حماقت اور صداقت کا سنگم بڑا عجیب ہے،صداقتوں اور حماقتوں کی سچائیاں زہریلی ہیں برداشت کر سکیں تو حقائق کی کرواہٹ ذائقہ بدل کر رکھ دے گی
مصنف:شہزاد احمد حمید
قسط:5
کہنے کی بات
”حماقت اور صداقت کا سنگم بڑا عجیب ہوتا ہے۔کچھ لوگوں کو ہماری حماقتیں بھلی لگتی ہیں اور کچھ لوگ صداقتوں کے اظہار پر صدقے واری ہوئے جاتے ہیں، بہرحال یہ اپنی اپنی ترجیح ہے۔کچھ مہربان ہماری منہ پھٹ باتوں سے بیزار ہو کر مذاق اڑانے لگتے ہیں اور کچھ حقیقت پرست صداقت کی سنگت کو سلام پیش کر نے کو ترجیح دیتے ہیں۔ ایسی کیفیت میں لکھاری شش و پنج میں رہتا ہے، کیا لکھوں، کیا چھوڑ دوں، کسے بیاں کروں، کہاں خاموش رہوں۔ اضطراب اور یہ عذاب، یقین جانیے سراب آثار موسموں کا مقیم بنائے رکھتا ہے۔ ایسے میں ہمت ور لوگ جو تنقید نگاروں کی جبینوں پہ نقش ہوتی لکیروں کو خاطر میں نہیں لاتے سچ اور سچائی کی تصویریں بناتے رہتے ہیں۔ اگرچہ یہ لفظی تصویریں ہوتی ہیں مگر اپنے اظہار میں ہزار رنگوں سے آراستہ تصویروں سے بڑھ کر ہوتی ہیں۔
مزاح کی چاشنی آپ کو بوریت سے دور کر دیتی ہے۔ واقعات ایسے دلچسپ حیرت انگیز اور دل آویز ہیں کہ آپ کو اپنی ہی آپ بیتی محسوس ہوگی اور آپ واقعات کے سحر سے نکل ہی نہیں پاتے ایک ہی حصار میں رہتے ہیں۔اعلی ظرف لوگوں کے حالات دل کی کائنات کو روشن کرتے ہیں۔ کچھ ہمرازوں، دفتروں، افسروں کے نادار رویوں بارے آگاہی کا ذریعہ ہیں۔ صداقتوں اور حماقتوں کی سچائیاں زہریلی ہیں اگر برداشت کر سکیں تو حقائق کی کرواہٹ منہ اور مزاج کا ذائقہ بدل کر رکھ دے گی۔
حماقتیں اور صداقتیں زندگی کا وہ عکس ہیں جو ایک جانب روز و شب کو خوبصورت بناتی ہیں تو دوسری طرف احساس دلاتی ہیں کہ سچائی کے ساتھ بندھے لوگ ہمیشہ جیت کی طرف گامزن رہتے ہیں۔ تاثر اور تاثیر بھری اس داستان کو بہت سارے لوگوں کو پڑھنا چاہیے۔
جناب شہزاد حمید مصوروں کے اُسی قبیلے کے فرد ہیں جو ہمت دری کی رفاقت میں سفر کرتے ہوئے جوئے شیر نکالنے کی لگن میں لگے ہوئے ہیں۔ ہم انہیں خراج تحسین پیش کرتے ہیں کہ انہوں نے ایک مشکل منزل تک پہنچنے کا بیڑا اٹھایا ہے۔“
مورخہ: 20 نومبر2023 سعید سلطان ریڈیو پاکستان۔۔۔ بہاول پور
بازیافت
یادوں کی پوٹلی کھولیں تو ممکن ہے اس میں سوائے چند دنوں کی کہانیوں کے اور کچھ بھی نہ ہو یہ اور بات ہے کہ وہ دن طویل برسوں پر محیط ہوں۔ کشمکش اضطراب، شوق، لگن، بے چینی، بے قراری کے انداز و اطوار سے آراستہ وہ دن کہیں ہنسانے والے ہوں، کہیں رلانے والے اور کہیں دماغ کو چکرانے والے کہ ہم ان دنوں اسی طرح کی حماقتوں کی سنگت میں رہنے کو بھی شان تصور کرتے تھے۔ منفرد پہچان تصور کرتے تھے۔ اب اِن دنوں اور اُن دنوں سے جڑی کہانیوں پر ہنسی آتی ہے۔ بات ہے بھی ہنسی کی۔ ہماری ان حرکتوں کا حاصل وصول تو کچھ بھی نہیں ہوتا تھا۔ زندگی کے معیار میں کوئی تبدیلی آتی بھی محسوس نہیں ہوتی تھی مگر اس کے باوجود ایک عجیب جذبے اور احساس کے ساتھ ان بے مصروف کاموں میں مصروف رہنے کو زندگی کا حاصل سمجھتے تھے۔ بہت ساری چیزوں، باتوں اورشتوں کی اہمیت، افادیت یا بے توقیری کا احساس بہت بعد میں ہوتا ہے اور شاید اس وقت ہو تا ہے جب وقت، زمانہ اور قوت دسترس سے باہر ہو چکی ہوتی ہے۔ اب اس دور میں اُن کہانیوں اور کہانیوں سے جڑی حرکتوں کو یاد کرکے ہنسی آتی ہے۔ انہیں بیان کرنے کا واحد مقصد اب یہ نظر آتا ہے کہ اگر آپ سمجھ دار ہیں تو ان سے پرے رہیں۔ (جاری ہے)
نوٹ: یہ کتاب ”بک ہوم“ نے شائع کی ہے (جملہ حقوق محفوظ ہیں)ادارے کا مصنف کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں۔