سیاست اپنی جگہ ملکی اقتصادیات اپنی جگہ!! 

سیاست اپنی جگہ ملکی اقتصادیات اپنی جگہ!! 
سیاست اپنی جگہ ملکی اقتصادیات اپنی جگہ!! 

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app


ارے کوئی خدا کا خوف کرے اور قوم کو تصویر کا دوسرا رخ بھی دکھا دے۔ صرف ایک ہی بات الفاظ بدل بدل کر کہی جا رہی ہے کہ ”منے کا ابا“ پھر جیت گیا جمہوریت پھر ہار گئی۔ سینٹ میں سٹیٹ بنک بل منظور ہونے سے اکثریت والی اپوزیشن ایک بار پھر ”نادیدہ ہاتھ“ کے باعث شکست کے گھاٹ پر فنا ہو گئی۔ اس سلسلے میں ماضی سے بھی متعدد مثالیں دی جاتی ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ چیئرمین سینٹ صادق سنجرانی کے خلاف تحریک عدم اعتماد کو ناکام بنانے میں بھی منے کے ابا کا ہاتھ تھا جس کو ”نادیدہ“ کہا جاتا ہے۔ پھر چیئرمین سینٹ کے انتخاب میں سابق وزیر اعظم سید یوسف رضا گیلانی کی پر اسرار شکست میں بھی یہی خفیہ ہاتھ کار فرما تھا۔ ایک ہی امیدوار کے سات ووٹر بیلٹ پیپر پر اس طرح مہر لگاتے ہیں کہ پریذائیڈنگ افسر سینئر پارلیمینٹرین سید ظفر علی شاہ انہیں مسترد قرار دے کر صادق سنجرانی کی کامیابی کا اعلان کر دیتے ہیں۔ اس سے قبل جب انہیں عدم اعتماد سے بچایا گیا تھا تب تو پارلیمانی تاریخ کا انوکھا واقعہ ہوا تھا۔ تحریک عدم اعتماد پر مطلوبہ تعداد پوری تھی۔ تحریک کے حامیوں نے کھڑے ہو کر حمایت کی تو وہ 64 تھے۔ مگر جب محض نصف گھنٹے بعد خفیہ رائے شماری کرائی گئی تو 14 ووٹ اِدھر سے اُدھر ہو گئے اور صادق سنجرانی کی چیئرمین شپ بچ گئی۔ اب پھر اپوزیشن اتحاد پی ڈی ایم کی طرف سے چیئرمین سینٹ کے خلاف دوبارہ تحریک عدم اعتماد لانے کی بات کی گئی ہے تو پیپلزپارٹی کے جدی پشتی سربراہ بلاول بھٹو زرداری نے کہہ دیا ہے کہ اس کا کوئی فائدہ نہیں۔ تحریک عدم اعتماد لانی ہے تو وزیر اعظم کے خلاف لائی جائے۔

اب ظاہر ہے کہ ”نہ نو من تیل ہوگا نہ رادھا ناچے گی۔“ فی الحال چیئرمین سینٹ کے لئے خطرہ ٹل گیا۔ اب اگر اس بات کو سٹیٹ بنک بل پر رائے شماری کے وقت سابق وزیر اعظم، سینئر وائس چیئرمین پاکستان پیپلزپارٹی، اپوزیشن لیڈر سینٹ سید یوسف رضا گیلانی کی غیر حاضری سے ملا کر دیکھا جائے تو ماننا پڑے گا کہ سابق وزیر اعظم اور ان کی قیادت رموزِ سلطنت سے بہتر آ گہی رکھتے ہیں۔ دوسری طرف علیل سرکاری خاتون سینٹر کی آکسیجن سلنڈر سمیت ایوان میں پہنچ کر بل کے حق میں ووٹ دینا حکومت اور ”منے کے ابا“ کی قومی معاملات میں سنجیدگی کا مظہر ہے۔ ورنہ مسلم لیگ (ن) کے سینٹر، سابق وزیر مشاہد حسین سید بھی تو علیل ہی تھے ناں۔ ان کو تو آکسیجن بھی نہیں لگی ہوئی تھی ان دونوں شخصیات (گیلانی اور مشاہد) میں  قدر مشترک یہ ہے کہ دونوں نے اقتدار کے ایوانوں میں وقت گزارا ہے۔ دونوں نے ”منے کے ابا“ کے ساتھ کام کیا ہے۔ دونوں عالمی اور قومی معاملات کو قریب سے جانتے ہیں۔ مشاہد سید تو ایک وقت میں مسلم لیگ (ن) میں فارورڈ بلاک بنا کر پرویز مشرف کی بی ٹیم مسلم لیگ (ق) میں بھی چلے گئے تھے۔ تاہم (ن) لیگ سے بھی اظہار محبت کرتے رہے۔ اسی وجہ سے وہ واپس (ن) لیگ میں آ کر سینٹر بھی بن گئے۔ ورنہ میاں صاحبان ایک بار جانے والوں کو معافی دینے کے قائل نہیں ہیں۔ البتہ یوسف رضا گیلانی جب سے مسلم لیگ چھوڑ کر پیپلزپارٹی میں گئے ہیں۔ اچھے برے حالات میں وہیں کھڑے رہے۔ اسی استقامت کے باعث وہ قومی اسمبلی کی سپیکری اور وزارتِ عظمیٰ تک پہنچے۔ سینٹ میں رائے شماری کی طرف دوبارہ آتے ہیں تو سوچنے کی بات یہ ہے کہ اگر اپوزیشن کی مہم کامیاب ہو جاتی اور متذکرہ بل پاس نہ ہوتا تو کیا ہوتا؟ سینٹ میں سرکاری بل منظور نہ ہونے سے حکومت نہیں ٹوٹنا تھی البتہ ملکی سلامتی کے لےء خطرات پیدا ہو جاتے۔ قومی اسمبلی میں اگر حکومت ہار جائے تو اسے اعتماد کا ووٹ لینا پڑتا ہے۔

