پاکستان کے سابق وزیر اعظم کی جیل میں سکیورٹی پر مامور کرنل رفیع الدین کی تہلکہ خیز یادداشتیں ۔۔۔قسط نمبر 14
بھٹو اور مذہب :۔ بھٹو صاحب کے سیکیورٹی وارڈ میں آنے سے پہلے ان کے سیل میں ایک عدد جائے نماز رکھ دی گئی تھی‘ لیکن کسی نے انہیں کبھی نماز پڑھتے نہ دیکھا۔ ان کے سیل میں آخری دن قرآن مجید کاایک چھوٹا سا نسخہ جو تقریباًً ایک انچ لمبا اور پون انچ چوڑا تھا‘ چاندی کے اتنے ہی سائز کے باکس میں بند پایا گیا‘ یہ شاید کسی نزدیکی رشتہ دار نے ان کو دیا ہو گا۔
مجھ سے بھٹو صاحب نے مذہب پر کبھی گفتگو نہیں کی۔ آخری ایّام میں جب کبھی میں نے اﷲ تعالیٰ کی بڑائی‘ اس کی رحمتوں اور بخشش کاذکر کیا تو انہوں نے کبھی بات آگے نہ بڑھائی۔
پاکستان کے سابق وزیر اعظم کی جیل میں سکیورٹی پر مامور کرنل رفیع الدین کی تہلکہ خیز یادداشتیں ۔۔۔قسط نمبر 13 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
فروری یا مارچ1979ء میں ایک دن مجھے کہنے لگے ’’ دیکھو جیل سپرنٹنڈنٹ چودھری یارمحمد مجھے نصیحت کرتا ہے کہ میں نماز پڑھوں اور خدا تعالیٰ سے معافی چاہوں‘‘ میرے خیال میں انہوں نے یہ سمجھا کہ جیل سپرنٹنڈنٹ ان کی ہمت اور حوصلہ توڑنا چاہتا ہے لیکن ماہ رمضان میں بھٹو صاحب نے تمام روزے باقاعدگی کے ساتھ رکھے۔ سحری اور افطار کا باقاعدہ بندوبست تھا۔ آخری رات میں نے ان کے گلے میں ایک تسبیح بھی دیکھی۔ میرے خیال میں بھٹو صاحب کا رجحان کچھ صوفی ازم کی طرف تھا اور وہ مذہبی رسومات اور نمازوغیرہ کا خاص خیال نہیں رکھتے تھے۔ مولوی صاحبان سے ان کو سخت چڑ تھی اور کہا کرتے تھے کہ پاکستان میں اسلام کو سب سے زیادہ نقصان پہنچانے والے یہ ان پڑھ مولوی ہیں۔
جیل سپرنٹنڈنٹ کا خواب:۔ جون یا جولائی 1978ء کا ذکر ہے ‘ چودھری یار محمد کے جیل دفتر میں ان کے ساتھ بیٹھا ہوا تھا سیکیورٹی وارڈ کی چابیوں کا گچھہ ان کے سامنے میز پر پڑا تھا جسے دیکھ کر وہ مسکرا دیئے اور کہنے لگے ’’ کرنل صاحب! میں آپ کو ایک سچا خواب سناتا ہوں‘‘ ۔ کہنے لگے ’’ اوائل1977ء میں‘ مَیں نے ایک رات خواب دیکھا کہ جناب ذولفقار علی بھٹو ( اس وقت پاکستان کے وزیر اعظم) اس جیل(سنٹرل جیل راولپنڈی) میں تشریف لائے اور جیل کا معائنہ کررہے ہیں۔ انہوں نے خواتین کے وارڈ کے نزدیک مجھے چابیوں کا ایک گچھہ تھمادیا۔ ‘‘ کہنے لگے ’’صبح اٹھتے ہی میں نے اپنی بیگم کو بتایا کہ شاید وزیراعظم جناب بھٹو صاحب مجھے بہت بڑی ذمہ داری سونپنے والے ہیں اور پھر میاں بیوی میں بہت کچھ قیاس آرائیاں ہونے لگیں‘‘ ۔
