سوشل میڈیا اورزبان کا استعمال
اللہ رب العزت نے پوری کائنات کو بڑا ہی وسیع وعریض بنایا ہے اور انسان کو اشرف المخلوقات بنا کر اس کائنات کی خوبصورتی کو بھی یقینی بنا دیا گیا ہے۔ انسان سر تا پا احسن تقویم ہے۔ آنکھوں سے دیکھتا ہے کانوں سے سنتا ہے۔دماغ سے سوچتا ہے ہاتھوں سے کام لیتا ہے پاوئں پر چل کر اسی کائنات کی سیاحت کرکے اپنے آپ کو علم سے مزین کرتا ہے اور پھر زبان سے سارا کچھ بیان کر کے لوگوں کو محو حیرت کردیتا ہے۔اس سارے عمل کے دوران وہ مشاہدات اور تجربات کے عمل سے گزر کر ایک نتیجے پر پہنچتا ہے اور نتیجے کی پرکھ پرچول کر کے قوانین بنا دیتا ہے تاکہ ہر چیز اپنے مدار میں ہی رہے اور کائنات میں نظم و نسق کا ایک نظام ہر وقت برقرار رہے۔ تاہم انسان بھلن ہار تو ہے ہی سہی اکثر اوقات وہ اپنی حقیقت بھول جاتا ہے۔ اپنے صانع کو بھول جاتا ہے۔ یہاں تک کہ اس جہان رنگ وبو میں اپنے ہونے تک کو بھول جاتا ہے۔ اپنی اوقات بھی بھول جاتا ہے کہ وہ محض ایک قطرے سے پیدا کیا گیا ہے۔ وہ اپنا اگلا پڑاؤ بھی بھول جاتا ہے جہاں ہر چیز اس کے خلاف گواہ بنے گی،جہاں شہادت کے لئے سمن یا وارنٹ نہیں نکالے جاتے جہاں پراسیکیوشن کا کوئی مینڈیٹ نہیں ہے جہاں دھونس دھاندلی کا داخلہ مکمل طور پر بند کردیا گیا ہے،بلکہ وہاں نظام ہی سکے بند ہے۔ اس بھول کو ختم کرنے کے لئے ویسے تو دنیا میں ہی اللہ تعالیٰ نے ایک نظام وضع کیا ہے وہ مختلف اوقات میں مبشرین اور منذرین بھیج کر انسان کو اس کی اوقات یاد دلاتا ہے۔ دنیا کا نظام کوئی شتر بے مہار نہیں ہے اس کی باقاعدہ ریکارڈنگ ہورہی ہے اور ازل سے ہی اس ریکارڈ کی آٹومیشن ہو چکی ہے اس میں سسٹم کے تابع چیزیں ایڈٹ بھی ہورہی ہیں اور ڈیلیٹ بھی ہو رہی ہیں۔ اپ ڈیشن کے لئے فکر مند ہونے ضرورت نہیں ہے۔ انسان جلد باز ہے، انسان خسارے میں ہے اور انسان گھاٹے میں ہے شاید اسی لئے اپنے سر میں گھٹا ڈال کر رسوائے زمانہ ہورہا ہے اور اپنی آنکھوں سے کام نہیں لے رہا ہے۔ کھاتا پیتا ہے روتا دھوتا ہے۔ لمبی تان کر سوتا ہے اور ایک دن مر جاتا ہے۔ تاہم جن لوگوں نے اپنے آپ کو الکتاب اور صاحب کتاب کے ساتھ جوڑ لیا ان کا معاملہ بالکل ہی مختلف ہے وہ جنت میں جائیں گے،جہاں دودھ کی نہریں ہیں جہاں ان کی خدمت پر ملائکہ اور حوریں مامور ہوں گی جہاں ان کے لئے کسی بھی چیز کا حصول ناممکن نہ ہو گا اور پھر جہاں ایسی ایسی نعمتیں ہوں گی جن کے بارے میں نہ تو انسان نے سنا ہوگا اور نہ ہی اس کی آنکھوں نے دیکھا ہو گا۔ پھر حضرت انسان یہاں ہمیشہ رہے گا۔ جنت تو ہمیں باپ کے ورثے میں ملے گی۔
