جنات کا غلام۔۔۔بائیسویں قسط
معروف صحافی اور محقق ’’شاہد نذیر چوہدری ‘‘ کی اپنے سحر میں جکڑ لینے والی تحقیق پر مبنی سچی داستان ’’جنات کا غلام ‘‘
اکیسویں قسط پڑھنے کے لئے کلک کریں
”میرے پاس بیٹھو“ وہ پلنگ پر بیٹھ گئے”غازی .... تم جاﺅ اور باقی سب لوگوں کو بھی بلا لاﺅ“ غازی چلا گیا تو وہ مجھ سے مخاطب ہوئے ”شاہد میاں یہ شاہ صاحب ابھی نادان ہیں۔ جوانی کا عالم ہے۔ میاں تم جانتے ہو۔ ندی ، دریا کے کنارے کمزور ہوں تو پانی میں ذرا سی تیزی آ جانے سے کنارے ٹوٹ جاتے اور پانی بہہ نکلتا ہے۔یہ ریاض شاہ کے اندر علوم کی طغیانی برپا رہتی ہے لیکن اس کا ظرف کمزور ہے۔ اس میں برداشت بہت کم ہے۔ کینہ بھرا ہوا ہے اس میں۔ حالانکہ یہ بات معروف ہے کہ جنات میں کینہ سب سے زیادہ ہوتا ہے۔ ان میں غضب کی شرح انسانوں کی نسبت زیادہ ہے لیکن ہم بھی اس وقت دنگ رہ جاتے ہیں جب کسی انسان کو کینہ اور غضب کی حالت میں دیکھتے ہیں۔ معاف کرنا ، یہ جنات کا روایتی غضب ہی تھا کہ میں ریاض شاہ کی باتوں میں آ گیا“ ان کے لہجے سے شرمندگی جھلک رہی تھی ”میں اب اسے سمجھا دوں گا تو بھی ملک صاحب اور دوسرے لوگوں کے دلوں سے اس کے لئے نفرت کم کر دو۔ اب تم لوگوں کو اس سے کوئی شکایت نہیں ہو گی“
”جی سرکار .... جیسے آپ کہیں گے ویسا ہی ہو گا“ میں اب بے حد خوش تھا۔ ریاض شاہ پر میری یہ فتح تھی۔ میں نے باطل کو حق سے تہ تیغ کر دیا تھا۔ میرا انگ انگ مسرور تھا۔
کچھ دیر بعد ملک صاحب نصیر کو سہارا دیتے ہوئے اندر لے آئے۔ چاچی اور زلیخا بھی ساتھ تھے۔ بابا جی نے ان کے شکوے شکایات بھی سنیں اور ریاض شاہ کی طرف سے معافی مانگ لی اور وعدہ کیا کہ وہ چند روز تک یہاں سے چلے جائیں گے۔ ہم سب مطمئن ہو گئے تھے۔ نصیر اسی رات بھلا چنگا ہو گیا تھا اور زلیخا کی حالت بھی سنبھل گئی تھی۔
لیکن یہ اطمینان تو ایک طفل تسلی تھی۔ ہمیں کیا معلوم تھا کہ طوفان گزر چکا ہے منافقت اور مکر و فریب نے سچائی کا گلا گھونٹ دیا تھا۔ روشنی کو اندھیروں کے اژدھے نے ڈس لیا تھا۔ اگلے روز میں شہر امتحان دینے چلا گیا۔ میرے دل میں آیا کہ بابا تیلے شاہ سے مل آﺅں۔ لیکن میں نے ارادہ بدل دیا کیونکہ اب حویلی کے حالات تبدیل ہو گئے تھے۔ میں شام کے قریب حویلی پہنچا تو اس کا جہازی دروازہ خلاف توقع کھلا ہوا تھا۔ ہر طرف ویرانی اور وحشت کا راج تھا۔ میں اندر گیا تو ملک صاحب چاچی اور نصیر نڈھال سے زمین پر بیٹھے ہوئے تھے۔ مجھے دیکھتے ہی دہائی دینے لگیں۔
”ہم لٹ گئے برباد ہو گئے شاہد پتر“
میں پریشان ہو گیا ”کیا ہوا ہے“
ملک صاحب نے سوجھی ہوئی نظروں سے میری طرف دیکھا۔
”وہ لے گیا ہے زلیخا“
”کون لے گیا ہے“
”ریاض شاہ .... اسے اپنے ساتھ لے گیا ہے“ وہ سرجھکا کر رونے لگے۔
میری ٹانگوں سے جیسے کسی نے جان نکال لی تھی۔ میں نیچے بیٹھ گیا۔
”کک .... کب کیسے .... وہ تو“ میں ہکلا کر رہ گیا۔
”بیٹے یہ سب جھوٹ تھا‘ فریب تھا۔ انہوں نے ہمہیں پھر دھوکا دیا ہے“ چاچی چلانے لگیں ”رات کو رام رام کہہ رہے تھے۔ ہم ان کی چکنی چپڑی باتوں میں آ گئے۔ بابا جی نے وعدہ کیا تھا کہ وہ اب کسی سے زیادتی نہیں کرے گا .... لیکن آج وہ بابا جی کے کہنے پر اسے لے گیا ہے۔ ہم تو برباد ہو گئے پتر جی ہم برباد ہو گئے“ وہ اپنا سر پیٹنے لگیں
”میں اس بے غیرت کو قتل کر دوں گا خدا کی قسم ایک بار مجھے اس کا پتہ مل جائے“ نصیر کی حالت پھر بگڑی ہوئی تھی لیکن وہ اپنی قوتوں کو مجتمع کرکے بول رہا تھا۔
”بابا جی نے کہا تھا کہ زلیخا ہماری امانت ہے۔ ہم نے فیصلہ کیا ہے اسے اپنی بہو بنا کر لے جائیں“ چاچی کہہ رہی تھیں ”اسے کہیں سے ڈھونڈو پتر جی .... ہم تو بہت کوشش کر چکے ہیں“
”میں کہاں تلاش کروں انہیں“ میں سوچنے لگا۔ ”بابا جی آپ نے اچھا نہیں کیا۔ آپ مجھے کس امتحان میں مبتلا کر گئے ہیں۔ ان کی رات کو کی ہوئی ساری باتیں میرے ذہن میں گونجنے لگیں۔ میر ے لبوں پر اب ایک ہی سوال بار بار آ رہا تھا
”بابا جی .... وہ سب کیا تھا۔ کیا آپ بھی جھوٹ اور مکاری اور ہوس کے غلام تھے۔ ایک اسلام پرست جن ایسی گھناﺅنی حرکت کیسے کر سکتا ہے۔ کیا آپ ریاض شاہ کے ہاتھوں اتنے مجبور ہو چکے ہیں کہ اپنے وعدے پر قائم نہیں رہ سکے“ مگر کوئی میرے اس سوال کا جواب نہیں دے سکتا تھا۔ میں نڈھال سے بدن کے ساتھ اٹھا معاً میرے ذہن میں ایک خیال آیا میں نے موٹر سائیکل نکالی اور قبرستان کی طرف چلا گیا۔
موٹر سائیکل قبرستان کے پاس روکی اور بھاگ کر اس قبر کے پاس چلا گیا جہاں ٹاہلی والی سرکار رونق افروز ہوتی تھی۔ ان کے والد گرامی کی قبر پر وہی بوسیدہ بوری کا ٹکڑا پڑا تھا جس پر وہ بیٹھا کرتے تھے۔ وہ پیالا بھی رکھا ہوا تھا جس میں خون ٹپکا کر کالی داس کو پکڑا تھا۔ ٹاہلی والی سرکار وہاں موجود نہیں تھی۔ انہیں اردگرد تلاش کرنے لگا۔ پھر اونچی اونچی آواز میں انہیں پکارنے لگا۔ آواز سن کر درختوں پر پرندے پھڑپھڑا کر اڑ گئے مگر ٹاہلی والی سرکار کی موجودگی کے آثار نہیں ملے۔ میں نیم دلبرداشتہ ہو کر واپس ہونے لگا تو معاً مجھے بہت قریب کتے کے بھونکنے کی آواز سنائی دی۔ ایسا لگ رہا تھا جیسے وہ کسی مصیبت میں پھنسا ہوا ہے۔ میں نے اسے نظرانداز کیا اور قبرستان سے نکلنے لگا تھا کہ کتا دردناک آواز میں بھونکنے لگا۔ اس کے فوراً بعد کسی عورت کی ہذیانی چیخیں سنائی دینے لگیں۔ میں نے آواز کی سمت کا اندازہ لگایا۔
آوازیں شیشم کے ایک بوڑھے درخت کی طرف سے آ رہی تھیں۔ میں ادھر پہنچا تو یہ دیکھ کر لرز کر رہ گیا۔ ایک عورت کا درخت کی کھو میں سر پھنسا ہوا تھا اور اس کا پورا بدن باہر لٹکا ہوا تھا۔ بازو کمر کے پیچھے بندھے ہوئے تھے۔ چیخیں اس عورت کی تھیں
”کک کون ہو تم“ میں اس کے قریب پہنچا تو معاً درخت کی کھو سے کتے کے بھونکنے کی آوازیں آنے لگیں۔ میں گھبرا گیا۔ مجھے کچھ سمجھ نہیں آئی کہ معاملہ کیا ہے۔
میں نے بسم اللہ پڑھ کر عورت کے بازﺅں کی رسیاں کھولیں اور اس کا سر کھو کے شکنجے سے بمشکل نکالا۔ اس کا چہرہ دیکھ کر میں دہشت زدہ ہو گیا۔ اس کی آنکھیں سرخ انگارے کی طرح دہک رہی تھیں۔ زبان کتے کی طرح باہر لٹکی ہوئی تھی اور ابرو کمان کی طرح تنے ہوئے تھے۔ وہ سانسیں یوں لے رہی تھی جیسے کتا ہانپتا ہے۔ اس کی عمر چالیس برس ہو گی، رنگت سانولی اور چہرے پر کرختگی نمایاں تھی۔ ہاتھوں کے ناخن گندے اور بڑھے ہوئے تھے۔ کپڑے قدرے صاف ستھرے تھے۔
”کک کون ہو تم“ میں نے بمشکل پوچھا
”تم نے میری مدد کی ہے۔ بولو میں تمہاری کیا مدد کر سکتی ہوں“ اس کے چہرے سے اب تناﺅ کم ہو رہا تھا مجھے اس سے بے حد خوف محسوس ہو رہا تھا اس سے قبل کہ میں کچھ بولتا ، ٹاہلی والی سرکار کی آواز فضاﺅں کا سینہ چیرتے ہوئے میری سماعتوں سے ٹکرائی۔
”یہ تم نے کیا کر دیا۔ اس خرافہ جادوگرنی کو آزاد کرا دیا ہے تو نے .... غضب کر دیا“
اس سے پہلے کہ میں صورتحال کو سمجھتا۔ وہ عورت کسی عقاب کی طرح اڑتی ہوئی میرے پاس آئی اور اپنے آہن نما ہاتھوں میں میری گردن دبوچ لی۔
”خبردار .... اب جو مجھے ہاتھ لگایا ورنہ میں اسے مار ڈالوں گی“ وہ ہذیانی انداز میں چلائی۔
اس کی آواز سنتے ہی ٹاہلی والی سرکار شیشم کی کھوہ سے باہر نکلنے لگے۔ میں حیران و پریشان تھا اور اس ناقابل بیاں منظر کو دیکھنے لگا۔ وہ کھوہ جس میں اس عورت کا سر پھنسا ہوا تھا اس سے ٹاہلی والی سرکار اپنے پورے وجود اور جاہ وجلال کے ساتھ باہر آ رہے تھے۔
٭٭٭٭
میں اسے کیا لکھوں۔ پاگل پن‘ وہم ، خلجان، جہالت۔۔۔۔۔ لیکن میرے سامنے قفس کے پردوں میں تہہ جما کر ایک وجود کھوہ سے نمودار ہو رہا تھا۔ میں اس حقیقت کو جھٹلا نہیں سکتا تھا۔میرے دیدے پھٹ چکے تھے اور پلکوں کے غلاف کو پھاڑ کر نکل جانا چاہتے تھے۔ وہ خرافہ تھی، چڑیل تھی۔۔۔۔۔ یا کوئی جادوگرنی.... اسکے نوکیلے اور زہریلے ناخن میری گردن میں دھنسے ہوئے تھے۔ میری شاہ رگ پر اس کا استخوانی ہاتھ جما ہوا تھا، نتھنوں سے اٹکتی ہوئی گہری گرم سانسیں کسی نیم مردہ انسان کی طرح نکل رہی تھیں۔ پیشانی کی رگیں کانوں کی لوﺅں تک تن گئی تھیں۔ مگر اس عذاب کنی اور جان کنی سے بے پرواہ ہو کر اس حیران کن منظر کو دیکھ رہا تھا جس کی لطافت نے مجھے ہر اس درد سے بے گانہ کر دیا تھا جو میرے رگ و ریشہ میں سما کر بے کار ہو گیا تھا۔
”ٹھہرو اے بدذات.... چڑیل۔ اسے آنچ بھی نہ آنے پائے۔ خدائے لم یزل کی قسم۔ جس کے قبضہ قدرت میں اس مریل انسان کی جان ہے۔ جو اس کی متاع کل کا مالک ہے۔ اے خنّاس ٹھہر جا۔ افسوس کہ میں تجھے ایک عورت نہیں کہہ سکتا۔ تو نے ایک نرم و لطیف وجود زن میں اپنی شیطانی جبلت کا ڈیرہ ڈال رکھا ہے۔ پس میں تجھے چڑیل ہی کہوں گا۔ میری بات سن لے۔ اگر تو زندہ رہنے کی تمنا رکھتی ہے تو اسکی شہہ رگ سے شیطانی انگلیاں ہٹا لے۔ ورنہ ترے بدن کے ایک ایک ریشہ میں موت کا بارود بھر دوں گا....“
شیشم کی کھوہ سے نکلتے ایک وجود نے اسے تنبیہ کی۔ میں قدرت کی اس کرامت کی ایک جھلک سے مخمور ہو چکا تھا۔ میری پلکوں پر صرف ایک ہی چہرہ محو خواب تھا۔ ٹاہلی والی سرکار.... ان کی آواز میری سماعتوں سے مسلسل ٹکرا رہی تھی اور وہ جسے میں نے کچھ لمحے پہلے اسی کھوہ کے عذاب سے نکالا تھا‘ اس بھونکتی عورت نے مجھے موت کے شکنجوں میں جکڑ دیا تھا۔
”بابا مجھ سے پکا وعدہ کر۔ کچھ نہیں کہے گا تو میں چلی جاﺅں گی.... میں اسے کچھ نہیں کہوں گی۔ اس نے تو میرا بھونکنا بند کرایا۔ میں اسے نہیں مارنا چاہتی.... لیکن تو نے کچھ کہا تو میں اسے مار ڈالوں گی۔ میں تو مروں گی یہ بھی نہیں بچے گا....“
”ٹھہرو.... ٹھہرو....“ ٹاہلی والی سرکار کا غضب کے چولے سے جلالی چہرہ نمودار ہو رہا تھا۔” نہ میں تجھے چھوڑوں گا اور نہ تو اسے کچھ کہے گی.... میں نے اسے تمناﺅں کی پوشاک میں چھپا کر رکھا ہے تو میری پوشاک کو کیسے پھاڑ سکتی ہے۔ تو علم کی صداقتوں اور اسکی پنہائیوں سے غافل ہے۔ تو کیا سمجھتی ہے۔ شیطانی علم تجھے اللہ کی مار سے بچا لے گا.... یہ علم میرا محافظ ہے اور اس کا بھی محافظ ہے تو اسے مار نہیں سکے گی....“ ٹاہلی والی سرکار اس جگہ جم کر کھڑے ہو گئے اور .... پھر انہوں نے دائیں ہاتھ کی انگلی آسمان کی طرف اٹھائی اور زیر لب کچھ پڑھ کر اسکی طرف جھٹک دی.... ایک لمحہ کے نہ جانے کس ثانیے میں یہ ہوا تھا۔ ایک برق سی کوندتی محسوس ہوئی تھی۔ کوئی تیز شے میری گردن میں چبھی تھی اور ساتھ ہی اس خرافہ عورت کی دلدوز چیخ ابھری ۔
”سرکار....“ میرے حلقوم سے آہ نکلی اور میں گردن پر ہاتھ رکھ کر نیچے بیٹھ گیا۔
”میرے بچے تجھے کچھ نہیں ہو گا....“ ٹاہلی والی سرکار نے میرے سر پر اپنا مہربان ہاتھ رکھا۔ میری گردن سے ٹیس اٹھ رہی تھی۔ اس جگہ سے بوند برابر لہو نکلا تھا۔ ٹاہلی والی سرکار نے میرا ہاتھ گردن سے ہٹایا اور زیر لب کچھ پڑھنے لگے۔ پھر اپنا لعاب دہن انگلی پر لگا کر ٹیس والی جگہ پر لگایا تو ایک تیز مگر کیف آور ٹھنڈی سی لہر میرے ریشے ریشے میں رینگ گئی۔ کچھ لمحے بعد درد کافور ہو گیا۔
”میرے بچے۔ اس خرافہ نے ترے اندر اپنا زہر اتار دیا تھا۔ لیکن شافی مطلق کے فضل سے اب اسکا یہ سحری زہر تجھ پر اثر نہیں کرے گا....“ وہ میرے سر پر ہاتھ رکھ کر پوچھنے لگے۔ ”جو مبارک کلمات تجھے سکھائے تھے اسے پڑھتے ہو ناں....“ ان کی آنکھوں میں ایک مخصوص قسم کا مسرت آمیز استفسار تھا۔ میں نے اثبات میں سر ہلایا۔
”اگر تو چاہے تو اپنی روح کی بیٹری کو چارج کر سکتا ہے....“
میں نے غور سے ان کی نظروں میں دیکھا۔
”یہ مبارک کلمات پڑھتے رہا کرو۔ میرا رب ہے ناں جو.... ادھر.... تیری شہ رگ کے قریب رہتا ہے۔ اگر تو اپنے قلب کے محراب میں سربسجود ہو کر ذکر الٰہی کرتے رہو گے تو رب کریم تری دعاﺅں کوسنے لگا۔ لیکن میرے بچے.... لیکن میرے بچے.... یہ سب تمہیں پاکیزہ دامنی سے نصیب ہو گا۔ تری پاکیزہ روح ترے بدن کو مطہر دیکھنا چاہتی ہے۔ میرے بچے.... جس گھر کے مکیں خوش ذوق ہوں اس کے در و بام بھی صاف ستھرے ہوتے ہیں۔ اس گوشت پوست کی عمارت کو آلودگی سے بچائے رکھو گے تو روحانی بالیدگی حاصل کر جاﺅ گے۔“ جب ٹاہلی والی سرکار فلسفہ روحانیت پر بول رہے تھے اس خرافہ عورت کی کراہ سنائی دی تھی۔
”میں جانتا ہوں تو ابھی زندہ ہے....“ ٹاہلی والی سرکار کے لبوں پر مسکراہٹ ابھری۔
”تو جانتا ہے یہ کوئی ہے....“
میں نے نفی میں سر ہلایا
”یہ ان کم ذات اور مرتد عورتوں میں سے ہے جو نام کی مسلمان ہیں۔ مگر شیطان کی آلہ کار بن کر اپنی عزت آبرو اور ایمان بیچ دیتیں اور اپنی غلاظتیں کوچے کوچے میں لے جا کر بکھیرتی ہیں....“
”میں سمجھا نہیں سرکار....“ میں نے لاعلمی کا اظہار کیا۔
”وہ کالی داس.... کا چیلہ۔ یاد ہے۔ جب اسکی حاضری لگائی تھی تو اس نے بتایا کہ ادھر تمہارے شہر میں کچھ مسلمان عورتیں ایک ہندو پنڈت کے پاس جاتی ہیں۔ اور اس سے شیطانی علم سیکھتی ہیں۔ یہ خرافہ ان میں سے ایک ہے۔ دیکھو تو.... اسکی شکل.... لگتا ہے یہ انسانوں کی نسل میں سے ہے۔“
میں نے پلٹ کر اس کی طرف دیکھا تو گھبرا کر پیچھے ہٹ گیا۔ وہ اکڑوں بیٹھی تھی۔ اسکی حالت کسی باﺅلے کتے جیسی تھی۔
”اسکا باطن ظاہر ہو رہا ہے.... میرے بچے....“ ٹاہلی والی سرکار نے نفرت سے اس پر تھوک دیا تو لعاب جونہی اسکے سر پر گرا اسکے اسکے بالوں میں آگ لگ گئی.... وہ باﺅلے کتے کی طرح ادھر ادھر سر مارنے لگی۔ وہ اپنے طور پر چیخ رہی تھی مگر اسکے حلق سے کتے جیسی آواز نکل رہی تھی۔ یوں لگتا تھا جیسے کسی نادیدہ قوت نے اسکے سر کے سوا پورا بدن جکڑ رکھا ہے۔
”یہ شیطانی علم ہے۔ اس نے جو گند کھا کر اور کھلا کر یہ علم سیکھا ہے اب وہ نکل رہا ہے۔ تم نے سنا ہے۔ کتے کو گھی ہضم نہیں ہوتا۔ سو یہ گھی کھانے آئی تھی.... مگر اب اسے نگلا نہیں جا رہا۔ یہ یہاں ادھر.... میرے والد گرامی کی قبر پر آ کر شیطانی عمل کرنے آئی تھی۔ بدبخت کو اسکے جلے نصیب یہاں کھینچ لائے.... اس کا وقت پورا ہو گیا ہو گا۔ تبھی تو یہ یہاں آ گئی....“
میں نے سن رکھا تھا کہ میرے شہر سیالکوٹ میں بعض پیشہ ور کالا جادو کرنے والوں نے ایسی عورتیں پال رکھی تھیں جو ان کے لئے کام کرتی تھیں۔ مکھن سائیں کے بارے میں بھی یہی مشہور تھا۔ اسکے نشئی پیروکار گلی کوچوں میں جا کر اسکے شعبدوں کو کرامات بیان کر کے ڈراتے تھے۔ مگر یہ عورت ایک دوسرے قبیلہ سے تعلق رکھتی تھی۔ مجھے صرف اتنا ہی معلوم تھا کہ بہت سی اوہام پرست عورتیں تعویذ دھاگے اور باقاعدہ کالا جادو سیکھنے کے لئے ایک ہندو پنڈت کے پاس جاتی تھیں۔ ٹاہلی والی سرکار نے اس عورت کو اسکی شیطانی طاقتوں سمیت بے بس کر کے رکھ دیا تھا اور اب وہ اپنی بے بسی پر چلا رہی تھی۔ مجھ سے اسکی یہ حالت دیکھی نہیں جا رہی تھی۔
”سرکار یہ بھونک کیوں رہی ہے....“ میں نے اسکے کراہت آمیز چہرے سے نظریں ہٹاتے ہوئے سوال کیا۔
”بھونکنا تو اس کا کام ہے۔ بھونکتے بھونکتے مر جائے گی یہ۔“ ٹاہلی والی سرکار نے نفرت سے منہ موڑ لیا اور میرا ہاتھ پکڑ کر اپنی چلہ گاہ کی طرف جاتے ہوئے گویا ہوئے۔ ”میرے بچے.... جو مسلمان عورت یا مرد کالا جادو سیکھتا ہے اور پھر اس گندگی میں پورے کا پورا داخل ہو جاتا ہے اپنے آخری ایام میں باﺅلا ہو جاتا ہے۔ کتوں کی طرح بھونکنے لگتا ہے۔ پانی میں اپنی شکل دیکھتا ہے تو اسے اپنے اندر جانور نظر آنے لگتے ہیں۔ اس کی روح مردہ ہو جاتی ہے۔ بلکہ یہ کہوں گا کہ شیطان لعین اس کے اندر ڈیرہ ڈال لیتا ہے۔ اس عورت کی عقل پر اب شیطان سوار ہے تم جانتے ہی ہو شیطان اور جنات کو کتوں کے روپ میں متشکل ہونے کی بھی قدرت حاصل ہے۔ اس لئے تو یہ عام کتے بھی ان کو پہچان لیتے ہیں۔ اس عورت کو اب باﺅلے کتوں کی طرح تڑپ تڑپ کر مر جانا ہے....“
”یہ ہے کون....“ یہ جانتے ہوئے بھی کہ میں کس ماحول میں سانس لے رہا ہوں میرے اندر کے صحافی کا تجسس انگڑائیاں لینے لگا۔
”تمہیں بتایا تو ہے۔ یہ کون ہے کہاں سے آئی ہے‘ اس کو چھوڑو۔ صرف یہ جان لو کہ یہ خرافہ اور بدذات اپنے اصل کو پہنچ رہی ہے....“
”سرکار....“ میں دبے لفظوں میں بولا۔ ”میری خواہش ہے کہ میں اسکے بارے میں جانکاری کروں کہ یہ کون تھی اور پنڈت تک کیسے پہنچی.... میں دراصل....“
”جانتا ہوں میں۔ جانتا ہوں کہ تمہیں کون سی شے تنگ کر رہی ہے....“ ٹاہلی والی سرکار کے لبوں پر مسکان ابھری....“ میں نے حیرت سے ملے جلے تاثرات کے ساتھ دریافت کیا۔ ٹاہلی والی سرکار نے پہلے میری طرف دیکھا۔ ان کی آنکھوں میں وہی مسرت آمیز مسکراہٹ تھی جو نہ جانے کس خوشی یا اطمینان کو ظاہر کرتی تھی پھر انہوں نے سر آسمان کی طرف اٹھایا اور نعرہ مستانہ بلند کرنے لگے....
”حق اللہ.... حق اللہ.... وہ ذات ۔۔۔خالق دوجہاں.... اگر چاہے تو اپنے لطف و کرم سے اس گناہگار کو یہ توفیق دے سکتی ہے میرے بچے....مگر بہت سے حجابات مانع ہیں۔ ہم کچھ نہیں کہنا چاہتے کہ ہم کیا جانتے ہیں۔ کتنے جہانوں کے اسرار ہویدا ہیں ہم پر۔ تم ایسا کرو کہ اس خرافہ سے خود پوچھ لو.... وہ اپنی موت مر رہی ہے۔ کالے جادو کا ناسور اسکے پورے جسم میں پھیل چکا ہے....“
”سرکار....“ میرے ذہن میں جھماکے ہونے لگے۔ اور میں ان کا چہرہ تکنے لگا۔
”کیا ہوا ہے....“
”وہ ریاض شاہ.... سرکار وہ بھی تو کالا جادو کرتے تھے....“ میں اٹک اٹک کر بولنے لگا۔
”مجھے یقین تھا کہ تم یہ بات کرو گے۔ ہاں۔ وہ بھی کرتا تھا۔ لیکن اس نے توبہ کر لی تھی۔ اگرچہ مجھے یہ یقین ہے کہ وہ مکمل طور پر تائب نہیں ہوا تھا.... لیکن اس نے میرے سامنے توبہ کی تھی۔ اور یہ جو توبہ ہے ناں.... یہ اللہ اور بندے کے مابین ایک معاہدہ ہے۔ ہم اس کے درمیان نہیں آ سکتے۔ اگر میں اسکی ”توبہ“ کو منافقت کہتا تو میری سرکار سردار الانبیائ ناراض ہو جاتے۔ دلوں کے حال تو اللہ ہی جانتا ہے۔ اگرچہ ہم انسان اپنی دور اندیشی سے کسی انسان کے حالات سمجھ لیتے ہیں مگر اللہ عزوجل کے معاملات میں اس دور اندیشی کا تقاضا ہوتا ہے کہ ہم اس خالق دوجہاں کی حکمت و اسرار پر بحث اور حجت نہ کریں.... اور اسکے درمیان توبہ کے معاہدہ پر خاموش ہو جائیں.... میرے بچے.... میں نے کہا تھا کہ بہت سے حجابات مانع ہیں۔ ہم بے لاگ نہیں بول سکتے۔ اشاروں کنائیوں میں کچھ کہہ گزرتے ہیں۔ جو سمجھ لیتے ہیں ان کا بھلا اورجو نہ سمجھیں ان کا بھی بھلا۔ ہر پیٹ کا اپنا اپنا ہضم ہوتا ہے میرے بچے۔ میں جانتا تھا تو ریاض شاہ کے بارے میں دریافت کرے گا....“
”سرکار.... وہ زلیخا کو لے گیا ہے....“
”لے گیا ہے۔“ ٹاہلی والی سرکار نے ٹھنڈے لہجے میں کہا ”وہ اس کی امانت تھی۔ سو وہ لے گیا۔“
”نہیں سرکار.... وہ اسے نکال کر لے گیا ہے۔ اس نے اسے مجبور کیا ہو گا۔ اس نے نکاح نہیں کیا زلیخا سے....“ میں تڑپ اٹھا۔ میرے اندر حد سے بڑھی بے بسی پیچ و تاب کھانے لگی تھی اور پھر میں نے گذشتہ روز کے واقعات ٹاہلی والی سرکار کو بیان کر دئیے کہ کس طرح اس نے نصیر کو بے بس کر کے اپنے باپ کے قتل پر اکسایا تھا۔ میرا خیال تھا ٹاہلی والی سرکار یہ سنتے ہی غضب ناک ہو جائیں گے اور وہ کسی طور یہ پسند نہیں کریں گے کہ ریاض شاہ اپنی پراسرار طاقتوں کو اپنے نفس کی تسکین کے لئے استعمال کرتا پھرے۔ مگر وہ یخ ہواﺅں کی طرح سرد تھے۔ کرب و پشیمانی یا قہر و جلال کی ایک پرچھائی بھی ان کے چہرے پر نظر نہیں آئی تھی۔
”یا الٰہی یہ تیرے کیسے بھید ہیں۔ یہ ترے نیکوکار بندے بھی نیکی اور بدی میں تمیز نہیں کر سکتے.... اور کیا.... یہ کسی بدکار کو روک نہیں سکتے.... ادھر.... یہ خرافہ.... چڑیل‘ بھونکتی عورت تو ان کے غضب سے ہلاکت تک پہنچ رہی ہے مگر جب معاملہ ریاض شاہ کی شیطانیت کا آتا ہے تو یہ خاموش ہو جاتے ہیں۔ میرے مولا.... یہ سب کیا ہے۔ یہ کون سے بھید اور کونسی حکمت ہے۔ یہ کیسی مصلحت ہے جو کسی معصوم لڑکی کو بے آبرو ہوتے دیکھنا چاہتی ہے۔ یہ کیسا انصاف ہے کہ ماں باپ اور ایک بھائی لاچارگی سے شیطان صفت کو ان کی عزت کے ساتھ کھیلتے ہوئے خاموش ہے....“ میرے اندر کوئی چیخ چیخ کر اپنے رب کریم سے سوالات کر رہا تھا‘ التجائیں پیش کر رہا تھا.... مجھے یاد ہے.... جب شہہ رگ سے بھی بہت زیادہ قریب میرے اللہ کریم نے میرے سسکتے ہوئے سوالات سنے تو ادھر.... اس لمحے کرب نادیدہ کی چوٹ دار لہر ٹاہلی والی سرکار کے چہرے پر نظر آئی اور وہ ایک فلک شگاف کرب و ابتلا میں ڈوبی چیخ مار کر بے ہوش ہو گئے تھے....
۔۔۔۔۔ میرے اندر سوالات کا تلاطم تھم گیا اور ٹاہلی والی سرکار کی طرف دیکھنے لگا۔ ان کی پلکوں میں چند آنسو دبے ہوئے تھے اور سانسیں تیز سے تیز ہو رہی تھیں۔ مجھے کچھ سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ میں انہیں ہوش میں کیسے لاﺅں.... میرا دل اپنے دکھوں اور پھر ٹاہلی والی سرکار کی حالت غیر دیکھ کر رونے لگا تھا۔
”سرکار.... اٹھیں.... آپ تو سو گئے۔ سرکار....“ میں ان کے سر کو اپنی گود میں رکھ کر اس ماں کی طرح سہلانے لگا جو بھوک سے نڈھال ہو کر اپنے روتے پیٹتے بچے کو نیند میں دلاسوں سے تھپکیاں دیتی ہے۔ یونہی جب خاصی دیر ہو گئی تو ٹاہلی والی سرکار کے لبوں کے تالے کھلنے لگے۔
”حق اللہ.... حق اللہ.... اللہ.... اللہ....“ وہ زیر لب رب ذوالجلال کو پکار رہے تھے.... اس اثنا میں مجھے محسوس ہوا کہ ہم سے کچھ دور بیٹھی بھونکتی عورت خاموش ہو چکی ہے۔ میں نے سوچا کہ وہ مر گئی ہو گی اسی لئے اسکی آواز دم توڑ گئی ہے۔ میں پورے انہماک سے ٹاہلی والی سرکار کی طرف متوجہ تھا۔ جب انہوں نے بولنا شروع کیا اور پھر ان کے لبوں سے ذکر الٰہی کے کلمات ادا ہونے لگے تو مجھے قرار آ گیا۔
”میرے مولا.... تیرا لاکھ لاکھ شکر ہے....“ مجھے اب پورا یقین تھا کہ ٹاہلی والی سرکار کے قلب و نظر پر جو بھی حجا بات مانع تھے انہیں میری التجاﺅں نے پاش پاش کر دیا تھا اور میرے رب ذوالجلال نے انہیں آگہی بخش دی تھی۔
”تو نے.... کیا کر دیا ہے۔“ ٹاہلی والی سرکار جاگ اٹھے اور پھر میرے سامنے بیٹھ گئے....‘ میرے بچے۔ تو نے میرے مولا کو مجھ سے ناراض کر دیا ہے....“ ان کی پلکوں پر ٹھہرے آنسو اب ساون بھادوں کی طرح برسنے لگے تھے۔
”تو نے میری عمر بھر کی کمائی لٹا دی.... مجھے معاف کر دینا میرے بچے.... نہ جانے تو نے کیا کیا ہے۔ کہ مجھ پر کوڑے برسنے لگے....“
میں نے انہیں بتا دیا کہ میں اپنے رب کریم سے کیا کہہ رہا تھا۔
”سرکار ہم جیسے انسان تو بے بس ہوتے ہیں.... وہ یہ جانتے ہوئے بھی کہ اللہ ان کی شہہ رگ سے بھی قریب ہے۔ وہ سمجھتے ہیں کہ آپ جیسے لوگ جو اس ذات اعلیٰ و برتر کے ولی ہیں وہ ان کی مناجات‘ حاجات کو بہتر طریقے سے طلب کرنے کا سلیقہ سکھا دیں گے.... انہیں اندھیروں سے اجالوں کی طرف لے آئیں گے۔ ان کی آشاﺅں اور محرومیوں کے دلدر دور کر دیں گے۔ آپ لوگ اللہ کے ولی جو ٹھہرے‘ اسکے قرب کی نگری میں جو بستے رہتے ہیں۔ آپ کو ہم جیسے انسانوں سے زیادہ سلیقہ آتا ہے مانگنے کا.... آپ اپنے کام کے ماہر ہیں۔ مگر سرکار جب یہ بھرم ٹوٹتا ہے۔ جیسا کہ میرا ٹوٹا.... میرے جیسے انسان اتنے بھی اندھے نہیں ہوتے کہ اچھائی اور برائی کو نہ سمجھ سکتے ہوں۔ مگر اختیار و کاملیت سے تہی ہوتے ہیں۔ ہم تو شعور کی دنیا میں رہتے ہوئے بھی لاشعور کے وجود سے غافل نہیں ہوتے۔ اسی لئے تو سرکار ہمارے اندر تجسس‘ استغفار اور اظہار کے الاﺅ بھڑکتے ہیں۔ کبھی آپ کو اچھے لگتے ہیں کبھی برے‘ سرکار.... یہی الاﺅ مجھے جلا رہا تھا....“ میری بات ابھی جاری تھی کہ ٹاہلی والی سرکار کے چہرے پر ناگواری ابھر آئی۔
”دفع ہو جاﺅ....“ میں ان کی طبیعت کے اس میلان پر حیران رہ گیا۔ اسی اثناءمیں مجھے اپنے عقب میں کتے کے بھونکنے کی آواز آئی تو میں نے پلٹ کر دیکھا۔ وہی عورت اپنی بدہیتی کے سارے لوازمات کے ساتھ خود کو گھسیٹتی ہوئی ہماری طرف آ رہی تھی۔ اس کی زبان کتے کی طرح باہر لٹک رہی تھی اور سیاہ رنگ کا لعاب اس کے دہن سے نیچے ٹپک رہا تھا۔
”تو پھر آ گئی....“
بابا.... اس کی لرزتی ہوئی آواز سنائی دی۔ مجھے معاف کر دے میں.... اپنے گناہوں کو جھیل رہی ہوں۔ میں سچی توبہ کرنا چاہتی ہوں.... مجھے ایک موقع لے دے بابا“ وہ ہانپتی کانپتی ہوئی قریب سے قریب ہو رہی تھی۔ وہ سانس لیتی تو ایسے لگتا جیسے کتا ہانپتا ہے۔
ٹاہلی والی سرکار کے چہرے پر سے تناﺅ کافور ہونے لگا۔
”توبہ.... اے میرے مولا.... ایک شیطان تجھ سے توبہ طلب کر رہا ہے.... میرے مولا.... یہ تیرے اختیار میں ہے جسے تو چاہے معاف کر دے“۔ ٹاہلی والی سرکار زیرلب کہنے لگی” میں کون ہوتا ہوں۔ تیرے اور اس کے بیچ میں آنے والا.... تو چاہے تو اس کی توبہ قبول کر لے.... آخر یہ تیری ہی بندی ہے“ ٹاہلی والی سرکار نے اس کی طرف اب کی بار دیکھا تو ان کی آنکھوں میں ایک بار پھر مسکان اپنے دیئے جلانے لگی تھی۔
”تو ادھر ہی ٹھہر جا.... میں تجھے اپنی بندشوں سے آزاد کرتا ہوں.... اور ادھر....جا.... ادھر جو نلکا ہے ناں.... وہاں جا کر اپنی غلاظتوں کو دھو اور پاکیزگی اختیار کر۔ وضو قائم کر اور اپنے اللہ کے حضور سجدے میں گر کر روتی جا.... اپنی اکھیوں کے سارے آنسو اس کے در کی چوکھٹ پر گرا دے........ وہ ذات اپنے بندے کے آنسوﺅں سے اس کی خطاﺅں کے داغ دھو دےتی ہے.... “یہ کہتے ہوئے ٹاہلی والی سرکار کی آواز رندھ گئی اور پھر انہوں نے کچھ پڑھ کر اس عورت کی طرف ہاتھ جھٹکا تو اس کے بدن کے گرد قائم گرفتیں ڈھیلی پڑ گئیں۔آہستہ آہستہ پہلے اس کی سانس نارمل انسانوں جیسی ہو گئی اور پھر اس کے چہرے کے خدوخال معمول پر آنے لگے۔ اس نے تشکر آمیز نظروں سے ہماری طرف دیکھا اور پھر آہستہ آہستہ چلتی ہوئی پانی کے نلکے کے پاس چلی گئی۔ مگر کچھ لمحے بعد ہی اس کے بھونکنے کی آواز آنے لگی۔