پاکستان کے سابق وزیر اعظم کی جیل میں سکیورٹی پر مامور کرنل رفیع الدین کی تہلکہ خیز یادداشتیں ۔۔۔ 17
جیل ڈیوٹی کے دوران مجھے جو لمحات سب سے زیادہ قیمتی محسوس ہوئے وہ تھے بھٹو صاحب کی باتیں سننے والے لمحات۔ ان باتوں میں کہاں تک بھٹو صاحب نے صاف گوئی سے کام لیا یا ایک سیاسی لیڈرکی حیثیت سے کچھ کہہ گئے اس کے متعلق میں یقین کے سا تھ کچھ نہیں کہہ سکتا۔ یہ فیصلہ ہر پڑھنے والے کو خود کرنا ہو گا۔ جہاں تک مجھ سے ہو سکا ہے میں ان باتوں کو ریکارڈ پر لا رہا ہوں تاکہ میری طرح تمام پڑھنے ولے بھی ان کی باتوں سے مستفید ہو سکیں۔ اسیری کے دوران وہ میرے ساتھ ہمیشہ انگریزی زبان میں بات چیت کیا کرتے اور میں بھی حتٰی الوسع ان کے ساتھ اسی زبان میں گفتگو کرتا۔ ان کے انکشافات مندرجہ ذیل تھے۔
پاکستان اور ایٹمی طاقت: بھٹو صاحب نے پنڈی جیل میں مجھ سے اس موضوع پر چند مرتبہ گفتگو کی۔ کبھی وہ پاکستان اور بھارت کے تعلقات کے سلسلے میں اس موضوع کو زیرِبحث لائے۔ کبھی پاکستان کی اشد ضرورت و ترقی کو موضوع بناتے ہوئے اس طاقت کا ذکر کیا۔ امریکہ ‘ اسرائیل اور مغربی ممالک کی پالیسیوں کے تحت پاکستان کی بدقسمتی کا ذکر کیا اور پاکستان کی بقا کی خاطر بھٹو صاحب نے جب امریکہ کی وارننگ کو بھی مسترد کر دیا تو ان کو اس کال کوٹھڑی تک پہنچا دیا گیا ۔دو تین مرتبہ انہوں نے پاکستان ہندوستان کا موازنہ کچھ اس پیرائے میں کیا کہ ہندوؤں کی کوشش تھی کہ پاکستان وجود میں نہ آئے تاکہ وہ اکھنڈ بھارت کا خواب پورا کر سکیں۔ پاکستان بننے کے بعد پہلے تقریباً تیس سالوں میں حکومتِ ہند نے دل سے کبھی پاکستان کے وجود کو تسلیم نہیں کیا اور اس وقت سے ہندو حکومت پاکستان کو ختم کرنے کے درپے رہی ہے۔ پھر جب کبھی تیسری دنیا کے ممالک میں جھگڑے اٹھتے ہیں تو بدقسمتی سے سپر پاورز بھی طاقتور ملک یا اپنے مفاد کا ساتھ دیتی ہیں۔ یہ طاقتیں اسلام کی ہمیشہ مخالفت کرتی رہی ہیں۔ ہندو کا فلسفہ یہ ہے کہ برابر یا اپنے سے طاقتور کے ساتھ دوستی کرو اور کمزور کے ساتھ زبردستی۔ بدقسمتی سے ہمارے وسائل ہندوستان کے برابر نہیں اور ہم فوجی لحاظ سے ان کی برابری کا کبھی سوچ بھی نہیں سکتے بلکہ ہندوستانی وسائل‘ صنعت وحرفت‘ مالی اور فوجی لحاظ سے روز بروز مزید ترقی کرتے چلے جا رہے ہیں۔ جبکہ ہم اس لحاظ سے اپنا تناسب برقرار رکھنے میں بھی مشکلات سے دو چار ہیں۔ 1974ء میں ہندوستان نے ایٹمی دھماکہ کر کے ایٹمی ٹیکنالوجی میں دنیا کی صفِ اوّل کی اقوام میں اپنا مقام حاصل کر لیا ہے۔ ادھر مشرقی پاکستان کو ہم سے زبردستی الگ کر کے ہم پر واضح کر دیا ہے کہ جب بھی ہم کمزور ہوئے ہم پر چڑھائی( Walk Over ) کرکے ہمیں اپنا غلام بنانے کی کوشش کرے گا اور اس طرح ہم سے بارہ تیرہ سو سالہ تاریخ کا بدلہ لے گا۔ اسلئے ہماری سیکیورٹی کا واحد ذریعہ ایٹمی طاقت کے حصول میں ہے جو ہندوستان کو ہم سے باعزت طریقے سے رہنے پر مجبور کر دے گا۔ اگر جغرافیائی اور فوجی حکمت عملی کے اعتبار سے دیکھا جائے تو پاکستان ایٹمی طاقتوں میں گھرا ہوا ہے۔ ہم روس‘ چین‘ ہندوستان اور امریکہ ‘ جو بحرِ ہند میں سب سے بڑی ایٹمی طاقت ہے‘ میں محصور ہیں۔ اس علاقے میں سوائے چین کے جس سے ہمارے انتہائی دوستانہ تعلقات ہیں باقی سب ہمارے خلاف ہیں اور ایسے کڑے حالات میں وہ کبھی ہمارا ساتھ نہیں دیں گے۔
بھٹو صاحب نے فرمایا’’ میں پاکستان کو اس قابل بنانے میں تقریباً کامیاب ہو چکا تھا۔ بھارت کو تو مخالفت کرنی ہی تھی کیونکہ میں ان کے مقاصد کی راہ میں ایک بڑی رکاوٹ کھڑی کر رہا تھا لیکن امریکہ اور روس کے حلیفوں نے اپنی عالمی پالیسی کی بنا پر میری سخت مخالفت کی۔ شروع میں امریکہ نے مجھے لالچ دیا پھر کہا کہ اپنے ہاتھوں کوکیوں جلاتے ہو لیکن میں جب قوم اور ملک کی خاطر اپنے مشن پر ڈٹا رہا اور ہمارے اس دوست ملک نے دیکھا کہ میں اپنی دُھن میں مست ہوں تو اپنے قابل وزیرخارجہ ہنری کیسنجر کے ذریعے مجھے آخری وارننگ دی اور صاف صاف کہہ دیا کہ اگر تم باز نہ آئے توہم تمہیں باقی دنیا کیلئے نمونہ بنا دیں گے تاکہ اس قسم کی جرأت ( Venture ) کا آ ئندہ کوئی سوچ بھی نہ سکے اور پھر کرنل رفیع! آپ کے جنرل کے ذریعے مجھے اس حالت ( سیکیورٹی وارڈ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے)تک پہنچا دیا‘‘
ایک اور موقع پر بھٹو صاحب نے امریکہ کو پاکستان اور عالم اسلام کا یہودی لابی کہ وجہ سے دشمن نمبر ایک قرار دیا اور صاف الفاظ میں کہا کہ میں(مسٹر بھٹو) پاکستان کو عظمت اور قومی عزت(Glory and Self respect) کے لحاظ سے صف اوّل میں لانا چاہتاہوں۔ اگر مجھے تھوڑا ساوقت اور مل جاتا تو میں اس مشکل مرحلہ کو سر کر لیتا۔ کہنے لگے مجھے آپ پر فخر ہے اور ایک نہ ایک دن ہماری قوم کو احساس ہو گا۔ انہوں نے گہری سانس لیتے ہوئے کہا‘ کرنل میں نا ممکن کو ممکن بنانے والا تھا۔ مگر ان جرنیلوں میں اتنی ہمّت‘ دوربینی اور قوم پرستی کہاں؟ کہ میرے تقریباًمکمل کام کو آگے بڑھائیں۔ ایک دو لمحے سوچنے کے بعد کہنے لگے’’ ان کو ایسا کرنے ہی کون دے گا۔ سی آئی اے تو اس وقت دنیا کی تمام حکومتوں سے زیادہ مضبوط اور طاقتور ادارہ ہے‘‘۔ چند لمحے خاموشی کے بعد کہنے لگے’’ آ ج تمھارا جنرل امریکیوں کا منظورِ نظر ہے لیکن کل جب اس سے ہز ماسٹرز وائس پر توجہ نہ دی تو اس کا انجام بھی وہی ہو گا جو اس طرح کے سامراجی ایجنٹوں کا ہوا کرتا ہے‘‘۔
بھٹوصاحب نے مجھ سے چند مرتبہ مختلف اوقات پر پاکستان ‘ امریکہ تعلقات پر بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ چونکہ یہودی اثر ہر امریکی حکومت پر بہت زیادہ رہے گا اسلئے عالم اسلام اور خاص کر پاکستان کاامریکہ کبھی بھی خیرخواہ نہیں رہے گا اورکسی بھی پاکستانی لیڈر کو نہیں چاہے گا۔
بھٹو صاحب کا پاکستانی قوم کیلئے سب سے بڑا تحفہ : ایک ملاقات کے دوران میرے پوچھنے پر بھٹو صاحب نے فرمایا کہ ان کا پاکستانی قوم کیلئے ایک بڑا کام یہ تھا کہ انہوں نے اپنی قوم کو سیاسی بیداری ( Political Awareness ) سے ہمکنار کیا۔ میں نے اپنے غریب عوام کو احساس محرومی دلایا۔ کہنے لگے کرنل’’ میں رہوں یا نہ رہوں لیکن اب کوئی طاقت ہمارے غریب عوام سے اس احساس محرومی کو کبھی چھین نہ سکے گی‘‘۔ پھر کہا‘ میں سمجھتا ہوں کہ یہ میرا قوم کو’’ جو زیادہ تر غریب عوام پر مشتمل ہے‘‘ سب سے بڑا تحفہ رہے گا۔(جاری ہے)
کمپوزر: طارق عباس