قرآن مجید فرقان حمید کی سورہ النساء میں اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں ”کوئی بری بات زبان سے نکالنا اللہ کو ہر گز پسند نہیں ہے۔ ہاں ظلم کے جواب میں زبان کھول سکتے ہیں اللہ سنتا بھی خوب ہے اور جانتا بھی خوب ہے اِس لئے اگر ظاہری طور پر یا خفیہ طور پر اچھی بات کروگے یا کم از کم برائی سے در گزر ہی کرتے رہو گے تو یہ زیادہ بہتر ہے اور اللہ بھی طاقت کے باوجود درگزر ہی فرماتا ہے“ یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ کردار سازی میں زبان کے استعمال کو بڑی اہمیت حاصل ہے۔ مسلمانوں کا مکی دور بھی اور ابتدائی مدنی دور بھی ظلم برداشت کرنے کا دور تھا۔ جب ظلم ہورہا ہو تو کمزور آدمی زبان کا استعمال کرتا ہے یا اونچی آواز میں یا آہستہ۔ یہاں کسی بھی یاوہ گوئی سے منع کیا جارہا ہے۔ چپ کر ہونٹوں کو سی۔ اف نہ کر تیرے مقام اور مرتبے کو زیب نہیں دیتا۔ نہ گالی نہ گلہ۔ نہ مذاق نہ ٹھٹھہ، چونکہ تیرا جس کے ساتھ تعلق ہے اس کو یہ پسند نہیں ہے۔درگزر کرو کیونکہ تمہارا رب ساری طاقتوں کے باوجود درگزر کررہا ہے۔ اسلام نے شائستگی کا درس دیا ہے۔ اعتدال کی راہ کو سب سے بہتر قرار دیا گیا ہے۔ روزہ محض بھوکا پیاسا رہنے کا نام نہیں ہے۔ اس دوران سارے اعضا کا بھی روزہ رکھنا پڑتا ہے اور زبان کے روزے کو بھی یقینی بنایا جاتا ہے۔ ابا تبا بولنا بڑے بڑے واقعات کو جنم دیتا ہے شاید اسی لئے کہا جاتا ہے پہلے تولو پھر بولو۔ زبان انسان کو سر پر بھی بٹھا سکتی ہے اور ذلیل ورسوا بھی کر سکتی ہے۔ ویسے بھی انسان زبان کی کمائی کھاتا ہے۔ مولانا روم کہتے ہیں جو جان گیا وہ خاموش ہو جاتا ہے۔ علامہ اقبالؒ یوں گویا ہوئے ”خموش اے دل بھری محفل میں چلانا نہیں اچھا“ اور سلطان باہو کا خیال ہے ”عشق جنہاندی ہڈی رچیا پھردے چپ چپاتے ہو“ ویسے یہ بھی کہا گیا ہے کہ بول کہ لب آزاد ہیں تیرے۔ اندھیرے میں بول کر اپنا خوف ختم کیا جا سکتا ہے۔ اس ساری صورتحال کے پیش نظر سب سے بہتر اعتدال کا راستہ ہے اور راہ راست چلو گرچہ دور است۔ سمندر کو کوزے میں بند کرنے کے لئے ضروری ہے کہ وضاحت کی جائے کہ زبان کے استعمال میں انسان کو انتہائی محتاط ہونا چاہئے۔ ہمیں معلوم ہونا چاہئے کہ نشہ آور چیز کھانے کا نتیجہ غل غپاڑہ ہوتا ہے اور غل غپاڑے کے نتیجے میں امن و سکون تہس نہس ہو جاتا ہے۔ پھر تو قانون حرکت میں آئے گا اور پھر کچھ بھی ہو سکتا ہے۔ آگے آگے دیکھئے ہوتا ہے کیا اور پھر اگلاجہان الحفیظ الامان۔