جیسے یوسف رضا گیلانی کے سینٹر متخب ہونے پر حکومت نے اعتماد کا ووٹ لیا تھا۔ نہ لے پاتی تو گھر چلی جاتی۔ سٹیٹ بنک بل قومی اسمبلی منظور کر چکی تھی۔ دونوں ایوانوں سے بل منظور ہو کر قانون بنتا یہ آئی ایم ایف سے طے پانے والے معاہدے کے لئے ضروری تھا یہ نہ ہوتا تو آئی ایم ایف سے ملنے والی 6 ارب ڈالر کی امداد (قرضہ) کھٹائی میں پڑ جاتی اور ملک عالمی اداروں سے لئے ہوئے قرضوں کی قسطیں بھی ادا کرنے کے قابل نہ رہتا یوں دیوالیہ ہونے کا خطرہ پیدا ہوجاتا۔ پہلے خارجہ امور میں کبھی کبھی تنہائی محسوس ہوتی ہے۔ پھر مالیاتی امور میں بھی ملک یکاو تنہا ہو جاتا۔ ہو سکتا ہے کہ ایسی اقتصادی پابندیاں بھی لگ جاتیں کہ جن کا بوجھ برداشت کرنا ممکن نہ رہتا۔ آئی ایم ایف کے قرضے بھی اگرچہ قرضے ہی ہیں اور ملکی معیشت پر مزید بوجھ ہی سمجھے جاتے ہیں۔ تاہم ان سے وقتی طور پر سنبھلنے کا موقع ملتا ہے۔ طویل المعیاد حکمت عملی اور مشکل فیصلوں سے ہی اس بوجھ کو کم کر کے اقتصادی خود مختاری (آزادی) حاصل کی جا سکتی ہے۔ ان مشکل فیصلوں سے افراط زر اور مہنگائی میں وقتی طور پر اضافہ بھی ہوتا ہے۔ جو ہو رہا ہے۔ آئی ایم ایف کی نئے قرضوں کے لئے شرائط بھی اسی طرح کی ہیں۔ سبسڈی ختم کرنا بھی ان میں شامل ہے۔

سبسڈی اصل میں وہ رعایت ہے جو قیمتوں کو بڑھنے سے روکنے کے لئے دی جاتی ہے۔ یہ مقبول طریقہ کار ہے تاہم اس کے دیرپا اثرات اقتصادی خود مختاری سے دور لے جاتے ہیں۔ بل کا سینٹ سے منظور ہونا وقتی طور پر اپوزیشن کی سیاسی شکست ضرور سمجھا جائیگا تاہم ملکی معیشت کے لئے اس وقت اس کا منظور ہونا ہی بہتر تھا۔ اگر یہ منظور نہ ہوتا تو ملک کے لئے تباہ کن مسائل جنم لے سکتے تھے۔ اس لئے اگر اس کی منظوری میں ”منے کے ابا“ نے کوئی کردار ادا کیا ہے تو اس کا فائدہ ہی ہوا ہے۔ دفاعی اور اقتصادی معاملات کو ”سیاست بازی“ سے بالا تر ہو کر سوچنا ہی ملک و قوم کے لئے بہتر ہوگا۔ الیکشن کی تیاری۔ حکومت کے غلط اقدامات کو ہدف تنقید بنانا اپوزیشن کا حق ہے۔ لیکن سالہا سال تک سیاسی افراتفری پھیلائے رکھنا بھی کسی قومی خدمت میں شمار نہیں کیا جا سکتا سینٹ سے متذکرہ بل پاس کرا کے جس جس نے بھی اقتصادی بحران کو ٹالنے میں کردار ادا کیا ہے ان سب کو سراہا جانا چاہئے۔ سیاست اپنی جگہ ملکی اقتصادیات اپنی۔ شکریہ ”منے کے ابا“ 

مزید :

رائے -کالم -