خواب کا ذکر کرتے ہوئے چودھری یار محمد نے میز پر پڑا چابیوں کا گچھہ اٹھایا اور کہا’’ مجھے اب پتا چلا ہے کہ اس خواب کا مطلب کیا تھا‘‘ مارشل لاء حکام نے سیکیورٹی احکامات میں سیکیورٹی وارڈ کی حفاظت جیل سپرنٹنڈنٹ کے ذمہ لگائی تھی۔ سیکیورٹی وارڈ میں لگے ہوئے تمام تالوں کی چابیاں ہروقت اپنے پاس رکھنا‘ تالوں کو کھولنا اور بند کرنا جیل میں سپرنٹنڈنٹ کا ذاتی فرض بنا دیا گیا تھا جس کو وہ اپنی ہتک سمجھتے تھے۔ جب جیل سپرنٹنڈنٹ جیل سے غیر حاضر ہو گاتو ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ یہ کام خود سرانجام دے گا۔
کئی وارڈنوں کا ہمراہ ہونا ان صاحبان کو بے حدناگوار لگتا تھا۔ یہ تھی وہ بھاری ذمہ داری جو جیل سپرنٹنڈنٹ کو بقول ان کے سچے خواب کے نتیجے میں انہیں سونپ دی گئی‘ لیکن انہوں نے اسے اپنی توہین کا باعث سمجھا۔
مزید احتیاطیں
جو نہی بھٹو صاحب کی موت کی سزا کے خلاف سپریم کورٹ میں اپیل دائر کی گئی حکومت نے ان کو راولپنڈی منتقل کرنے اور پنڈی جیل میں رکھنے پرسوچ بچار شروع کر دی۔ شروع شروع میں دس کور ہیڈ کورٹر نے اس کام کا تفصیل سے جائزہ لیا اور بھٹو صاحب کو جیل میں رکھنے کا منصوبہ بنایا۔ پھر ڈی ایم ایل اے نے اس کام کو سنبھال لیا۔ میں نے اس کتاب کے شروع میں تفصیلاً بیا ن کر دیا ہے کہ خواتین وارڈ کی کس طرح تجدیدو ترمیم کی گئی تا کہ بھٹو صاحب کیلئے سیکیورٹی وارڈ بنایا جائے۔ اس کا سب سے بڑا مقصد ان کو جیل میں رکھتے ہوئے حفاظتی اقدامات کو پوری طرح مدّ نظر رکھنا تھا تا کہ کسی بھی حالت میں ان کو جیل سے باہر نکالنا یا اغواء کرنا ممکن نہ رہے‘ یا ان کی زندگی کو کسی طرح قبل ازاوقت ختم نہ کیا جا سکے۔ اس ایک شخص کیلئے جیل خانہ جات‘ پولیس اور فوج کی اتنی نفری مہیا کر دی گئی اور اتنے مضبوط دفاعی انتظامات کئے گئے جو کئی ہزار قیدیوں کیلئے کافی تھے۔ چونکہ ان تمام سیکیورٹی انتظامات پر مجھے کنٹرول ‘ نگرانی اور حفاظت پر تعیّنا ت کیا گیا تھا اسلئے مجھے بھٹو صاحب کے پھانسی لگنے تک ہر روز کسی نہ کسی مسئلے پر حکّام بالا کی تسلّی کیلئے جواب دہی کرنی پڑتی تھی۔ میں تقریباً اس ایک سال کے دوران انہی مسائل کے ساتھ سوتا اور جاگتا رہا۔
غیر معمولی احتیاطیں۔ جیل کے اندر تو سنتریوں ‘ واچ ٹاوروں‘ کانٹے دار تاروں‘ الارم بجنے کے آلات‘ فلڈ روشنیوں اور دوسرے سائنسی آلات وغیرہ کے علاوہ ان دفاعی ہتھیاروں کا جال بچھا دیا گیا تھاجن کا ذکر پہلے ہو چکا ہے مگر دوسری غیر معمولی احتیاطیں بھی کی گئیں جو درج ذیل ہیں۔
سرنگ کے ذریعے فرار: مجھے بار بار سرنگ کے ذریعے بھٹو صاحب کو باہر نکالنے کے بارے میں یاد دہانی کرائی گئی۔ جس کیلئے ہمہ وقت پولیس اور فوج سے جیل کے اردگرد رات کی گشت مقرر کروائی جاتی رہی چونکہ جیل کی مغربی سمت والی بڑی دیوار‘ جو ڈسٹرکٹ کورٹ اور ریلوے لائن کی طرف تھی،سیکورٹی وارڈ کے بالکل قریب تھیں ،اس جانب سے سخت خطرہ تھا اس لئے یہ علاقہ خصوصی حفاظت کا متقاضی تھا ۔(جاری ہے )
کمپوزر: طارق عباس