قتیل شفائی کی آپ بیتی. . .قسط نمبر 83

قتیل شفائی کی آپ بیتی. . .قسط نمبر 83
قتیل شفائی کی آپ بیتی. . .قسط نمبر 83

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

اختر شیرانی کتنے بڑے باپ کے بیٹھے تھے۔ ان کے والد حافظ محمود شیرانی ایک سکالر اور عالم و فاضل تھے۔ وہ دونوں ایک ہی مکان میں فلیمنگ روڈ پر رہتے تھے لیکن لطیفہ یہ ہوتا تھا کہ جتنی بار بھی دستک ہوتی تھی وہ بیٹے ہی کے لیے ہوتی تھی اور اکثریت کو یہ بھی نہیں پتہ تھا کہ اس مکان میں اس نامور بیٹے کا فاضل باپ بھی رہتا ہے ۔ چونکہ حافظ محمود شیرانی کی تخلیقی فیلڈ عالمانہ تھی اور نثر میں تھی۔ ان کے پڑھنے والے بہت کم تھے۔ اختر شیرانی چونکہ شاعر تھے اس لیے ان کے پڑھنے والے لاکھوں تھے۔ پھر جتنے بھی معتقد آتے تھے ان میں سے ننانوے فیصد اختر شیرانی کے ہوتے تھے جبکہ صرف ایک فیصد حافظ محمود شیرانی کے ہوتے تھے۔

قتیل شفائی کی آپ بیتی. . .قسط نمبر 82  پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں

انہیں بیٹے پر فخر بھی تھا لیکن بیٹے کی بے راہروی انہیں بہت کھلتی بھی تھی۔ اختر شیرانی گھر سے غافل ہو چکے تھے اور کام کاج بھی کوئی نہیں کرتے تھے۔ اس زمانے میں شاعروں کی آمدن بھی کوئی نہیں ہوتی تھی پھر جہاں کلام چھپتا تھا وہاں سے بھی کچھ نہیں ملتا تھا کیونکہ رسالے والے تو کلام چھاپ کر الٹا شاعر پر احسان کرتے تھے۔

 احسان کا ذکر آیا تو مجھے روزنامہ ’’احسان ‘‘ یاد آگیا ۔ روزنامہ ’’احسان ، مسلم پرچوں میں ایک معروف پرچہ تھا جس کے مالک چودھری نور الہٰی تھے۔ وہ اپنے فن صحافت اور پبلشنگ میں بہت ماہر تھے۔ ان کا پرچہ چلتا تھا لیکن تنخواہوں کا معاملہ ذرا مختلف تھا۔ ایک تو اس زمانے میں مسلم پرچے ہندو پرچوں کے مقابلے میں کم چھپتے تھے دوسرے اشتہار والے مسلم پرچوں کی سرپرستی نہیں کرتے تھے۔ ظاہر ہے کہ جب کوئی ادارہ مالی مشکلات میں ہو تو اس کے کارکن بھی مشکل میں ہوتے ہیں۔ انہیں تنخواہیں بھی کم اور اقساط بھی ملتی تھیں۔ زمیندار ‘‘ اور دوسرے پرچوں کا بھی یہی حال تھا۔

