاکستان کے لوگ خوش نصیب ہیں کہ تقسیم کے بعد یہاں بیشتر مسلمان ہی رہ گئے ہیں، لہٰذا اس طرح کے اختلافات کم سے کم مغربی پاکستان میں رونما نہیں ہوں گے ۔ میری ایک یہ بھی بڑی خوش قسمتی رہی ہے کہ مجھے حکومت کی جانب سے سفر کے شاندار مواقع حاصل ہوتے رہے ہیں آپ مختلف ملکوں کی سیر اور وہاں کے لوگوں کے ساتھ میل جول سے جو کچھ سیکھ سکتے ہیں، کتابوں سے نہیں سیکھ سکتے، ہر وہ ملک جو دوسرے ملکوں کے ہم پلہ بننا چاہے اسے لازم ہے کہ لوگوں کی سیرو سیاحت کی سہولتیں زیادہ سے زیادہ مہیا کرے۔
(جاری ہے)