پاکستان کی بدنامی کا باعث بننے والے
متحدہ عرب امارات (یو اے ای) میں ہونے والے 50 فیصد جرائم میں مبینہ طور پر پاکستانیوں کے ملوث ہونے کا انکشاف ہوا ہے۔ سینٹ کی قائمہ کمیٹی برائے اوورسیز پاکستانی کے اجلاس میں وزارت سمندر پار پاکستانیز نے اپنی بریفنگ میں بتایا کہ سعودی عرب نے مطالبہ کیا ہے کہ بھکاری‘ بیمار لوگوں اور سکلز کے بغیر یعنی غیر ماہر لوگ نہ بھیجیں۔ اس معلومات پر قائمہ کمیٹی نے 4 ہزار ایمپلائمنٹ کمپنیوں کی تفصیلات طلب کر لیں۔ کچھ عرصہ پہلے سعودی عرب کی جانب سے 92 نرسیں ڈگریاں نہ ہونے کے باعث واپس بھجوائے جانے کا انکشاف ہوا تھا۔ سیکرٹری وزارت اوورسیز نے بتایا کہ اس معاملے کی تحقیقات میں پتا چلا کہ نرسوں کی واپسی کا ذمہ دار مڈل مین ہے۔ بی بی سی کی ایک رپورٹ کے مطابق 16جون 2023ء کو سعودی عرب کی حکومت نے وزیر اعظم آفس کو سعودی عرب میں بھیک مانگنے، جسم فروشی، منشیات کی سمگلنگ اور سفری دستاویزات میں جعل سازی جیسے بڑھتے ہوئے جرائم میں پاکستانیوں کے ملوث ہونے کے متعلق تحریری طور پر آگاہ کیا۔ سعودی عرب کی باضابطہ شکایت کے بعد وزیر اعظم آفس نے وزارت داخلہ اور اس کے ذیلی اداروں، بشمول ایف آئی اے، کو ہدایات جاری کیں جس کے بعد ایف آئی اے نے سعودی عرب سمیت دیگر مشرق وسطی ممالک جانے والے پاکستانیوں کی تمام ہوائی اڈوں پر پروفائلنگ شروع کر دی۔ امید ہے اس کے مثبت نتائج نکلیں گے۔ دوسرے ممالک ہمارے شہریوں کے ایسے رویوں اور اخلاقیات سے مایوس ہو رہے ہیں۔ اس سے پاکستان کی ساکھ متاثر ہو رہی ہے اور اگر یہ سلسلہ بلا کسی روک ٹوک کے جاری رہا تو پاکستانیوں کے بیرون ملک جانے کے سلسلے پر پابندی بھی لگ سکتی ہے۔
سوال یہ ہے کہ بیرون ملک جانے والے (کچھ) لوگ ہمارے ملک کی نیک نامی کی بجائے بدنامی کا باعث کیوں بنتے ہیں؟ اس سوال کا جواب ہمارے رویوں اور طرزِ عمل میں مضمر ہے۔ اس کی بنیادی وجہ وہی ہے جس کے باعث اندرون ملک ایک خلفشار کی صورت حال اور نفسا نفسی کا عالم ہے۔ یہ کہ ہمیں اپنے نجی اور ذاتی مفادات ملک اور قوم کے اجتماعی مفادات سے زیادہ عزیز ہو چکے ہیں۔ ہم یہ سوچتے ہیں کہ جو ہمیں چاہیے‘ وہ ہمیں مل جانا چاہیے‘ اس کا ہمارے ملک کو جتنا بھی نقصان ہو جائے کوئی مسئلہ نہیں۔ سیاست سے لے کر معیشت تک اور تعلیم سے لے کر تجارت تک ہر جگہ آپ کو یہی رویہ نظر آئے گا۔ یہی وجہ ہے کہ ہم سے بعد میں آزاد ہونے والا بنگلہ دیش معاشی ترقی کے میدان میں کہیں آگے نکل چکا ہے جبکہ ہم آج بھی آئی ایم ایف کے قرضوں کے مرہون منت ہیں۔ یہ طے ہے کہ جب تک ذاتی مفادات کو اجتماعی مفادات پر ترجیح دینے کا یہ سلسلہ ختم نہیں ہوتا یا ترک نہیں کیا جاتا اس وقت تک اس ملک کے حالات بہتر ہونا ممکن نہیں ہے۔ ملک میں جو سیاست ہو رہی ہے اسی کو دیکھ لیں۔ آپ پر سب کچھ واضح ہو جائے گا۔ اس پورے سیاسی عمل میں کہیں بھی آپ کو یہ نظر آتا ہے کہ عوام کے لیے کچھ کیا جا رہا ہے؟ عوام کی بہبود اور بہتری کے لیے کچھ سوچا جا رہا ہے؟ عوام کے مسائل حل کرنے کے لیے کچھ اقدامات کیے جا رہے ہیں یا کرنے کے بارے میں سوچا جا رہا ہے؟ ہمارے رہنماؤں کا ہر بیان اور ہر فیصلہ کچھ ایسا نظر آتا ہے جیسے ’بس مجھے میرے پسند کی چیزیں‘ پسند کا ماحول مل جائے‘۔ اس کا خمیازہ کسی دوسرے کو کیا بھگتنا پڑتا ہے یا اس کی قیمت ملک و قوم کو کیا ادا کرنا پڑتی ہے‘ اس سے مجھے کوئی سروکار نہیں۔ بیرون ملک پاکستان کا نام بدنام کرنے والے عناصر کو ملک سے کوئی دلچسپی نہیں ہے۔
بیرون ملک پاکستان کی بدنامی کا باعث بننے والے لوگوں کو باہر جانے سے روکنے کے لیے ٹھوس اقدامات کی اشد ضرورت ہے۔ دراصل یہی رویے‘ طریقے اور ہتھکنڈے ہیں جن کی وجہ سے آج یورپی یونین میں‘ برطانیہ‘ امریکہ اور کینیڈا میں حتیٰ کہ سعودی عرب اور دیگر عرب ممالک میں بھی بھارتی اور بنگلہ دیشی لوگوں کی تعداد پاکستانیوں کی نسبت کہیں زیادہ ہے۔ وجہ یہ ہے کہ وہ لوگ بیرون ملک جا کر کام کرتے ہیں تو نہ صرف وہاں کے رولز اینڈ ریگولیشنز کی پیروی کرتے ہیں‘ پوری ایمانداری سے اپنے فرائض سرانجام دیتے ہیں بلکہ اس بات کا بھی پورا پورا خیال رکھتے ہیں کہ ان کی وجہ سے ان کے ملک کی بدنامی نہ ہو۔ ہم پاکستانیوں کا رویہ ان سے مختلف ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہم بہت پیچھے ہیں۔ ایک زمانے میں عرب ممالک پاکستان سے اچھی خاصی بڑی مقدار میں چاول‘ گندم اور دوسری اجناس درآمد کرتے تھے لیکن ہمارے تاجروں کی بے ایمانیوں نے یہ راستہ بند کر دیا اور آج دوسرے ممالک کے ساتھ ہماری تجارت زوال پذیر نظر آتی ہے۔
وزیرِ اعظم شہباز شریف نے گزشتہ روز اس بات پر اللہ کا شکر ادا کیا کہ گزشتہ مالی سال میں ملکی برآمدات 30 ارب ڈالر سے زیادہ رہیں۔ ساتھ ہی انہوں نے ملکی برآمدات کو 60 ارب ڈالر سالانہ پر پہنچانے کا ہدف دیتے ہوئے کہا کہ وزارتِ تجارت اور دوسرے متعلقہ ادارے آئندہ 3 برس میں برآمدات کا یہ ہدف پورا کرنے کے لیے عملی اقدامات کریں۔ یہ ہدف پورا کرنا چنداں مشکل یا ناممکن نہیں۔ ہمارے ملک کی 60 فیصد آبادی نوجوانوں پر مشتمل ہے۔ ہمارے ملک کے ذہین نوجوان باہمت اور محنتی ہیں۔ ان نوجوانوں نے فری لانسر، سٹارٹ ایپس سمیت دیگر کاروبار کے ذریعے ترقی کی ہے۔ ہمارے نوجوان مختلف شعبوں میں بہترین خدمات سرانجام دے رہے ہیں۔ ان میں بے پناہ ٹیلنٹ اور مہارتیں ہیں۔ یہ سہولیات کی عدم فراہمی، طریقہ کار میں مشکلات اور پیشہ ورانہ تعلیم و تربیت کے اداروں کی کمی کے باوجود بہترین پیشہ ورانہ خدمات سرانجام دے رہے ہیں۔ وزیر اعظم نے برآمدات بڑھانے کے لیے جو ہدف مقرر کیا ہے ان کے لیے اسے پورا کرنا کوئی بڑا کام نہیں ہو گا‘ لیکن ضرورت صرف اس بات کی ہے کہ جو کام بھی کیا جائے اس میں ایمانداری کو ہمیشہ پیش نظر رکھا جائے کیونکہ یہ ایمانداری ہی ہے جو تجارت کے پھلنے پھولنے اور فروغ پانے کا سبب بنتی ہے۔ یہ بھی ضروری ہے کہ بیرون ملک جانے والی خاص طور پر عرب ممالک میں جانے والوں پر خصوصی نظر رکھی جائے تاکہ وہ بیرون ملک جا کر پاکستان کی بدنامی کا باعث نہ بنیں۔