سائنسی ایجادات کامثبت اور منفی دونوں لحاظ سے استعمال کیا جا سکتا ہے۔ بدقسمتی ہے کہ ہمیں اس بات کا شعوری احساس نہیں ہے۔ انسان جو بھی کرتا ہے اس کا مقصد کائنات کو خوبصورت بنانا ہے اور انسانی زندگی کو آرام دہ اور سہل بنانا ہے، لیکن شیطان ہمارے دِل میں طرح طرح کی منفی باتیں ڈال دیتا ہے اور ہم بھی بغیر فل سٹاپ قومہ شروع ہو جاتے ہیں اور پھر اللہ کی پناہ۔ جب سے سوشل میڈیا آیا ہے۔ ویسے تو ایک اپنی نوعیت کا انقلاب آگیا ہے۔ مشرق اور مغرب میں مقیم لوگوں کے رابطے آسان۔ کھلی گپ شپ۔ تبصرے اور رائے عامہ وغیرہ وغیرہ، لیکن اس کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ جس کے منہ میں جو بات آتی ہے کہے جاتا ہے۔ بحث تمحیص، لڑائی جھگڑا، گالی گلوچ، بڑھکیں شڑھکیں، لعن طعن، الزام تراشیاں، دعوے شعوے اور اسی طرح کی واہیاتیاں۔ ملکوں ملکوں کے درمیان نفرت پیدا کی جا رہی ہے۔ ادیان کا اصل حلیہ بگاڑا جا رہا ہے۔ قوموں کی تاریخ پوری طرح ہی مسخ کی جا رہی ہے۔ لوگوں کے درمیان نفرت پھیلائی جا رہی ہے۔ حکومتوں کو عوام کے ساتھ اور عوام کو ایک دوسرے کے ساتھ لڑایا جا رہا ہے۔ اشتہارات کی بوچھاڑ کر کے کساد بازاری اور سٹہ بازی کو ایک نئے رنگ سے تقویت دی جا رہی ہے۔ مافیاز کے نمائندگان اپنی چرب زبانی کی بدولت استحصالی قوتوں کو مزید تقویت دینے میں برسرپیکار ہیں۔یہ سارا کچھ زبان درازی کی بدولت ہے اور اوپر سے سوشل میڈیا۔ متذکرہ بالا سطور میں سورہ النساء کی آیات کا حوالہ دیا گیا ہے۔ کاش ہم ان آیات کی روح کو سمجھتے تو شاید بات کرنے سے پہلے اس کی اہمیت و افادیت کی مکمل جانچ پڑتال کرتے اور پھر بات کو سپرد سوشل میڈیا کرتے۔ یوں بات بات میں فرق ہوتا۔ ہم خیر کے نمائندے بنتے نہ کہ شر کو پھیلا کر شیطانی قوتوں کو فروغ دیتے۔ ہدایت کے دروازے ہمیشہ کھلے رہتے ہیں۔ ابھی بھی کچھ نہیں بگڑا ہے ہمیں فوری طور پر رجوع کرنا ہو گا۔ درگزر کی پالیسی پر عمل کرنا ہی وقت کی ضرورت ہے۔ ہم احساس ذمہ داری کا مظاہرہ کریں اور ہوش کے ناخن لیں اور ہر جمعہ کو ناخن ترشوائیں اور راغب الی اللہ ہو جائیں۔ سوشل میڈیا کے ذریعے ہم بشارت دینے والوں اور ڈرانے والوں کے پیغام کا اعادہ کر سکتے ہیں اور یوں ہم انعام یافتہ لوگوں کے راستہ پر چلنے میں کامیاب ہو جائیں گے۔ یہی صراط مستقیم ہے۔
٭٭٭٭٭