جنات کا غلام۔۔۔بیسویں قسط
معروف صحافی اور محقق ’’شاہد نذیر چوہدری ‘‘ کی اپنے سحر میں جکڑ لینے والی تحقیق پر مبنی سچی داستان ’’جنات کا غلام ‘‘
انیسویں قسط پڑھنے کے لئے کلک کریں
میں نے سیداں والی کا نام تو سنا ہوا تھا مگر آج تک وہاں جانا نہیں ہوا تھا۔ میرے والدین بہت سال پہلے وہاں کچھ عرصہ گزار کر آئے تھے۔ سیداں والی سیالکوٹ شہر سے چار پانچ کلومیٹر کے فاصلہ پر ”نالہ ایک“ کے کنارے ایک قدیمی قصبہ تھا۔ وہاں بزرگوں کی قبور تھیں اور ان کے اعلیٰ حضرت پیر جماعت علی شاہ کے ساتھ خاندانی مراسم بھی تھے۔ اس سے زیادہ میں نہیں جانتا تھا۔ اگلے روز بھی میرا پرچہ تھا اس لئے میں وہ دن کسی اور مصروفیت میں نہیں گزارنا چاہتا تھا۔ میں نے اپنے امتحان کا عذر پیش کیا اور کہا
”سرکار اگر اجازت دیں تو دو چار روز بعد میں حاضر ہو جاﺅں گا۔ میں ان دنوں امتحان میں مصروف ہوں“
وہ مجھے گہری نظروں سے دیکھنے لگے ”تجھے اس امتحان کی پڑی ہے اور اس امتحان کی تجھے کوئی فکر نہیں ہے جو ترے سر پر کھڑا ہے“ میں خاموش ہو کر انہیں دیکھتا رہا اور زبان سے کچھ نہیں بولا۔”میری خاموشی دیکھ کر وہ دوبارہ بولے
”ٹھیک ہے تم دوبارہ آنا۔ ہم تمہارا سیداں والی میں انتظار کریں گے“
میں نے موقع غنیمت جانا اور جلدی سے وعدہ کرکے اپنے گھر چلا گیا۔ میں نے اپنی والدہ کو بھی خود پر گزرنے والے حالات سے آگاہ کیا تو وہ پریشان ہو گئیں ۔ انہوں نے مجھے منع کر دیا کہ اب میں ملکوال ہرگز نہیں جاﺅں گا۔ میں نے جب ٹاہلی والی سرکار کی رمزیہ گفتگو سے انہیں آگاہ کیا تو وہ سوچ بچار میں پڑ گئیں۔ پھر بتانے لگیں ممکن ہے وہ درست ہی کہہ رہے ہوں۔ ہم نے بیٹیوں کی پیدائش کے بعد اولاد نرینہ کے لئے سیداں والی کے بزرگ پیر کاکے شاہ کے مزار پر جا کر دعا کرائی تھی اور منت مانگی تھی کہ اگر اللہ ہمیں اس بار بیٹا عطا کرے گا تو ہم پاکپتن شریف جا کر دیگیں چڑھائیں گے۔ تمہاری پیدائش کے بعد ہم نے اپنی منتیں پوری کی تھیں۔ ممکن ہے ٹاہلی والے بزرگ کا یہی منشا ہو۔ تم کبھی سیداں والی گئے بھی نہیں ہو گے اور نہ ہی پاکپتن شریف جا کر خواجہ فرید الدین گنج شکر کے مزار پر تم نے حاضری دی ہے۔ والدہ کی باتیں سن کر مجھے بابا تیلے شاہ کی باتیں یاد آ گئیں۔ وہ مجھے سیداں والی لے کر جانا چاہتے تھے۔ اس کا مطلب تھا کہ ٹاہلی والی سرکار اور بابا تیلے شاہ دونوں مجھے ایک نئے راستے اور منزل کی تلاش میں ڈال رہے تھے۔
میں نے والدہ سے وعدہ کر لیا تھا کہ میں اب ملکوال نہیں جاﺅں گا مگر جب شام ہونے لگی تو میرے اندر بے تابیوں کے الاﺅ بھڑکنے لگے اور میں خود پر قابو نہ رکھ سکا۔ میرے ذہن پر ان ہستیوں کی عقیدت کا اس قدر تسلط ہو چکا تھا کہ مجھے اب امتحان کی فکر ہی نہیں رہی تھی۔ اللہ نے مجھے اپنی پراسرار دنیاﺅں کے مکینوں سے ملا دیا تھا اور میں اس موقع کو ہاتھ سے کھونا نہیں چاہتا تھا۔ اس وقت میرے اندر عقیدت کا سمندر موجزن ہو چکا تھا ۔ایک صحافی کا فطری تجسس بھی مجھے اس بات پر آمادہ کر رہا تھا کہ مجھے ان لوگوں سے دور نہیں رہنا چاہئے۔ پس میں والدہ کو بمشکل قائل کرکے ملکوال چلا گیا۔
وہ رات میرے لئے بڑی اہمیت اختیار کر گئی تھی۔ بابا جی سرکار مہمان خانے میں ہی تشریف فرما تھے اور خاصے مسرور تھے۔ میں جب پہنچا تو دیکھتے ہی فرمائش کی ”شاہد میاں .... غازی کو آئس کریم اور جلیبیاں کھلاتے رہتے ہو مگر ہمارے لئے آم نہیں لے کر آ سکے“
میں شرمندہ ہو گیا۔ شہر سے خالی ہاتھ ہی گاﺅں پہنچا تھا۔ ذہن میں ایک لحظہ کے لئے بھی خیال نہیں آیا تھا کہ ان کے لئے کو ئی شے ہی لے جاﺅں” میں کل شہر سے آم لے کر آﺅ ں گا سرکار“ بابا جی کو جلدی تھی اس لئے وہ چلے گئے اس روز شاہ صاحب بھی بڑے مسرور تھے۔
”تم نے خاصی دیر لگا دی واپس آنے میں“
میں نے انہیں دن بھر کی ساری تفصیلات سے آگاہ کیا مگر یہ نہیں بتایا کہ بابا تیلے شاہ سے کیا بات چیت ہوئی۔
”اگر تم وقت پر آ جاتے تو تمہیں ایک کیس میں اپنے ساتھ لے جاتا“
”کیسا کیس“ میں نے استفسار کیا ”پولیس پھر آ گئی تھی“
”نہیں یار“ وہ ہنس دئیے ”ہم لوگ جب کسی کا کوئی مسئلہ حل کرنے جاتے ہیں تو اسے کیس بولتے ہیں“ وہ بتانے لگے ”ادھر ساتھ ایک بڑے قصبہ میں ملک صاحب کے ایک دوست کی بیٹی پر جن قابض ہو گیا تھا لڑکی بھی اس کی گرفت میں آ چکی تھی اور وہ اس جن کو چھوڑنے پر راضی نہیں تھی۔ وہ اس سے شادی کرنا چاہتی تھی۔ اللہ کا شکرہے کہ میں نے بابا جی کی موجودگی کے بغیر اس لڑکی کو جن سے آزاد کرا دیا ہے“
یہ سن کر مجھے اس کہانی میں دلچسپی پیدا ہو گئی۔ شاہ صاحب کہنے لگے ”یہ بڑی عجیب اور متنازعہ سی بات ہے۔ ہم اس بحث میں نہیں پڑتے اور اس کو کسی اور وقت پر اٹھا دیتے ہیں کہ جنات اور انسانوں میں شادیاں ہو سکتی ہیں کہ نہیں .... فی الحال اس لڑکی اور جن کی داستان سن لو جو شادی پر آمادہ تھے .... مگر میں نے یہ خلاف فطرت اور خلاف شریعت حرکت سرزد نہیں ہونے دی۔
اس لڑکی کی منگنی ہو چکی تھی لیکن جب سے وہ جن اس پر عاشق ہوا تھا اس نے منگنی توڑنے کا اعلان کر دیا۔ پہلے پہل تو اس کے گھر والوں کو کچھ سمجھ نہیں آیا کہ ان کی لڑکی یکایک باغی کیوں ہو گئی ہے۔ حالانکہ یہ شادی اس کی پسند کے لڑکے سے ہو رہی تھی۔ لڑکی کا چہرہ روز بروز پیلا ہوتا جا رہا تھا اور اس کے خوبصورت چہرے پر جھریاں پڑنے لگی تھیں۔ آنکھوں کے گرد سیاہ حلقے پڑ گئے اور وہ کھوئی کھوئی سی مدہوش سی نظر آتی۔ ماں کو شک ہوا کہ وہ بیمار ہے۔ اس نے بیٹی سے بہت پوچھا مگر اس نے کچھ نہیں بتایا۔ ماں اس کی ٹوہ میں لگ گئی۔ اس نے بیٹی کے معمولات پر نظر رکھی۔ اس نے غور کیا کہ وہ رات ہونے کا بے چینی سے انتظار کرتی ہے اور اس کے سونے کے معمولات و عادات بدل رہی ہے۔ لڑکی پہلے کمرے سے باہر گھر کے باقی افراد کے ساتھ صحن میں سوتی تھی۔ اسے اندر سوتے ہوئے ڈر لگتا تھا لیکن اب وہ باہر سونے سے گھبراتی اور کمرے کے اندر اکیلی سوتی تھی۔ اس کمرے کے پیچھے ایک پرانی طرز کا سٹور نما بڑا کمرہ تھا۔ ایک روز اس کی ماں اس کے پہرے پر بیٹھ گئی گھر کے لوگ جونہی سوئے وہ کمرے کے دروازے کے ساتھ بیٹھ گئی اور اندر کی سن گن لینے لگی۔ رات آدھی سے زیادہ بیتی تو اسے محسوس ہوا کہ اندرکوئی نہایت بھاری بھرم آواز والا شخص دبی زبان میں بول رہا ہے۔صبح ہوئی تو وہ عورت اندر داخل ہوئی۔ اس نے پورا کمرہ اور سٹور چھان مارا مگر اندر کوئی مرد دکھائی نہیں دیا۔ اس نے ایک نظر بیٹی پر ڈالی۔ اس کے بال بکھرے ہوئے تھے اور چہرے پر اذیت کے آثارتھے۔ اس نے بیٹی کو ہلا جلا کر اٹھایا تو اس نے خوابیدہ حالت میں نظریںکھولیں۔ماں اس کی سرخ سرخ آنکھیں دیکھ کر ڈر گئی۔ بیٹی بھرائی آواز میں بولی۔
”جا ماں سو جا مجھے بھی سونے دے“۔
ماں اس کی حالت دیکھ کر کچھ سمجھی کچھ نہ سمجھی۔ دوپہر کے وقت وہ اٹھی تو اس کی حالت اب نارمل تھی۔ ماں نے بڑی رازداری سے اس سے پوچھا کہ اس کی یہ حالت ایسی کیوں ہو رہی ہے۔ لیکن اس نے کچھ نہیں بتایا۔ عورت نے محسوس کیا اس کی بیٹی نہایت لاغر ہو گئی ہے۔ اس نے کئی راتیں لگاتار بیٹی کی جاسوسی کی۔ اس روز اس نے بیٹی کو بڑی واضح آواز میں کسی سے شکایت کے لہجے میں بات کرنے سنا تھا وہ کہہ رہی تھی
”تم دو دنوںسے کہاں تھے؟“
کسی نے بھاری بھرکم مردانہ آواز میں کہا ”میں بہت دور اپنے گھر والوں سے ملنے چلا گیا تھا“۔
”تجھے میری کوئی فکر نہیں ہے میری نظروں سے دور ہو جاﺅ۔ میں تم سے نہیں بولوں گی“۔
جو اباً وہ بڑے پیار بھرے انداز میں بولا ” میں تم سے دور کہا جا سکتا ہوں۔ دیکھو میں تمہارے لئے یہ انگوٹھی لے کر آیا ہوں۔ یہ ہیرے کی انگوٹھی پہن کر دیکھو۔ تمہیں کتنی سجتی ہے“۔
اس کی بیٹی انگوٹھی پکڑ کر بولی ”واقعی بہت خوبصورت ہے ۔تمہاری آنکھوں کی طرح چمک ہے اس میں“
”نہیں یہ چمک تمہارے چہرے کی چاندنی کے آگے ماند پڑ جاتی ہے۔ تم وہ ہیراہو جس کی تلاش میں میں برسوں بھٹکتا رہا ہوں۔“
”چل جھوٹے! تم جن لوگ بڑے ہی جھوٹے دغا باز اور باتونی ہوتے ہو۔ بالکل ہمارے مردوں کی طرح عورتوں کو جھانسہ دیتے ہو“۔
اس کے بعد اس کی بیٹی اور اس شخص نے کیا کہا تھا‘ وہ عورت سننے کی تاب نہ لا سکی۔ اس پر یہ عقدہ کھل گیا تھا کہ وہ مرد.... دراصل ایک جن ہے جو اس کی بیٹی کی زندگی بربادکر رہا تھا۔ وہ خوف زدہ ہو گئی۔ پاکباز عورت تھی۔ اللہ اور قرآن پاک پر پورا پورا یقین رکھتی تھی۔ اس نے جلدی سے چاروں قل اورآیت الکرسی پڑھی اور کمرے پر پھونک مار دی۔ جواب میں اندر سے وہ جن اس قدر اذیت ناک انداز میں چیخا کہ پورا کمرہ اس کی دہشت سے تھرا گیا اور صحن میں سوئے مرد عورتیں سبھی جاگ پڑے۔ جن نے بڑی غلیظ گالی دی اور چیخ کر لڑکی سے بولا!
”تیری ماں نے یہ اچھا نہیں کیا۔ میں اسے مار ڈالوں گا“ یہ کہہ کر وہ غائب ہو گیا اور اسی لمحہ لڑکی دندناتی باہر آئی اور ماں کا گریبان پکڑ کر چلائی۔”تو نے کیا کیا ہے۔ وہ کیوں تڑپا ہے‘ بتا ورنہ میں تجھے مار ڈالوں گی“۔
گھر کے مردوں نے فوراً لڑکی کو قابو کیا....مگر اس میں جناتی قوت داخل ہو چکی تھی۔ عورت بدحواس اور خوفزدہ ہو کر بے ہوش ہو گئی تھی۔ اسے قطعی توقع نہیں تھی کہ اس کے دم کرنے کا نتیجہ اتنا خوفناک ہو سکتا ہے۔
ساری صورتحال گھر والوں پر کھل گئی تھی۔ عورت نے جن اور بیٹی کے دوستانہ تعلق کا عقدہ تو نہ کھولا۔ البتہ یہ کہا وہ اسے گمراہ کر رہا ہے۔ پورا گھر محلے کے مولوی صاحب اور پیروں فقیروں کی طرف بھاگا۔ اس دوران روزانہ گھر میں آیت الکریمہ پڑھایا جانے لگا۔ اس کا یہ فائدہ ہوا کہ جتنے روز آیت کریمہ پڑھایا جاتا رہا وہ عفریت نما جن دوبارہ نہیں آیا۔ مگر ان کی بیٹی کی حالت بہت خراب ہو گئی تھی ، دنوں میں سوکھ کر کانٹا ہو گئی۔ چہرہ سیاہ پڑ گیا اور اس سے چلنا پھرنا دوبھر ہو گیا‘ اوپر سے مختلف عاملوں اور پیروں فقیروں نے اسے تعویذ پلا پلا کر پاگل کر دیا تھا۔ پھر آج اسکا باپ حویلی آگیا۔میں نے اس کی داستان سنی ۔میں اسکے ساتھ اسکے گھر گیا۔ وہ ساڑھے پانچ فٹ کی اچھے نین نقش والی لڑکی تھی لیکن اس کی حالت اب انتہائی بدتر ہو چکی تھی۔ میں نے لڑکی سے سوال جواب کئے تو وہ کہنے لگی۔
”شاہ صاحب! آپ جو مرضی کر لیں‘ مگر یہ بات طے ہے کہ میں اس کے بغیر نہیں رہ سکتی“وہ بے قراری سے اٹھ پڑی تھی۔” میں اس سے شادی کروں گی“
اس کی ماں پریشان ہو کر میرا منہ تکنے لگی۔ میں نے اسے سمجھایا ”تم ایک پڑھی لکھی لڑکی ہو اس لئے میری بات جلد سمجھ جاﺅ گی۔ ادھر آرام سے بیٹھ جاﺅ اور غور سے میری بات سنو....“ وہ بے دلی سے بیٹھ گئی تو میں نے اس دوران ایک عمل پڑھا اور اس کے گرد حصار قائم کر دیا اور کہا ”تم اس دائرے سے باہر نہیں نکلو گئی“۔
پھر میں نے اسے سمجھایا ”تم کہتی ہو کہ اس بدذات جن سے تم شادی کر نا چاہتی ہو۔۔۔۔میرے بات یاد رکھو لڑکی۔ اسلام میں کسی عورت کو جن کے ساتھ شادی کی اجازت نہیں ہے۔ وہ تمہیںگمراہ کر رہا ہے۔ تمہارا خون چوس رہا ہے‘ وہ شیطان ہے شیطان وہ آگ سے بنا ہے اور تم مٹی سے۔ تم کبھی گرم کوئلے کو کاغذ پر رکھ کر دیکھو‘ جہاں رکھو گی وہ اسے دھیرے دھیرے جلا ڈالے گا۔ یہی تمہارے ساتھ ہو رہا ہے۔ وہ جن زادہ آگ ہے۔ آگ انسان کی دشمن ہے۔ یہ جنات ہوں یا شیاطین ان کی انسان سے ازل سے دشمنی ہے۔ اللہ اور اس کے رسولﷺ اس بات سے سختی سے منع فرماتے ہیں۔“
میں نے پہلے اسے واعظ کیا تووہ سٹپٹا کر بولی ”وہ آگ نہیں ہے“
”میری بہن وہ آگ ہی ہے مگر تمہیں اس کا شعور نہیں ہے“
”وہ راحت اور سرور ہے‘ ٹھنڈک اور پیار کا سمندر ہے“ لڑکی مخمور لہجے میں بولی اور انگلی میں پہنی انگوٹھی کو سہلانے لگی۔ انگوٹھی پر نظر پڑتے ہی میں چونکا اور اس کی ماں سے پوچھا ”یہ انگوٹھی اس کے منگیتر نے دی ہے“
ماں کے بولنے سے پہلے لڑکی بولی ”وہ مسکین مجھے چاندی کی انگوٹھی لے کر نہیں دے سکا تو ہیرے کی یہ انگوٹھی کہاں سے خرید پاتا“ اس کے لہجے میں تفاخر تھا ”یہ تو میرے جن زادے نے دی ہے“
مجھے یہ سمجھنے میں دیر نہ لگی کہ اس جن نے لڑکی کو پوری طرح اپنے قابو میں کیا ہوا ہے۔ میں نے لڑکی سے کہا ”کیا میں یہ انگوٹھی دیکھ سکتا ہوں“ مجھے لگتا ہے یہ اصلی ہیرے کی نہیں ہے“
اس کی بھنوئیں تن گئیں سخت لہجے میں بولی ”تمہیں ہیرے کی پہچان کیا ہو گی“
”مجھے پتھروں کی پہچان ہے“ میں نے اسے سمجھایا کیونکہ میں اس انگوٹھی کو اپنی دسترس میں کرکے اس جن تک پہنچنا چاہتا تھا۔ یہ جنات کی کمزوری ہوتی ہے ۔جب وہ کوئی شے تحفہ میں کسی انسان کو دیتے ہیں تو اس میں ان کی مانوس خوشبو شامل ہو جاتی ہے۔ اس طرح انہیں یہ احساس رہتا ہے کہ وہ اپنے معمول کے ساتھ ساتھ رہتے ہیں۔ میں نے بڑی مشکل سے اس سے انگوٹھی حاصل کی اور پھر اس پر دم کرکے انے پاس رکھ لی۔
٭٭
لڑکی سٹپٹائی اور حصار سے نکل کر انگوٹھی لینے کے لئے مجھ پر جھپٹی مگر میں نے اسے حصار میں ہی بند کر دیا اور پھر دھونی سلگا کر اور پانی دم کرکے اس کے اوپر چھینٹے مارے اس کے بعد میں نے اسے زیادہ مہلت نہیں دی۔ میں نے انگوٹھی کو سلگتی دھونی کے اندر پھینک دیا تو کچھ ہی دیر بعد وہ جن آگ بگولا ہو کر حاضر ہو گیا۔ لڑکی کی حالت بگڑ گئی اس کا پیلا چہرہ سرخ ہو گیا۔ آنکھیں خون اگلنے لگیںاس کی آنکھوں کی پتلیوں میں مجھے اس جن کا اصلی چہرہ نظر آنے لگا۔ پھر مجھے یہ معلوم کرنے میں دیر نہ لگی کہ اس جن کی حقیقت کیا ہے۔ میں نے حسب روایت اس سے مکالمہ شروع کیا۔ کوئی بھی اچھا عامل سب سے پہلے جنات کا حدوداربعہ اور ان کے مقاصد معلوم کرتا ہے پھر اسے موقع دیتا ہے کہ وہ مغلوب کی جان چھوڑ کر چلا جائے۔ اگر وہ سرکش اور ہٹ دھرم ہو تو پھر عامل اس سے مقابلہ کرتا ہے اور اسے اپنے قابو میں کر لیتا ہے۔ اس موقع پر اگر وہ جن عامل سے طاقتور ہو تو پھر عامل کی خیر نہیں ہوتی۔ نہ صرف عامل بلکہ مغلوب کے گھر والوں کو بھی نقصان پہنچاتا ہے۔
میں نے اس سے اس کا نام پوچھنا چاہا تو وہ زخمی درندے کی طرح ڈکرایا اور بولا ”میں نام نہیں بتاﺅں گا“۔
”تم کہاں کے رہنے والے ہو“؟
اس پر وہ مجھے دھمکی دے کر بولا ” میں جہاں بھی رہتا ہوں تمہیں اس سے کیا؟ یاد رکھو اگر تم نے کوئی عمل پڑھا تو میں اس لڑکی کو بھی مار ڈالوں گا اور تمہیں بھی اور اس بڈھی کو بھی“
لڑکی کی ماں سہم کر دیوار سے لگ گئی۔ میں نے دم شدہ پانی اس پر چھڑکا اور جن سے مخاطب ہوا۔
”بس ایک موقع تمہیں دے رہا ہوں۔ لڑکی کی جان چھوڑ دو اور چلے جاﺅ میں جان گیا ہوں کہ تم یہاں کے رہنے والے نہیں ہو“۔
”تمہیں کیسے پتہ چل سکتا ہے کہ میں یہاںکا رہنے والا نہیں ہوں“۔ وہ خونخوار نظروں سے مجھے دیکھتے ہوئے بولا۔
”یہاںرہنے والے جنات میرے نام سے آگاہ ہیں۔ تمہارا رنگ اور بو اس بات کو ظاہر کرتی ہے کہ تمہاراپنجاب سے تعلق نہیں ہے۔ میں پنجاب کے جنات کی بو پہچان لیتا ہوں .... کیا میں غلط کہہ رہا ہوں“۔
جواب میںوہ مجھے گھور کر رہ گیا۔
میں نے اسے زیادہ موقع نہیں دیا اور اس پر گھیرا تنگ کرنے کے لئے وظیفہ پڑھنے لگا اور جنات کو تسخیر کرنے والا عمل پڑھ کر اسے حصار کے اندر ہی قید کر لیا۔ وہ بہت بھنبھنایا‘ چلایا‘ دھمکیاں دیتا رہا‘ اکڑ دکھاتا رہا لیکن میں نے اسے بے بس کر دیا۔ وہ سرکش جن تھا جو اس کے باوجود جلدی قابو میں آ گیا۔ اس کی عمر ابھی 70سال تھی اور تازہ تازہ بالغ ہوا تھا اس لئے میرے علوم کے آگے زیادہ دیر تک نہ ٹھہر سکا۔ میں نے اسے لڑکی کے اندر سے باہر نکالا اور دھونی تیز کرکے اسے دھوئیں کے اندر قید کر دیا۔ اب وہ اپنی اصلی شکل میں مردہ چھپکلی کی طرح دھوئیں میں بیٹھا تھا۔ عورت صرف اس کی آواز سن سکتی تھی۔ وہ اسے دیکھتی تو غش کھا کر گر جاتی۔ لڑکی بے ہوش ہو کر حصار میں گر گئی تھی۔ عورت اس کی طرف بڑھی تو میں نے اسے روک دیا۔
”ہاں اب بتاﺅ کہ تم کون ہو“ میں نے پورے جلال کے ساتھ اس سے پوچھا
وہ گھگھیا کر ہاتھ جوڑنے لگا بولا ” آپ کو یسوع مسیح کا واسطہ آپ کو اپنے رسولﷺ کا واسطہ مجھے چھوڑ دیں“
”میں تمہیں چھوڑ نہیں سکتا تم بدکردار اور کافر ہو‘ تم نے ایک مسلمان لڑکی کو تباہ کیا ہے میں تمہیں مار ڈالوں گا“۔
وہ کہنے لگا ”میں عیسائی ہوں اور سکھر سے آیا ہوںمیں لاہر کے گوراقبرستان میں اپنے عزیزوں سے ملنے آیا تھا۔ ان کی پوری پکھی یہاں کئی سالوں سے رہ رہی ہے۔ ایک روز میں نے اس لڑکی کو اس کے منگیتر کے ساتھ لاہور کے باغ جناح میں دیکھا۔ میں تب اس پر بیٹھ گیا مجھے اس لڑکی کی خوشبوبڑی اچھی لگتی تھی میرے دوست نے مجھے سمجھایا بھی کہ اسے خراب نہ کروں لیکن میں بہک گیا تھا“۔
میں نے اس کافر جن کو گدی سے پکڑا اور ایک دم شدہ کیل اس کی پیٹھ میں ٹھونک دی۔ وہ دہشت ناک چیخ مار کر بولا ”ہائے میں مر گیا۔ تم نے مجھے اپاہج کر دیا ہے“ پھر میں نے دھونی کو تیز کیا اور اس کا کام تمام کر دیا۔ اس کے بعد بہت سے وظائف پڑھے‘ کمرے کو پاکیزہ کیا اور صدقہ خیرات کیا۔ کسی جن چاہے وہ کافر ہی ہو۔ اسے مارنے کے بعد عامل کو بہت سے حفاظتی وظائف پڑھنے پڑھتے ہیں۔ آدھ گھنٹہ تک میں اپنے وظائف میں مصروف رہنے کے بعد لڑکی کو ہوش میں لایا۔ اسے دم شدہ پانی اور تعویذ دیا۔ جن کے اثرات نے اسے کئی بیماریوں میں مبتلا کر دیا تھا میں نے اس کی ماں کو سمجھایا کہ اسے ٹھیک ہونے میں کم از کم تین ماہ لگیں گے۔
”میں اس لڑکی سے مل سکتا ہوں“ شاہ صاحب خاموش ہوئے تو میں نے تجسّس کے مارے سوال کیا۔
”میں پرسوں دوبارہ وہاں جاﺅں گا۔ یا ہو سکتا ہے وہ لوگ خود ہی کل ادھر حویلی میں آ جائیں۔“ شاہ صاحب کے چہرے پر بڑی جاندار اور معنی خیز مسکراہٹ بار بار نمودار ہو رہی تھی۔
”آپ بہت خوش ہیں۔“ میں نے ان کی اندرونی کیفیت کو بھانپتے ہوئے پوچھا۔
”خوش تو ہوں۔“ وہ مسکرائے بنا نہ رہ سکے۔ ”تمہارے چاچا جی بھی اب نرم ہو گئے ہیں....“
”کیا مطلب....“ میں نے کہا۔ ”پتھر میں گلاب کیسے کھل سکتا ہے....“
”یہ لڑکی انکے دوست کی بیٹی تھی.... اس نے انہیں میرے متعلق بتایا ہے۔ میرا شکریہ ادا کرنے آئے تھے....“
”چلیں یہ تو بہت اچھا ہوا۔“ میرے ذہن سے جیسے منوں بوجھ اتر گیا۔
اور میں سوچنے لگا کہ زلیخا بھی تو ایک سحر زدہ لڑکی ہے۔ اگر کسی پہنچے ہوئے بزرگ سے مشورہ کر کے اسکو بھی سحری اثرات سے آزاد کرا لیا جائے تو ممکن ہے اسکی شخصیت بحال ہو جائے۔ اس وقت بھی میرے دل میں شاہ صاحب کے بارے میں بدگمانی بھری ہوئی تھی۔ یہ بات اپنی جگہ درست تھی کہ میں ان کی پراسرار قوتوں سے متاثر تھا بلکہ یہ سمجھئے کہ خائف اور اس وجہ سے انکی عزت کرتا تھا۔ لیکن زلیخا کا معاملہ جب بھی سامنے آتا میری روح کی بے کلی بڑھ جاتی تھی اور مجھے چاچا جی کی طرح ایک خلش اور بے سکونی کا احساس ہوتا تھا۔ میرا دل بار بار یہ کہتا تھا کہ کہیں نہ کہیں اس سچائی میں کھوٹ ہے۔ مگر یہ کھوٹ کس نے بھری تھی۔ میرے لئے یہ پہچاننا بہت مشکل تھا۔ اس وقت میں نے دل میں طے کر لیا کہ میں ٹاہلی والی سرکار کی بجائے بابا تیلے شاہ کے سامنے یہ معاملہ رکھوں گا اور ان کے سامنے ہاتھ جوڑ کر التجا کروں گا کہ مجھے میری زلیخا واپس لوٹا دیں۔ اسے طاغوتی قوتوں سے آزاد کرا دیں۔ میرے ذہن سے بوجھ کی بھاری چادر تو سرک گئی تھی مگر دل کو جیسے کسی نے مٹھی میں بند کر لیا تھا۔