تہلکہ خیز ناول جوآپ کی زندگی بدل سکتا ہے، پندرہویں قسط

تہلکہ خیز ناول جوآپ کی زندگی بدل سکتا ہے، پندرہویں قسط
تہلکہ خیز ناول جوآپ کی زندگی بدل سکتا ہے، پندرہویں قسط

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

میرے دل کی دھڑکن کچھ تیز ہوگئی۔ صالح میری طرف دیکھتے ہوئے بولا:
’’ناعمہ نام ہے تمھاری بیوی کا؟‘‘
میں نے اثبات میں گردن ہلادی۔ صالح نے انگلی سے اشارہ کرکے کہا:
’’یہ والا خیمہ ہے۔‘‘
’’کیا اسے معلوم ہے کہ میں یہاں آرہا ہوں؟‘‘، میں نے دھڑکتے دل کے ساتھ پوچھا۔
’’نہیں۔‘‘، صالح نے جواب دیا۔ پھر ہاتھ سے اشارہ کرکے کہا:
’’یہ ہے تمھاری منزل۔‘‘
میں ہولے ہولے چلتا ہوا خیمے کے قریب پہنچا اور سلام کرکے اندر داخل ہونے کی اجازت چاہی۔ اندر سے ایک آواز آئی جسے سنتے ہی میرے دل کی دھڑکن تیز تر ہوگئی۔
’’آپ کون ہیں؟‘‘

دنیا میں تہلکہ مچانے والا مقبول ترین ناول ،جو زندگی بدل سکتا ہے ۔۔۔ چودہویں قسط پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں۔