ملک نور الہٰی کے بیٹے انگلینڈ سے بیر سٹری کر کے واپس آئے۔ ان کا نام ملک مقبول الہٰی تھا اور وہ میرے جاننے والوں میں سے تھے۔ میں اس زمانے میں مصری شاہ میں رہتا تھا۔ اور جب میکلوڈ روڈ پر ’’اداکار‘‘ کے پرچے میں آتا تھا تو آدھے راستے میں ’’احسان ‘‘ کا دفتر پڑتا تھا۔ پھر جب سے مقبول صاحب ولایت سے واپس آئے تھے تو انہوں نے پرچے میں اپنے نئے نئے اصول رائج کئے تھے۔ ان میں یہ بھی جذبہ جاگا کہ ان کے ادبی ایڈیشن میں لکھنے والوں کو معاوضہ دیا جائے۔ کیونکہ یہ دیکھ کر آئے تھے کہ انگلینڈ میں ایسا ہوتا ہے چنانچہ انہوں نے اپنے والد سے مشورہ کئے بغیر ہی کچھ لوگوں سے کہا کہ آپ ہمارے پرچے کے لئے لکھئے آپ کو معاوضہ دیا جائے گا۔ انہوں نے اس زمانے میں مجھ سے بھی ایک نظم لی اور جب آٹھ دس دن کے بعد میں ادھر سے گزررہا تھا تو میں ’’احسان ‘‘ کے پرچے میں چلا گیا۔ دس روپے معاوضہ ہوتا تھا۔ میں نے سوچا کہ معاوضہ لے لوں۔
میں مقبول صاحب کے دفتر میں گیا۔ انہوں نے میرے لیے چائے منگوائی ۔ ان کے دفتر میں کیبن بنے ہوئے تھے اور مقبول صاحب کا کیبن الگ تھا۔ جس کیبن میں میں مقبول صاحب کے پاس بیٹھا ہوا تھا اس کے ساتھ والے کیبن میں ملک نور الہٰی بیٹھے تھے۔ میں بیٹھا تھا تو مقبول صاحب کہنے لگے کہ قتیل صاحب اچھا ہوا آپ آگئے اب آپ اپنا معاوضہ بھی لیتے جائیے اور پھر کہنے لگے کہ میں حاضر ہوتا ہوں۔
اس کے بعد مجھے ساتھ والے کیبن سے آواز یں آنا شروع ہوئیں ۔ وہ اپنے والد سے کہہ رہے تھے کہ آپ مجھے ایک دس روپے دے دیں۔ والد نے پوچھا کیا کرنے ہیں۔ انہوں نے کہا قتیل شفائی صاحب کو دینے ہیں۔ والد نے پوچھا کس سلسلے میں دینے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ان کی ایک نظم چھپی تھی اس کا معاوضہ دینا ہے۔ والد نے حیرت سے کہا کہ نظم چھپنے کا معاوضہ؟ اور پھر کہنے لگے کہ ایک تو ہم ان کی مشہوری کریں اور دوسرے انہیں معاوضہ دیں۔ یہ بات سن کر میرے تو سر میں پانی پڑ گیا اور اس کے بعد مقبول صاحب کی آواز بھی آنی بند ہو گئی۔ وہ شرم کے مارے اپنے کیبن میں بہت دیر تک واپس نہیں آئے بلکہ کسی اور کیبن جا کر انہوں نے سرگوشیوں کے انداز میں کسی اور سے دس روپے قرض لیے اور میرے پاس آئے ۔ اور کہنے لگے کہ معذرت چاہتا ہوں میں ذرا لیٹ ہو گیا اور پھر انہوں نے دس روپے کا نوٹ میری طرف بڑھاتے ہوئے کہا کہ یہ رہا آپ کا معاوضہ ۔ میں نے کہا مقبول صاحب یہ رہنے دیجئے۔ یہاں پر جو دستور چل رہا ہے وہی چلنے دیجئے۔ میں آپ کے جذبے کی بہت قدر کرتا ہوں لیکن میں یہ دس روپے نہیں لوں گا۔ آپ کے والد صاحب کو بعد میں پتہ چل گیا کہ آپ نے کسی اور سے پیسے لے کر مجھے دیئے ہیں تو ممکن ہے کہ باپ بیٹے میں معاملہ دنگا فساد تک پہنچے ۔ وہ بہت شرمندہ ہوئے ۔ اور کہنے لگے کہ یہاں کے دستور ہی الٹے ہیں۔ میں جو سیکھ کر آیا ہوں اس پر عمل کرنے کی کوشش کی تو نتیجہ آپ کے سامنے ہے۔
ادبی پرچوں میں معاوضے کا سلسلہ تو خال خال ہی کبھی رہا ہو گا۔ یا تو معاوضہ وہ کمرشل پرچے دیتے تھے جو کثیر الاشاعت ہوتے تھے اور ان میں چٹخارے دار مواد زیادہ ہوتا تھا ۔ اور یا پھر سرکاری پرچے معاوضہ دیتے تھے جیسے یونینسٹ پارٹی کا پرچہ پنچایت تھا۔ مثلاً ’’مست قلندر ‘‘ اور حسن پرست ‘‘ پرچے بھی معاوضے دیتے تھے۔ یہ قیام پاکستان سے پہلے کی بات ہے ۔ جب بعد میں قیام پاکستان کا مرحلہ آیا تو سب سے پہلے معاوضہ دینے کی رسم روزنامہ ’’امروز ‘‘ سے شروع ہوئی۔ یہ پرچہ میاں افتخار الدین صاحب نے پروگریسو پیپرز لمیٹڈ کے ادارے سے شائع کیا تھا۔ اس ادارے سے شائع ہونے والے دوسرے پرچوں ’’پاکستان ٹائمز ‘‘ اور ’’لیل و نہار ‘‘ وغیرہ میں بھی وہ اپنے لکھنے والوں کو برابر معاوضہ دیا کرتے تھے۔ امروز کے ادبی ایڈیشن کا نام ’’قسمت علمی و ادبی ‘‘ تھا۔ اسے چراغ حسن حسرت مرتب کرتے تھے اور شروع کے پرچے کے ایڈیٹر بھی وہی تھے۔ بعد میں اس کے ایڈیٹر بدلتے بھی رہے لیکن جو معاوضہ دینے کی رسم چلی تھی وہ باقی رہی۔ اور حقیقت یہ ہے کہ اس صفحے کا معیار اتنا اونچا تھا کہ لوگ اس میں چھپنا فخر سمجھتے تھے۔ اس میں نظم کا معاوضہ دس روپے تھا جبکہ نثر کا معاوضہ سات روپے فی کالم تھا۔ اور اس زمانے میں یہ کافی پیسے سمجھے جاتے تھے۔
چراغ حسن حسرت صاحب کے بعد احمد ندیم قاسمی صاحب کا زمانہ آیا اور اس کے بعد پھر آخر کار طفیل احمد خان کا زمانہ آیا۔ جب وہ اس کے ایڈیٹر ہوئے تو ہمارے دوست تھے ۔ اس زمانے میں چیف ایڈیٹر کی تنخواہ تقریباً چھ سو روپے اور سب ایڈیٹر کی تنخواہ تقریباً دو سو روپے ہوتی تھی۔ اس زمانے کے لحاظ سے یہ بہت زیادہ تنخواہ ہوتی تھی۔ اس کے علاوہ چونکہ طفیل احمد خان کی فیملی کراچی میں تھی اور انہیں وہاں بھی پیسے بھیجنے پڑتے تھے اور یہاں بھی اپنے اخراجات کرنے ہوتے تھے اس لیے وہ کوئی زیادہ کھلے ہاتھ کے آدمی نہیں تھے۔ اگر ہمیں کبھی چائے پلا دیتے تھے تو اگلی بار ہمیں ان کو چائے پلانی پڑتی تھی۔ ہم شام کوٹی ہاؤس یا کافی ہاؤس میں جا کر بیٹھتے تھے۔
انہوں نے ہر ہفتے کوئی نہ کوئی چیز چھپنے کی چھوٹ دے رکھی تھی اس لیے اگر ایک ماہ میں چار چیزیں چھپ جاتیں تو چالیس روپے مل جاتے ۔ میں یہ پیسے زیادہ تر چائے پیسٹری پر خرچ کر بیٹھتا تھا۔ اب چار نظمیں کیسے کہی جائیں کیونکہ ان چار نظموں کے علاوہ ادبی پرچوں کو بھی چیزیں بھیجنی ہوتی تھیں۔ پھر آمد کا سلسلہ بھی تو ایسا نہیں تھا کہ ادھر سے کاغذ ڈالا اور ادھر سے نظم نکل آئی۔ کبھی نظم نہیں بھی ہوتی تھی۔
میں نے کچھ ایسا کیا کہ پرانی نظمیں اور پرانا کلام جو بہت پہلے چھپ چکا ہو وہ بھی دو چار بار وہاں چھپوایا۔ ایک بار خدا کا کرنا ایسا ہوا کہ مظفر آباد سے کسی صاحب نے طفیل احمد خان کو لکھا کہ قتیل شفائی نے میری غزل چرالی ہے ۔ وہ غزل کچھ یوں تھی:
فلک سے رات کو جب چاندنی برسائی جاتی ہے
مرے سینے میں تیرے دل کی دھڑکن پائی جاتی ہے
اس نے اپنے خط کے ساتھ تین سال پہلے کی ایک کٹنگ بھی بھیج دی جس سے ظاہر تھا کہ یہ غزل اس سے پہلے مظفر آباد کے کسی پرچے میں چھپ چکی ہے ۔ طفیل احمد خان تھوڑے سے بدحواس بھی تھے۔ یہ شکایت نامہ دیکھ کر پریشان ہو گئے اور مجھے کہنے لگے کہ دیکھئے یہ کیا ہو گیا ہے ۔ اس سے ہمارے پرچے کی بدنامی ہوئی ہے ۔ میں نے کہا کہ یار اب سچ بلوانا ہے تو بات یہ ہے کہ یہ غزل کوئی آٹھ سال پرانی ہے اور نہ صرف یہ کہ یہ رسالے میں چھپ چکی ہے بلکہ ایک فلم کیلئے اس کی ریکارڈنگ بھی ہو چکی ہے ۔ اگرچہ یہ فلم مکمل نہیں ہوسکی تھی اس غزل کا ریکارڈ اب بھی میرے پاس پڑا ہے ۔ میں تمہیں وہ رسالہ اور ریکارڈ دے دوں گا ۔ اس سالے نے یہ غزل میری غزل کے چھپنے کے پانچ سال بعد کہیں اپنے نام سے چھپوالی ور اب اس نے یہ خط بھیج دیا ہے ۔ میرے خیال میں وہ یا تو بیوقوف آدمی ہے اور یا پھر اسے کوئی شرارت سوجھی ہے۔
طفیل احمد خان تو میرے بے تکلف دوست تھے۔ لیکن میں سوچتا ہوں کہ اگر یہی واقعہ کسی اختلاف رکھنے والے آدمی تک پہنچتا تو ایک بار زندگی میں ہمیں بھی اپنی غزل چوری کرنے کا مزا آجاتا۔
تو وہ معاوضہ جو ’’امروز ‘‘ نے شروع کیا تھا اس کے بعد لکھنے والوں کو بھی احساس ہوا کہ اپنی محنت کا حق لینا چاہئے۔ اور اخبارات ورسائل کی اشاعت کیلئے خرچ آنے والی ہر چیز کا معاوضہ ادا کر دیتے ہیں اور صرف ہماری لکھی ہوئی اس چیز کا معاوضہ ادا نہیں کرتے جس سے اخبار کا پیٹ بھرا ہوتا ہے ۔ چنانچہ اب صورت حال یہ ہے کہ بعض اداروں کی طرف سے تو پانچ پانچ سو روپے بھی معاوضہ ملتا ہے ۔ پچھلے دنوں’’اخبار جہاں ‘‘ کا بیس سالہ نمبر چھپا تو اس میں چھپنے والی میری چند رباعیوں کے انہوں نے پانچ سو روپے ادا کئے۔ یہ تو خیر بیس سالہ نمبر تھا۔ اگر یہ نمبر نہ بھی ہوتا تو بھی معاوضے کی ان کی طرف سے ادائیگی کم از کم دو سو روپے ضرور ہوتی۔
لکھنے والوں کو معاوضے کی ادائیگی کا سارا کریڈٹ میاں افتخار الدین کے ان پرچوں کو جاتا ہے جو اپنے زمانے کے بہت پروگریسو پرچے تھے۔ خاص طور پر ’’امروز ‘‘ کو جس میں لکھنا فخر سمجھا جاتا تھا۔ بد قسمتی سے آج ہی ’’امروز ‘‘ کا لاشہ نظر آتا ہے اور افسوس ہوتا ہے کہ یہ پرچہ کتنی بلندی سے کتنی پستی میں آگرا ہے۔
ڈیلی اخباروں کا ذکر آیا ہے تو مجھے یاد آگیا کہ قیام پاکستان سے پہلے یونینسٹ پارٹی کی طرف سے روزنامہ ’’شہباز ‘‘نکلا ۔ یہ سرکاری اخبار تھا اور اس پر کاغذ قیمتی صرف ہوتا تھا۔ اس کا ادارہ تحریر بھی بہت جاندار تھا۔ نہ صرف مسلم بلکہ تمام پرچوں میں اس کی ضخامت سب سے زیادہ تھی اور قیمت دوسروں پرچوں کے برابر یعنی ایک آنہ تھی۔ جبکہ ہاکروں کو پچیس فیصد کمیشن ملتی تھی۔

(جاری ہے، اگلی قسط پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں)