پاکستان کے سابق وزیر اعظم کی جیل میں سکیورٹی پر مامور کرنل رفیع الدین کی تہلکہ خیز یادداشتیں قسط نمبر15
ریلوے لائن جیل کی بڑی دیوار اور اس کے ساتھ جانے والی سڑک سے تقریباً بارہ تیرہ فٹ نیچے گہرائی سے گزرتی تھی اس لئے وہاں سے سرنگ کا لگانا اور زیادہ موزوں معلوم ہوتا تھا۔ ریلوے لائن سے مغرب کی جانب ڈسٹرکٹ کورٹس کے کچھ مکانات وغیرہ کے اندر سے بھی سرنگ کھود نا بعید از قیاس نہ تھا۔ جیل سے آرمی ہاؤس کی جانب جیل کا باغیچہ وغیرہ ہے ‘ وہاں سے بھی سرنگ کاخدشہ محسوس ہوا۔ نالہ لئی جیل کے مشرق میں کچھ فاصلے پر واقع ہے ‘ یہاں سے بھی سرنگ لگانے کا کچھ امکان ہو سکتا تھا۔ دن کی روشنی مین ان علاقوں کی خاموش دیکھ بھال کی جاتی تھی اور رات کے اندھیرے میں یہ علاقے گشت کرنے والوں کے پاؤں کی زد میں رہتے تھے۔ صبح سویرے ایک خاص گشت جو صرف دو تین جوانوں پر مشتمل ہوا کرتی تھی۔ ان علاقوں کا چکر لگاتی جو کسی بھی تبدیلی یا تازہ مٹی کا کوئی بھی نشان وغیرہ دھونڈ نکالنے کی ذمہ دار تھی حالانکہ سکیورٹی وارڈ کے فرشوں کو بھٹو صاحب کے آنے سے پہلے ہی آرسی سی یعنی لوہے ‘ بجری ‘ ریت اور سیمنٹ کی آمیزش سے تیار کیا گیا تھا پھر بھی کوئی رسک نہیں لیا جا رہا تھا۔
پاکستان کے سابق وزیر اعظم کی جیل میں سکیورٹی پر مامور کرنل رفیع الدین کی تہلکہ خیز یادداشتیں ۔۔۔قسط نمبر 14 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
ب۔ عوامی حملہ: حکومت عوام کے پُرہجوم حملے سے بھی متفکر تھی ۔ پیپلز پارٹی اندر ہی اندر عوام کو اکسا کر جیل پر باہر سے حملہ آور ہوکر یا جیل کے اندر قیدیوں کی بغاوت کرا کے بھٹوصاحب کو بھگالے جانے کی کوشش کر سکتی تھی۔ اس قسم کے اقدام سے نپٹنے کیلئے زمینی رکاوٹیں تیار کر لی گئی تھیں۔ پولیس کی کافی نفری موجود تھی۔ بھٹو صاحب کو پنڈی جیل منتقل کرنے سے پہلے ان تمام قیدیوں کو ‘ جن کا کسی بھی طریقے سے پی پی پی کے ساتھ تعلق ہو سکتا تھا ‘ وہ دوسری جیلوں میں منتقل کر دیا گیا اور حسبِ ضرورت فوجی طاقت بھی کسی متوقع حملے کا مقابلہ کرنے کیلئے تیار تھی۔
ج۔ کمانڈو قسم کا زمینی حملہ ۔۔۔ حکام کو سکیورٹی وارڈ پر کمانڈو قسم کے زمین حملے کی تشویش بھی تھی جس سے بھٹو صاحب کو جیل سے آزاد کرایا جا سکتا تھا۔ ایک اچھا تربیت یافتہ کمانڈو جتھا جیل کے صدر دروازے اور ڈیوڑھی کے علاقے کو یا جیل کی دیوار کو کئی جگہوں پر دھماکہ خیز مادے سے اڑا کر جیل میں داخل ہونے کے بعد بھٹو صاحب کو اغوا کرنے کی کوشش کر سکتا تھا۔ اس قسم کے اندیشے کے پیش نظر ڈیوڑھی کے دونوں آہنی دروازے ‘ جن کے درمیان تقریباً 25-30فٹ کا فاصلہ تھا ‘ ہر وقت مقفل رہتے تھے اور ان دونوں دروازوں پر الگ الگ سنتری تعینات رہتے تھے۔ ان دروازوں کے تالوں کی چابیاں ایک مخصوس جگہ رکھی جاتی تھی۔ اکاد کا آدمی ان آہنی دروازوں میں بنی ہوئی کھڑکی کو استعمال کرتا تھا اور آہنی دروازے ہر وقت بند رہتے تھے۔ علاوہ ازیں ڈیوڑھی سے باہر سڑک پر ایک اور آہنی گیٹ بھی تھا جس کو ہر وقت سنتری کی نگرانی میں مقفل رکھا جاتا۔ سڑک سے جیل کی طرف آنے والی کسی بھی گاڑی کو کسی بھی حالت میں آنے نہ دیا جاتا ‘ جب تک سنتری گاڑی کی تلاشی لے کر اطمینان نہیں کرلیتا اور مقصد معلوم کرنے کے بعد گاڑی کے داخلے کا تحریر اجازت نامہ نہ دیکھ لیتا ۔ ان دنوں کوئی گاڑی جیل کے اندر داخل نہ ہوسکتی تھی جب تک ڈیوٹی افسر سے اجازت حاصل نہ کر لی جاتی۔ یہ تمام احتیاطیں اس خدشہ کے پیش نظر جارہی تھیں کہ کہیں مخفی طور پر کسی گاڑی میں بارود (Explosive)موجود نہ ہو۔ کیونکہ ایسی صورت میں بارود والی گاڑی کو ڈیوڑھی کے اندر کھڑ ا کر کے پوری ڈیوڑھی کو دھماکے سے اڑا دینے اور منتظر کمانڈو جتھے کیلئے سکیورٹی وارڈ تک راستہ بنانے کے مقاصد پورے کرنے کا امکان نہ رہے۔
ان احتیاطوں کے علاوہ سکیورٹی وارڈ کے اردگرد مشین گنیں اور راکٹ لانچر نصب تھے جن پر ہر وقت سنتری متعین رہتے تاکہ اس قسم کی کسی بھی کوشش کو غیر مؤثر بنا دیا جائے۔ اس کے علاوہ سکیورٹی وارڈ خاردار تاروں اور ان کے گچھوں کے بیچ اس طرح ڈال دی گئی تھی کہ بغیر دیکھے بھالے صرف فرشتے ہی ایسی جگہ پہنچ سکتے تھے۔
27پنجاب کے جوان جیل کے شمالی احاطے میں مقیم تھے ۔ ایمرجنسی کی حالت میں اس احاطے سے باہر بڑی سڑک پر نکلنے کیلئے صدر دروازے کو خاص طریقے سے مستور (Cover)کیا گیا تھا تاکہ کوئی شخص یا پارٹی اس دروازے کی گزر گاہ پر فائر کر کے اسے بند نہ کر سکے اور جیل کے کسی بھی حصے میں فوری کمک کو روک نہ سکے۔ علاوہ ازیں جیل اور اس احاطے کے درمیان جیل کی دیوار کو پھلانگنے کیلئے خاص قسم کی سیڑھیوں وغیرہ کا بھی بندوبست کیا گیا تھا تاکہ ناگہانی حالت میں اندر ہی اندر سے سکیورٹی وارڈ کے علاقے یا جیل کے کسی بھی دوسرے حصے مین فوری کمک پہنچ سکے۔
د۔ زمین حملے کے ساتھ ساتھ ہوائی حملہ ۔ زمینی حملہ کے ساتھ ساتھ ہوائی حملہ بھی دائرہ امکان میں تھا احکام اسکے متعلق بھی فکر مند تھے۔ سکیورٹی فورس کمانڈر کے تحت ہوائی جہازوں کو مار گرانے والی ایک بیٹری بھی تعینات کر دی گئی تھی۔ اس بیٹری کی گنیں جیل کے اندر اور باہر اس طریقے سے نصب کی گئی تھیں کہ کوئی ہوائی جہاز یا ہیلی کاپٹر دور دور تک جیل کے نزدیک نہ بھٹک سکے۔ پی آئی اے ‘ پی آئی اے ایف اور آرمی ایوی ایشن بیس دھمیال کو آگاہ و خبردار کر دیا گیا تھا کہ جیل کے علاقے یا اس کے نزدیک اڑان نہ کریں۔ ادھر اینٹی ایئر کرافت گنوں کو حکم دیا گیا تھا کہ اگر کوئی جہاز یا ہیلی کاپٹر جیل کے اوپر آئے تو اسے فوراً فائر کر کے گرادیا جائے۔ بھٹو صاحب کی اسیری کے دوران دو مرتبہ ایک جہاز نے غلطی سے جیل کے اوپر پرواز کی لیکن دونوں مرتبہ خوش قسمتی سے میں خود جیل میں موجود تھا اور حالات کو دیکھتے ہوئے گنرز کو فائر کرنے سے روک دیا ورنہ شاید کوئی کم تجربہ کار ڈیوٹی افسر ایسا فیصلہ نہ کر سکتا اور غلطی سے پرواز کرنے والے جہاز کو پنڈی شہر پر گرادیا جاتا جو اخبارات وغیرہ کیلئے اچھا خاصا مواد پیدا کردیتا ۔ ان موقع کے بعد ہوا بازوں کو سخت تنبیہ کردی گئی تھی۔
سکیورٹی وارڈ کے اردگرد اور جیل میں دوسری جگہوں میں چھتوں پر زیادہ ترچوکیاں کھلی ہوا میں تھیں۔ ہوائی جہاز کے ذریعے ان چوکیوں پر راکٹوں وغیرہ سے گیس کے حملے کا خطرہ بھی لاحق تھا۔ جس سے سنتری اور دوسرے جوان تھوڑی یا زیادہ دیر کیلئے بے ہوش کئے جا سکتے تھے۔ ایسی حالت میں الارم اور گیس ماسک کے استعمال اور فوری امدادی پلان کا بھی سوچ لیا گیا تھا۔ علاوہ ازیں متبادل مورچہ بند ی بھی تیار کر لی گئی تھی۔
ہ۔ چھاتہ بردار حملہ: چھاتہ بردار حملے کے متعلق پہلے ہی پلان میں سوچ لیا گیا تھا۔ یہی وجہ تھی کہ 3ایف ایف رجمنٹ کی ایک کمپنی سکیورٹی فورس کمانڈر کو اس قسم کے حملے کی صورت میں مدد کیلئے دیدی گئی تھی۔ 3 ایف ایف بٹالین ان دنوں وزیراعظم کی رہائش گاہ کے متعلقہ علاقے میں بھیج دی گئی تھی اور اس کی ایک کمپنی کو یہ فرض سونپا گیا تھا کہ چھاتہ بردار کوشش کی صورت میں وہ اسے ناکام بنائے گی۔
و۔ ماسک یا بُرقع کا استعمال : بھٹو صاحب کی پہلی بیوی امیر بیگم صاحبہ پردہ دار خاتون ہیں۔ وہ بھی راولپنڈی جیل میں ان سے ملنے آیا کرتی تھی۔ وہ ہمیشہ باپردہ ہو کر یعنی برقع پہن کر آیا کرتی تھیں اور واپس بھی اسی طرح پردہ کر کے جا یا کرتی تھیں۔ مجھے خبردار کیا گیا کہ ایسی ملاقات میں بھٹو صاحب اپنی بیگم کا برقع اوڑھ کر جیل سے باہر نہ نکل جائیں اور بیگم ‘ بھٹو صاحب کے چہرے کا ماسک اپنے منہ پر پہن کر ان کی جگہ جیل میں بیٹھ جائیں ۔ ہر ایسی ملاقات کے فوراً بعد ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ جا کر بھٹو صاحب کے ساتھ بات چیت کر کے یہ یقین کر لیتا تھا کہ واقعی بھٹو صاحب خود جیل میں موجود ہیں۔ اس یقین دہانی کے بعد ہی ان کی بیگم صاحبہ کو جیل کے احاطے سے باہر نکالا جاتا تھا۔
ز۔ ہائی جیک یا یرغمالی بنانے کی کوشش: سکیورٹی فورس کے کسی اہم شخص کوہائی جیک کر کے یرغمالی بنالیا جائے تو اس صورتحال سے نمٹنے کیلئے بھی مختلف طریقے سوچ لئے گئے تھے۔ چوکہ میں ہی زیادہ تر جیل کے مختلف حصوں میںآتا جاتا رہتا تھااس لئے مجھے محتاط کر دیا گیا تھا۔ اس طرح اگر مارشل لاء حکام میں سے کسی خاص آدمی کو یرغمالی بنا کر بھٹو صاحب کی رہائی کا مسئلہ کھڑا ہوا تو بھی ایک خاص پلان سوچ لیا گیا تھا۔
ح۔ میری نگرانی : بھٹو صاحب تو جیل میں بند تھے ہی لیکن ہمارے انٹیلی جنس والے میری پوری پوری نگرانی میں لگے ہوئے تھے۔ میرا گھر ‘ ٹیلیفون ‘ میرے ملاقاتی ‘ میری حرکات و سکنات ‘ ہر چیز کی نگرانی ہو رہی تھی۔ شروع شروع میں ‘ میں نے اچانک محسوس کیا کہ میرا ٹیلیفون ٹیپ ہو رہا ہے چونکہ میں ملٹری انٹیلی جنس میں تین سال اور ایس ایس جی میں سات سال تک رہا اور اس میں خاصا وقت امریکن سپیشل فورسز کے ساتھ بھی گزارا تھا ‘ اس لئے مجھے فوراً معلوم ہو گیا کہ میرا ٹیلیفون سنا جا رہا ہے۔ میں نے اپنے گھر بھی بتا دیا تھا کہ کسی قسم کی فالتو بات چیت ٹیلیفون پر نہ کی جائے۔ ان دنوں جب بھی میں گاڑی میں باہر نکلتا تو مجھے معلوم ہوجاتا کہ میرا پیچھا کیا جا رہا ہے۔میرے گھر پر بھی اسی قسم کی نگرانی ہو رہی تھی۔ ہم بہت محتاط ہو گئے ۔ ادھر میرے پرانے دوستوں نے بھی ‘ جو اس وقت آئی ایس آئی اور آئی بی میں ڈیوٹی کر رہے تھے ‘ میری پرانی یادیں تازہ کرنی شروع کردیں اور مجھ سے ملاقاتوں کا سلسلہ جاری کر دیا۔ مجھے پتہ تھا کہ چونکہ میں ایک نازک کام سر انجام دے رہا ہوں اسلئے حکومت یقیناً چاہے گی کہ میری نگرانی کی جائے تاکہ میرے اندر کوئی غلط رغبت پیدا نہ ہو۔ بہرحال ایسی حالت میں انسان اپنی تمام آزادی کھو بیٹھتا ہے اور میری حالت بھی ایک قیدی سے کسی طرح کم نہ تھی۔ میں نے اپنی بیگم کو بتا دیا تھا کہ کوئی شخص بجلی یا ٹیلیفون وغیرہ ٹھیک کرنے ہمارے گھر میں اس وقت تک داخل نہ ہو جب تک میں خو دگھر پر موجود نہ ہوں تاکہ کسی قسم کا کوئی مخفی آلہ وغیرہ ہمارے گھر میں نصب نہ کر دیا جائے۔ میں نے ویسے بھی اپنے گھر کی اینٹی بگنگ (Anti Bugging)خود کرلی۔
(جاری ہے )
کمپوزر: طارق عباس