’’عبدا للہ۔۔۔‘‘
میری زبان سے عبد اللہ کا نام نکلتے ہی پردہ اٹھا اور ساری دنیا میں اندھیرا چھا گیا۔ اگر روشنی تھی تو صرف اسی ایک چہرے میں جو میرے سامنے تھا۔ وقت، زمانہ، صدیاں اور لمحے سب اپنی جگہ ٹھہرگئے۔ میں خاموش کھڑا ٹکٹکی باندھ کر اسے دیکھتا رہا۔ ناعمہ کا مطلب روشن ہوتا ہے۔ مگر روشنی کا مطلب یہ ہوتا ہے یہ مجھے آج پہلی دفعہ معلوم ہوا تھا۔
ہم جب آخری دفعہ ملے تھے تو زندگی بھر کا ساتھ بڑھاپے کی رفاقت میں ڈھل چکا تھا۔ جب محبت؛ حسن اور جوانی کی محتاج نہیں رہتی۔ مگر ناعمہ نے اپنی جوانی کے تمام ارمانوں اور خوابوں کو میری نذر کردیا تھا۔ اس نے جوانی کے دنوں میں بھی اس وقت میرا ساتھ دیا تھا جب میں نے آسان زندگی چھوڑ کر اپنے لیے کانٹوں بھرے راستے چن لیے تھے۔ اس کے بعد بھی زندگی کے ہر سرد و گرم اور اچھے برے حال میں اس نے پوری طاقت سے میرا ساتھ دیا تھا۔ یہاں تک کہ موت ہم دونوں کے بیچ حائل ہوگئی۔ مگر آج موت کا یہ عارضی پردہ اٹھا تو میرے سامنے چاند کا نور، تاروں کی چمک، سورج کی روشنی، پھولوں کی مہک، کلیوں کی نازکی، شبنم کی تازگی، صبح کا اجالا اور شام کی شفق سب ایک ساتھ ایک ہی چہرے میں جلوہ گر ہوگئے تھے۔ برسوں کی اس رفاقت کو میں چند لمحوں میں سمیٹ کر دیکھنے کی کوشش کررہا تھا۔ ناعمہ کی آنکھوں میں نمی آگئی تھی جو اس کے رخساروں پر بہنے لگی۔ میں نے ہاتھ بڑھاکر اس کے رخساروں سے نمی پونچھی اور اس کے ہاتھوں کو اپنے ہاتھوں میں لے کر کہا:
’’میں نے کہا تھا نا۔ تھوڑا سا انتظار تھوڑا سا صبر۔ یہ جنگ ہم ہی جیتیں گے۔‘‘
’’میں نے کب آپ کی بات کا یقین نہیں کیا تھا۔ اور اب تو میرا یقین حقیقت میں بدل چکا ہے۔ مجھے تو بس ایسا لگ رہا ہے کہ آپ کچھ دیر کے لیے گھر سے باہر گئے تھے اور پھر آگئے۔ ہم نے تھوڑا سا صبر کیا اور بہت بڑی جنگ جیت لی۔‘‘
’’ہمیں جیتنا ہی تھا ناعمہ۔ اللہ نہیں ہارتا۔ اللہ والے بھی نہیں ہارتے۔ وہ دنیا میں پیچھے رہ سکتے ہیں، مگر آخرت میں ہمیشہ سب سے آگے ہوتے ہیں۔‘‘
’’اور اب؟‘‘، ناعمہ نے سوال کرتے ہوئے آنکھیں بند کرلیں۔ شاید وہ تخیل کی آنکھ سے جنت کی اُس دنیا کا تصور کررہی تھی جو اب شروع ہونے والی تھی۔
’’ہم نے خدا کا پیغام عام کرنے کے لیے اپنی فانی زندگی لگادی اور اب بدلے میں خدا جنت کی ابدی زندگی کی کامیابی ہمیں دے گا۔‘‘
یہ کہتے ہوئے میں نے بھی آنکھیں بند کرلیں۔ میرے سامنے اپنی پر مشقت اور جدو جہد سے بھرپور زندگی کا ایک ایک لمحہ آرہا تھا۔ میں نے اپنی نوجوانی اور جوانی کے بہترین سال خدا کے دین کی خدمت کے لیے وقف کردیے تھے۔ اپنی ادھیڑ عمر کی صلاحیتیں اور بڑھاپے کی آخری توانائیاں تک اسی راہ میں جھونک دی تھیں۔ میں ایک غیر معمولی باصلاحیت اور ذہین شخص تھا جو اگر دنیا کی زندگی کو مقصود بنالیتا تو ترقی اور کامیابی کے اعلیٰ مقامات تک باآسانی پہنچ جاتا۔ مگر میں نے سوچ لیا تھا کہ کیرئیر، جائیداد، مقام و مرتبہ اور عزت و شہرت اگر کہیں حاصل کرنی ہے تو آخرت ہی میں حاصل کرنی ہے۔ میں نے زندگی میں خواہشات کے میدان ہی میں خود سے جنگ نہیں کی تھی بلکہ تعصبات اور جذبات سے بھی لڑتا رہا تھا۔ فرقہ واریت، اکابر پرستی اور تعصب سے میں نے کبھی اپنا دامن آلودہ نہیں ہونے دیا۔ خدا کے دین کو ہمیشہ ایمانداری اور عقل سے سمجھا اور اخلاص اور صدق دل سے اس پر عمل کیا۔ اس کے دین کو دنیا بھر میں پھیلایا اور کبھی اس راہ میں کسی ملامت کرنے والے کی ملامت کی پروا نہیں کی۔ اس سفر میں خدا نے جو سب سے بڑا سہارا مجھے دیا وہ ناعمہ کی محبت اور رفاقت تھی جس نے ہر طرح کے حالات میں مجھے لڑنے کا حوصلہ بخشا۔ اور اب ہم دونوں شیطان کے خلاف اپنی جنگ جیت چکے تھے۔ مشقت ختم ہوچکی تھی اور جشن کا وقت تھا۔ ہم اسی حال میں تھے کہ صالح نے کھنکار کر ہمیں اپنی موجودگی کا احساس دلایا اور بولا:
’’آپ لوگ تفصیل سے بعد میں ملیے گا۔ ابھی چلنا ہوگا۔‘‘
اس کے ان الفاظ پر میں واپس اس دنیا میں لوٹ آیا۔ میں نے صالح کا ناعمہ سے تعارف کرایا:
’’یہ صالح ہیں۔‘‘، پھر ہنستے ہوئے میں نے اپنی بات میں اضافہ کیا:
’’یہ کسی بھی وقت مجھے تنہا چھوڑنے پر آمادہ نہیں ہوتے۔‘‘
ناعمہ نے صالح کو دیکھتے ہوئے کہا:
’’میں انہیں جانتی ہوں۔ مجھے یہاں پر یہی چھوڑ کر گئے تھے اور اسی وقت آپ کے بارے میں بتادیا تھا۔ وگرنہ میں بہت پریشان رہتی۔‘‘
میں نے صالح کی طرف مڑتے ہوئے کہا:
’’تم مجھ سے الگ ہی کب ہوئے ہو جو ناعمہ کو یہاں چھوڑنے آگئے تھے۔‘‘
’’تمھیں غالباً یاد نہیں۔ جس وقت تم اوپر بیٹھے پروردگار کے حضور حشر کے میدان میں گھومنے پھرنے کا پروانہ لے رہے تھے اس وقت میں تمھارے برابر سے اٹھ گیا تھا۔ عبداللہ! یہ تمھاری کمزوری بھی ہے اور طاقت بھی کہ جب تم خدا کے ساتھ ہوتے ہو تو تمھیں اردگرد کا ہوش نہیں ہوتا۔‘‘
’’ہوش تو مجھے تھوڑی دیر پہلے بھی نہیں تھا، مگر اس وقت تو تم ٹلے نہیں۔‘‘
’’ہاں میں اگر ٹل جاتا تو پھر تم سے اگلی ملاقات یوم حشر کے بعد ہی ہوتی۔ ویسے تم انسان بڑے ناشکرے ہو اور بھلکڑ بھی۔ بھول گئے تمھیں کہاں جانا ہے؟‘‘
’’اوہو، ناعمہ! ہمیں چلنا ہوگا۔ تم یہیں رکو میں کچھ دیر میں آتا ہوں۔‘‘
’’مگر ہمارے بچے؟‘‘
’’وہ بھی ٹھیک ہیں۔ تم انہیں یہاں تلاش کرو۔ قریب میں کہیں مل جائیں گے۔ وگرنہ میں تھوڑی دیر میں سب کو لے کر خود آجاؤں گا۔ ابھی مجھے فوراً میدان حشر میں لوٹنا ہے۔ ملنا ملانا اس کے بعد عمر بھر ہوتا رہے گا۔‘‘
اس آخری سوال کے بعد یہاں میرے رکنے کی گنجائش ختم ہوچکی تھی۔ کیونکہ مجھے جواب میں ان دو بچوں کے بارے میں بھی بتانا پڑتا جو یہاں نہیں تھے اور یہ ایک بہت تکلیف دہ کام تھا۔
ناعمہ نے کچھ سمجھتے ہوئے اور کچھ نہ سمجھنے کے انداز میں گردن ہلادی۔(جاری ہے)

تہلکہ خیز ناول جوآپ کی زندگی بدل سکتا ہے، سولہویں قسط پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں