میرا شیندور ،پاکستان کے ماتھے کا سندور

میرا شیندور ،پاکستان کے ماتھے کا سندور
میرا شیندور ،پاکستان کے ماتھے کا سندور

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

میں بطور سیاح تقریباً تمام شمالی علاقہ جات کا سفر کر چکا ہوں مجھے یہاں کی ثقافت اور طرز بود و باش لبھاتے ہیں۔ سیاحوں کے ساتھ یہاں کے لوگوں کا رویّہ اور حُسن سلوک قابل مثال ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ شمالی علاقہ جات پاکستان میں اللہ کی بہت بڑی نعمت ہیں ایک ایک درے پر گھنٹوں بات ہو سکتی ہے۔ سب سے بڑی بات یہ کہ یہاں کے لوگ زمانے کی بدلتے انداز کے ساتھ بالکل نہیں بدلے بلکہ یہاں کے باسی اپنی صدیوں پرانی تہذیب و ثقافت اور طرز رہن سہن کو زندہ رکھے ہوئے ہیں یہی وجہ ہے کہ شمالی علاقہ جات کا حسن کبھی ماند نہیں پڑا۔ یہاں پر ایک ہی جگہ ایک بار آکر دل نہیں بھرتا آپ جب بھی آئیں گے اسکی کشش اور قدرتی خوبصورتی آپ کو مبہوت کر دے گی بار بارآپ کو ایسے لگے گا جیسے پہاڑ جہاں سے آپ گزر چکے ہیں آپ کو آواز دے رہے ہیں اور اپنی بلندیوں اور خوبصورتی پر فخر کر رہے ہیں ۔

پاکستان میں سیروسیاحت کرنے والے افراد شیندور پاس سے ضرور واقف ہوں گے ۔یہ درہ جوسطح سمندر سے 3700میٹر یعنی (12200فٹ) بلند کوہ ہندوکش میں واقع ہے ، ضلع چترال کو ضلع غذر اور گلگت سے ملاتا ہے اور صدیوں سے لوگ یہ درہ پیدل کراس کرتے آئے ہیں جبکہ موجودہ دور میں ایک پرائیویٹ ٹرانسپورٹ کمپنی مسافروں کی سہولت کے لیے کام کر رہی ہے۔ روزانہ کی بنیاد پر ایک منی بس گلگت سے براستہ شیندور پاس سے مستوج تک جاتی اور پھروہاں سے باآسانی چترال تک سفر کیا جا سکتا ہے۔
شیندور کو گورنمنٹ آف پاکستان نے نیشنل پارک کا درجہ بھی دے دیا ہے یہاں پر مختلف اقسام کے جنگلی جانور دیکھے جا سکتے ہیں جس میں سر فہرست جنگلی یاک ہیں جو غول در غول وادی میں گھومتے نظر آتے ہیں جو کہ خطرناک اور وحشت ناک ہونے کے باوجود انسان دوست جانور ہے۔ اس کے علاوہ آئی بیکس ، لومڑی ، چیتا ، مار خور بھی پائے جاتے ہیں۔ ٹراؤٹ فش بھی اس علاقے کی سوغات ہے لوگ کافی ملنسار اور سادہ گرز زندگی اپنائے ہوئے ہیں یہاں کی مقامی زبانیں بلتی، شینار خوار وغیرہ ہیں یہاں کے لوگ فراخ دل اور مہمان نواز ہیں۔
شیندور پاس کے ٹاپ ہر ایک نہایت خوبصورت دلکش جھیل بھی واقع ہے جو اپنے محل وقوع اور دلکشی میں اپنا ثانی نہیں رکھتی۔ ٹھہری ہوئی اس جھیل جسے عمومی طور پر شیندور لیک سے جانا جاتا ہے کے اردگرد کوہ ہندوکش کے بلند و بالا پہاڑ چاندی کی طرح چمکتی سفید برف کی چادر اوڑھے آسمان تک جاتے دکھائی دیتے ہیں جب ان بلند و بالا پہاڑوں کا عکس جھیل سے دکھائی دیتا ہے تو قدرت سے پیار کرنے والا ہر شخص قدرت کی حسین صناعی کی تعریف کئے بغیر نہیں رہ سکتا ۔یہ درہ عمومی طور پر مئی سے نومبر تک کھلا رہتا ہے ۔یہاں کا موسم لمحہ بہ لمحہ اپنا رنگ بدلتا ہے۔ ابھی دھوپ نکلی ہوئی ہوتی ہے اور اچانک زور دار گرج چمک کے ساتھ کالے بادل امڈ آتے ہیں۔ ٹھنڈی یخ بستہ ہوائیں اور بارش ہونے لگتی ہے۔ ژالہ باری بھی ضرور ہوتی ہے خاموش جھیل کی وسعت اور ٹھہراؤ دیکھ کر اس سے آگے بڑھ جانے کو جی نہیں کرتا۔
شیندور پاس کی ایک اور بین الاقوامی وجہ شہرت یہاں کا پولو گراؤنڈ ہے جسے پوری دنیا میں بلند ترین پولو گراؤنڈ مانا جاتا ہے۔ شیندور جھیل کے ساتھ یہ گراؤنڈ قدرتی طور پر ہموار ہے میں ساتھ ساتھ یہ بتاتا چلوں کہ یہاں پر1935سے پولو کا کھیل کھیلا جا رہا ہے جو کہ اب ایک قومی اور مقامی تہوار کی شکل اختیار کر چکا ہے اس کھیل کا آغاز ایک بلتی راجہ علی شیرا چن نے کروایا جو کہ خود بھی پولو کا کھلاڑی تھا۔ ہر سال جولائی کے آغاز پر یہ فیسٹیول (Festivel)منایا جاتا ہے جس میں چترال گلگت اور سکردو کی ٹیمیں حصہ لیتی ہیں۔ پورا سال اس کھیل کے لیے تیاریاں کی جاتی ہیں۔ قومی اور بین الاقوامی میڈیا اس کی کوریج کے لیے موجود ہوتا ہے ہر سال یہ فیسٹیول پاکستان آرمی کے زیر نگرانی کروایا جاتا ہے۔
پولو گراؤنڈ کے قریب خیمہ بستی آباد ہوتی ہے ۔کھانے پینے کے سٹال اور دور دراز سے آنے والے سیاحوں اور شائقین کے لیے مکمل سکیورٹی کا انتظام کیا جاتا ہے۔ شیندور پولو فیسٹیول دیکھنے کے لیے براستہ گلگلت با آسانی ٹرانسپورٹ دستیاب ہوتی ہے اور راستہ بھی قدرے کم خطرناک ہے جبکہ اپر دیر براستہ لواری ٹاپ ، چترال، بونی اور مستوج سے راستہ قدرے خطرناک ہے اور تقریباً جیب ٹریک ہے۔ عام گاڑیوں کے لیے راستہ موزوں نہیں ہے بہرحال شوق اور جنون کے آگے منزل ہمیشہ سرنگوں ہی رہتی ہے اور یہ پولو فیسٹیول تقریباً چار دن جاری رہتا ہے اور آخری دن فائنل دیکھنے کے لیے شائقین کا بے تحاشا رش ہوتا ہے۔
اس کھیل میں عمومی طور پر ایک ٹیم 6کھلاڑیوں پر مشتمل ہوتی ہے اور 2سے4کھلاڑی اضافی بھی تیار ہوتے ہیں چونکہ یہ کھیل گھوڑوں پر کھیلا جاتا ہے تو کھلاڑی کے گر کر زخمی ہو جانے کی صورت میں متبادل کھلاڑی اپنے تازہ دم گھوڑے کے ساتھ تیار ہوتے ہیں۔ عمومی طور پر چترال اور گلگت کی ٹیمیں ہی آگے نکل کر آتی ہیں انہی کے درمیان فائنل کھیلا جاتا ہے جس میں زیادہ میچ جیتنے کا تناسب چترال کو ہوتا ہے۔ 2016ء میں بھی چترال کی ٹیم فاتح رہی فائنل میچ دیکھنے کے لیے اس وقت کے موجودہ چیف آف آرمی سٹاف محترم جنرل راحیل شریف صاحب خود موجود تھے جب فائنل کھیلا جا رہا تھا تو کھلاڑیوں کیساتھ ساتھ شائقین کا جوش و خروش بھی قابل دید تھا ۔اس کھیل میں دو راؤنڈ ہوتے ہیں ہر ایک راؤنڈ ایک گھنٹے پر مشتمل ہوتا ہے۔ آخری یعنی دوسرے راؤنڈ میں کھلاڑیوں کی پھرتی اور چستی کامیابی کا فیصلہ کرتی ہے۔ ہر کھلاڑی اپنی صلاحیتوں اور مہارت کو پوری تن دہی سے استعمال کرتا ہے۔ میچ کا ایک ایک لمحہ قیتی ہوتا جاتا ہے۔ آخر کار بہت کم مارجن سے ہار اور جیت کا فیصلہ ہوتا ہے فاتح ٹیم فخر کے ساتھ روایتی انداز میں گراؤنڈ کا چکر لگاتی ہے اور شائقین اپنی ٹیم کو روایتی اور منفرد انداز میں مبارک باد پیش کرتے ہیں جس میں علاقائی ڈانس کو بہت اہمیت حاصل ہے ۔ مہمان خصوصی فاتح ٹیم کو ٹرافی اور نقد انعامات سے نوازتا ہے اس طرح یہ سلسلہ سینکڑوں سالوں سے چلتا آرہا ہے اور چلتا رہے گا۔ یہ پولو فیسٹیول جس کی پورا سال بڑے جوش و خروش سے تیاری کی جاتی ہے اس علاقے کی وجہ شہرت بنا ہوا ہے۔ ہمارے شمالی علاقہ جات اپنی صدیوں پرانی ثقافت اور رہن سہن کو روایتی انداز میں زندہ رکھے ہوئے ہیں۔

.

نوٹ: روزنامہ پاکستان میں شائع ہونے والے بلاگز لکھاری کا ذاتی نقطہ نظر ہیں۔ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں۔

مزید :

بلاگ -