پاکستان کے سابق وزیر اعظم کی جیل میں سکیورٹی پر مامور کرنل رفیع الدین کی تہلکہ خیز یادداشتیں ۔۔۔قسط نمبر 16
بھٹو صاحب کو جیل سے نکالنے کیلئے تین کا ہونا ضروری تھا۔
حکام کو یہ اندیشہ تھا کہ میں خود یا ایس ایم ایل اے یا کوئی اور افسر بھٹو صاحب کو جیل سے کسی منصوبے کے تحت یعنی پاکستانی پیپلز پارٹی کے ساتھ مل کر باہر نہ نکال دے۔ اسلئے یہ حکم جاری کیا گیا کہ جب تک سکیورٹی بٹالین کمانڈر ‘ ایس ایم ایل اے اور ڈی ایم ایل اے تینوں کے تینوں حاضر نہ ہوں بھٹو صاحب کو اچانک جیل سے نہیں نکالا جائے گا۔ ایک جانے بوجھے پلان کے تحت مثلاً اگر بھٹو صاحب کو سپریم کورٹ میں حاضری دینی ہو تو بہت پہلے احکامات ڈی ایم ایل اے ‘ ایس ایم ایل اے اور مجھے مل جائیں گے لیکن انہیں اچانک جیل سے کسی اور جگہ منتقل کرنے کے لئے ہم تین کا ہونا ضروری تھا۔ البتہ اگر جیل میں آگ لگ جائے یا اسی قسم کی کوئی ناگہانی صورت پیدا ہوجائے تو کم ازکم ہم میں سے دو افسر حاضر ہوں گے اور مجھے تیسرے کی طرف سے کوڈ کے ذریعے حکم دیا جائے گا کہ بھٹوصاحب کو فلاں جگہ منتقل کر دیاجائے۔ ان جگہوں کا ’’ناگہانی پلان‘‘ میں تفصیلاً ذکر کیا گیا ہے۔ اسی طرح اگر حکام بالا سے کسی کو یرغمالی بنالیا جاتا ہے اور مجھے ٹیلیفون پر بھٹو صاحب کو کسی اور جگہ منتقل کرنے کو کہا جاتا ہے تو بھی ایسی صورت میں مجھے ٹیلیفون پر دیئے گئے حکم نہ ماننے کی واضح ہدایت کر دی گئی تھی۔ مجھے یہ بھی صاف صاف بتا دیا گیا تھا کہ میں پراپر چین آف کمانڈ (Proper Chain of Command)
یعنی میں ایس ایم ایل اے اور ڈی ایم ایل اے کے علاوہ اس معاملے میں کسی اور کا حکم ہر گز نہیں مانوں گا ‘ چاہے وہ کوئی بھی حیثیت بااختیار رکھتا ہو۔ ایک دفعہ مجھے ڈی ایم ایل اے کے دفتر طلب کیا گیا اور جنرل صاحب نے مجھے بتا یا کہ کسی پارٹی میں پی ایل او (PLO)کے کچھ آدمیوں نے شیخی مار کر کہا ہے کہ وہ بھٹو صاحب کو جب چاہیں جیل سے نکال کر پاکستان سے باہر لے جا سکتے ہیں۔ میں نے انہیں جواب دیا کہ اگر یہ لوگ اس قابل ہوتے تو آج اسرائیلی ان کے گھر میں نہ بیٹھے ہوتے۔ بہرحال مجھ سے ایسی کوشش کو ناکام بنانے کے متعلق سوال و جواب کئے گئے اور زیادہ مستعد رہنے کیلئے کہا گیا۔
ی۔ تمہاری قیمت کیا ہے ؟ ایک بارکا ذکر ہے کہ جب میں ڈی ایم ایل اے کے دفتر گیا تو جنرل شاہ رفیع عالم نے مجھ سے انگریزی میں پوچھا ۔ Rafi! What is your price? (رفیع تمہاری قیمت کیا ہے ؟) چونکہ انہوں نے مجھ سے یہ سوال اچانک پوچھا میں اسے سمجھ نہ سکا ۔ میں نے وضاحت چاہی کہ جناب آپ کا کیا مطلب ہے ؟ تب انہوں نے مسکراتے ہوئے مجھے بتایا کہ فلاں بریگیڈیئر ‘ جو اسپیشل سروس گروپ میں نوکری کر کے اب فوج سے جا چکے ہیں ‘ ان سے ایک بہت بڑی رقم دینے کا وعدہ کیا گیا ہے بشرطیکہ وہ بھٹو صاحب کو جیل سے اغوا کرنے میں کامیاب ہوجائیں۔ یہ رقم کئی ملین (Million)تھی۔ میں نے جنرل صاحب کو بتایا کہ جہاں تک میرا فرض ہے اس کو کوئی رقم نہیں خرید سکتی اور جہاں تک احتیاطوں کی ضرورت ہے وہ بھی حد سے زیادہ کی جار ہی ہیں۔ انہوں نے مجھ سے اس معاملے میں کچھ مزید بحث کی جس سے وہ پوری طرح مطمئن ہوگئے۔
ک۔ ناگہانی پلان: ۔۔۔ حکومت عوام کے گھیراؤ یا فسادات وغیرہ کے متعلق کافی متفکر تھی۔ جیل میں اچانک آگ لگ جانے کی حالت میں بھی بھٹو صاحب کی منتقلی کا پلان بنایا گیاتھا۔ ایسی ناگہانی حالت میں ان کو مندرجہ ذیل جگہوں پر لے جانے کا انتظام کیا گیا۔
*۔۔۔ اچانک اور ناگہانی حالت میں اگر چھاؤنی کا علاقہ اور راستہ بے خطرہ ہوتو بھٹو صاحب کو 27پنجاب کے ہیڈ کوارٹر ویسٹ رج لے جانا تھا اس مقصد کیلئے جگہ تیار تھی اور ہر طرح کی حفاظت کا بندوبست کر لیا گیا تھا۔ اس کیلئے کوڈورڈ ’’سعید کے گھر‘‘ کا تھا۔ میجر سعید (بعد ازاں لیفٹیننٹ کرنل ) میرے ڈپٹی کمانڈر تھے۔أ*۔۔۔ اگر چھاؤنی یا ویسٹ رج کا علاقہ کسی وجہ سے غیر محفوظ ہوتو پھر بھٹو صاحب کو پرائم منسٹر ہاؤس کے علاقے میں 3 ایف ایف رجمنٹ کے آفیسر میس کے خاص کمرہ میں لے جایا جانا تھا۔ جس کیلئے ’’یعقوب کے گھر ‘‘ کا کوڈ مقرر کیا گیاتھا۔
*۔۔۔ اگر مندرجہ بالا دونوں راستے خطرناک ہوں تو بھٹو صاحب کو کوڈ ’’ڈبل بیڈ ‘‘ پرجیل سے دس کور ہیڈ کوارٹر آفیسر میس چکلالہ میں منتقل کرنا تھا۔
اس ناگہانی پر عمل کرنے کیلئے کئی بار ریہرسل کی گئی تھی۔ منتخب جوان گاڑیاں اور ہتھیار وغیرہ کا بندوبست کیا گیا تھا۔ ایسی ناگہانی حالت میں سیڑھیاں ‘ سٹریچر ‘ دھوئیں کے بم اور دوسرا سامان بھی فراہم کر دیا گیا۔ دراصل بھٹو صاحب کی اسیری کے دوران شروع سے آخیر تک احتیاطوں اور مزید احتیاطوں کا سلسلہ جاری رہا اور ہر روز نت نئی پیش بندیاں اور نت نئے پلان بنتے رہے ‘ حتیٰ کہ انہیں پھانسی لگا دیا گیا۔
دوقیدیوں کا جیل سے فرار: سکیورٹی وارڈ کی حفاظت کیلئے تو دنیا بھر کی احتیاطین عمل میں لائی گئیں لیکن باقی جیل کی حالت وہی رہی جو عام حالات میں ہوا کرتی ہے۔
دسمبر 1978ء کی ایک رات دو قیدی جن میں سے ایک آزاد کشمیر اور دوسرا ضلع راولپنڈی سے تعلق رکھتا تھا ‘ پنڈی جیل سے بھاگ نکلنے میں کامیاب ہوگئے۔ اگلے دن جب میں جیل کے دفتر پہنچا تو میں نے سپرنٹنڈنٹ اور جیل کے سٹاف کو کچھ خاموش اور فکر مند پایا۔ میرے پوچھنے پر مجھے نہ بتایا گیا۔ میں فوراً سکیورٹی وارڈ گیا اور بھٹو صاحب کو سویا ہوا پایا۔ کچھ دیر بعد مشقتی نے انہیں صبح کی چائے لا کر دی اور میں ان سے علیک سلیک کے بعد آپریشن روم میں ڈیوٹی افسر کے پاس گیا۔ وہاں سے ہمارے انٹیلی جنس این سی او نے مجھے بتایا کہ رات دو قیدی جیل سے فرار ہوگئے ہیں۔ میں نے جیل سپرینٹنڈنت سے پوری پوچھ گچھ کرنے پر معلوم کیاکہ دو قیدی جیل کے مشرقی حصے کی دیوار کے نیچے بارش کے پانی کے اخراج والے پائپ میں سے نکل کر فرار ہوگئے ہیں۔ میں نے جا کر اس جگہ کا معائنہ کیا لیکن مجھے یقین نہ آیا کہ ایک آدمی آٹھ نو انچ کے پائپ سے نکل سکتا ہے۔ بہرحال جیل حکام نے انہیں اسی نالی میں سے نکال دیا ! اسی دن اس نالی کے دونوں سروں کو لوہے کی سلاخوں سے بند کر دیا گیا ۔ بعد میں پتہ چلا کہ وہ قیدی جیل کی دیوار پھلانگ کر شمالی مشرقی سمت سے نکل بھاگے اور غالباً وہ ملٹری ڈیری فارم کی طرف سے نکلے تھے۔
اگلے روز یہ خبراخبارات میں چھپی۔ حکام بالا کو ایسی خبر پڑھ کر کافی تشویش لاحق ہوئی۔ مجھ سے پوچھا گیا کہ جیل کے اندر اور اردگرد اتنے سخت انتظامات کے باوجود قیدی بھاگ نکلنے میں کس طرح کامیاب ہوئے؟ میں نے جیل کے اندر کی سکیورٹی کی تفصیل بتائی اور یہ بھی بتایا کہ جہاں تک سکیورٹی وارڈ کا تعلق ہے وہاں کوئی ایسا خدشہ نہیں البتہ جیل کے کاروبار سے میرا کوئی تعلق نہیں۔ مجھے پھر بھی تنبیہ کی گئی کہ جیل کے متعلق باہر پولیس پٹرول کو مزید بہتر بنایا جائے تاکہ جیل کے ارد گرد سکیورٹی اور زیادہ مؤثر رہے۔
جیل اسٹاف کی کافی کھچائی ہوئی جس کا اثر چند دن تک رہا مگر پھر وہی روش ! بہرحال جیل کے اندر اور باہر ایسے انتظامات کر دیئے گئے تاکہ پھر کسی قیدی کو بھاگنے کی جرأت نہ ہو۔
(جاری ہے۔۔۔ اگلی قسط پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں )
کمپوزر: طارق عباس