پاکستان کے سابق وزیر اعظم کی جیل میں سکیورٹی پر مامور کرنل رفیع الدین کی تہلکہ خیز یادداشتیں ۔۔۔قسط نمبر 13
بھٹو صاحب کے منہ کی تکلیف زیادہ بڑھ گئی تو ڈاکٹر طارق محمود اور پھر ڈاکٹر رشید راولپنڈی ہسپتال سے بلوائے گئے جو ان کا علاج ستمبر1978ء میں کرتے رہے۔ بعد میں جب ڈاکٹر ظفر نیازی صاحب کوجیل سے رہائی ملی تو انہوں نے24اور27نومبر1978ء کو جیل میں بھٹو صاحب کے دانتوں وغیرہ کا علاج کیا۔ حکومت کو ڈاکٹر ظفر نیازی کا بھٹو صاحب سے اکیلا ملنا پسند نہ تھا اسلئے ڈاکٹر محمد سلیم چیمہ کو بھی‘ جو پرنسپل ڈی مونٹمورنسی کالج آف ڈنٹسٹری لاہور تھے‘ بلا یا جاتا تھا اور یہ دونوں ڈاکٹرصاحبان اکٹھے بھٹو صاحب کا علاج ان کے سیل میں کرتے تھے۔ مجھے معلوم ہوا کہ یہ دونوں ڈاکٹر صاحبان ذاتی طور پر ایک دوسرے کو پسند نہیں کرتے تھے۔ بہرحال انہوں نے سیکیورٹی وارڈ میں3دسمبر1978ء سے 3 فروری1979 کے دوران بھٹو صاحب کا چار دفعہ علاج کیا۔
پاکستان کے سابق وزیر اعظم کی جیل میں سکیورٹی پر مامور کرنل رفیع الدین کی تہلکہ خیز یادداشتیں ۔۔۔قسط نمبر 12 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
15 جنوری1979ء کو ڈاکٹر زینت( بیگم ڈاکٹرمبشر جو پتھالوجسٹ بھی ہیں ( سنٹرل ہسپتال راولپنڈی سے تشریف لائیں اور انہوں نے بھٹو صاحب کے خون کا نمونہ لیا۔ 3 فروری1979ء کے دن ڈاکٹر نیازی اور ڈاکٹر چیمہ بھٹو صاحب کے علاج کیلئے جیل میں آئے۔ علاج کے بعد ڈاکٹر چیمہ صاحب جنرل شاہ رفیع عالم‘ ڈی ایم ایل اے سے ملنے آئے۔ میں اس وقت جنرل صاحب کے ساتھ ان کے دفتر میں بیٹھا ہوا تھا۔ انہوں نے گفتگو کے دوران جنرل صاحب کو بتایا کہ وہ خود ڈینٹل سرجن کے علاوہ پتھالوجسٹ بھی ہیں اور انہیں معلوم ہے کہ ڈاکٹر زینت مبشر‘ بھٹو صاحب کے خون میں ایسی بیماری تلاش کرنے کی کوشش کر رہی ہیں جو خطرناک ہو تا کہ تیکنیکی لحاظ سے بھٹو صاحب کو پھانسی نہ لگائی جا سکے۔ جنرل شاہ رفیع عالم صاحب نے ان کا شکریہ ادا کیا اور انہیں یقین دلایا کہ ڈاکٹروں کو اس کی اجازت نہیں دی جائے گی اور بھٹو صاحب کے خون کا تجزیہ ایسی لیبارٹری سے کرایا جائے گا جہاں پیپلز پارٹی کی رسائی نہ ہو سکے گی۔
بہرحال بھٹو صاحب کے مسوڑھوں کی بیماری آخر تک رہی اور آخری رات(4-3 اپریل1979 ء) جب بھٹو صاحب کو ان کی پھانسی کی خبر سنا دی گئی تو بھی انہوں نے جیل سپرنٹنڈنٹ کو باقی مطالبات کے ساتھ یہ مطالبہ بھی دیا کہ ان کے دانت اور مسوڑھے بے حد خراب ہیں۔
ڈاکٹر ظفر نیازی کو فوراً ان سے ملایا جائے تا کہ وہ انہیں اس تکلیف سے نجات دلا سکیں۔ پوری تفصیل اس کتاب کے باب ’’آخری لمحات‘‘ میں لکھی گئی ہے۔
عید مبارک:۔ سال میں دونوں عیدوں کے موقعوں پر111بریگیڈ کی پلٹنوں کے کمانڈنگ آ فیسرز عموماً آرمی ہاؤس جا کرپریزیڈنٹ کو عید مبارک کہا کرتے تھے۔ عیدالفطر جو شاید ستمبر1978ء کے پہلے ہفتہ میں آئی کے موقع پرمیں اپنی بیگم کے ہمراہ آرمی ہاؤس میں صدر صاحب کو عید مبارک کہنے گیا۔ واپسی پر ہم راولپنڈی جیل کے پاس سے گزر رہے تھے کہ میری بیگم نے بھٹو صاحب کے متعلق پوچھا اور کہا کہ کیا ہم ابھی جا کر ان کوابھی عید مبارک کہہ سکتے ہیں۔ میں نے جوب دیا کہ ایسا ممکن نہیں ہے اور وہ کیوں مجھے فوج سے نکلوانا چاہتی ہیں۔ وہ کہنے لگیں کہ تم اکیلے تو جا سکو گے۔ لہٰذا ن کو ہم سب کی طرف سے عید مبارک کہنا۔
میں نے جواب میں کہا آج تو میں بہت زیادہ مصروف رہوں گا اسلئے جیل کے اندر جانا شاید ممکن نہ ہوسکے۔ انہوں نے اصرار کیا کہ مجھے آج ہی جا کر بھٹو صاحب کو عیدمبارک کہنی چاہیے کیونکہ عید والے دن ’’ عید مبارک‘‘ کا ان سے زیادہ حقدار کون ہو سکتا ہے؟ اور ساتھ ہی یہ بھی کہا کہ ان کی طرف سے بھی بھٹو صاحب کو عید مبارک کے ساتھ ان کی نیک اور دلی تمنائیں پہنچائی جائیں۔
بیگم صاحبہ کو گھر چھوڑنے کے بعدمیں سیدھا جیل کی سیکیورٹی وارڈ میں گیا جہاں بھٹو صاحب سیل میں اکیلے کرسی پرخاموشی سے بیٹھے تھے جو اس دن کے حوالے سے بے حد جگر سوز منظر تھا۔ میں نے ان کو عید مبارک کہی تو وہ مسکرا دیئے اور میرا شکریہ ادا کیا۔ عید کی وجہ سے ہر طرف چھٹی تھی اور ڈیوٹی والے لوگ بھی اپنی دکان کو تالا لگا گئے تھے۔ میں نے بھٹو صاحب کو صاف صاف بتایا کہ میں اور میری بیگم جب تھو ڑی دیر پہلے ساتھ والی سڑک سے گزر رہے تھے تو وہ چاہتی تھیں کہ ہم دونوں یہاں آکر آپ کو عید مبارک کہیں لیکن ایسا ممکن نہ تھا۔ بہرحال ان کی طرف سے بھی آپ عید مبارک اور نیک تمنّائیں قبول کیجئے۔
بھٹو صاحب کچھ جذباتی سے ہو کر بولے ’’میں آپ کی بیگم کا بے حد مشکور ہوں‘‘ اور انہوں نے بھی جواباً عید مبارک اور نیک تمنّاؤں کا اظہار کیا۔
مشقّتی۔ جیل کے قیدیوں میں سے جو کھانا پکانا جانتا تھابھٹو صاحب کو ان کے کام کاج کیلئے نوکر کے طور پر ایک قیدی دیا گیا تھا‘ جسے عرف عام میں مشقّتی کہا جاتا ہے۔ ابتدائی ایّام میں ایک فوجی بھگوڑے کو جسے کورٹ مارشل میں سزا ہوئی تھی اور پنڈی جیل میں وہ اپنی قید کاٹ رہا تھا‘ جیل حکام نے بھٹو صاحب کے ساتھ مشقّتی کے طور کام کرنے کیلئے مامور کیا۔ بیگم بھٹوپہلی بار بھٹو صاحب سے ملاقات کیلئے جب پنڈی جیل آئیں اور اس مشقّتی نے چائے وغیرہ سے ان کی خاطر تواضع کی تو بیگم صاحبہ نے اس سے بات چیت کی جس میں اس کے منہ سے کوئی انگریزی کا لفظ نکلا ہو گا‘ جس پر بیگم بھٹو نے اس کے ماضی کے متعلق سوال و جواب کیے۔ اس مشقّتی نے بتایاکہ وہ فوج سے بھاگ گیا تھا جس کی وجہ سے وہ اس جیل میں سزا کاٹ رہا ہے۔ شاید بیگم بھٹو کو شک ہوا ہو گا کہ فوج نے اسے بھٹو صاحب کی مخبری وغیرہ کیلئے اس کام پر لگایا ہو گا۔ ملاقات کے بعد بیگم صاحبہ نے اخبارات کو بیان دیا کہ مشقّتی ٹی بی کا مریض ہے اور بھٹو صاحب کے ساتھ نوکر کے طور پرکام کرنے کیلئے موزوں نہیں ہے۔ جیل ڈاکٹر سے اس کا معائنہ کرایا گیا تو وہ اس بیماری سے مبرا نکلا۔ ویسے بھی میں وثوق سے کہہ سکتا ہوں کہ اس مشقّتی کا فوج یا جیل کے حکام سے کوئی ملاپ نہ تھا۔ بہر حال جلد ہی اس کی قید ختم ہو گئی اور اسے رہا کر دیا گیا۔
دوسرا مشقّتی جسے جیل حکام نے اس کام کیلئے چنا وہ بھی فوجی باورچی تھا جو کسی جرم کی بنا پر جیل میں قید کاٹ رہاتھا۔ حکم ملا کہ اس کو یہاں سے ہٹا کر کسی سخت کام پر لگا دیا جائے۔ اسے خوشخبری سنائی گئی کہ چند دنوں میں اس کے اچھے کام کی بدولت اس کی بقیہ قید معاف ہو جائے گی۔ لیکن سیکیورٹی وارڈ سے باہر لا کراسے کسی پر مشقّت کام پر لگا دیا گیا۔ اس بیوقوف کو بھٹو صاحب کی خدمت اور خوشنودی کے علاوہ اپنا آرام بھی راس نہ آیا۔ تیسرا مشقّتی جس کا نام عبدالرحمٰن تھا‘ گولڑہ کے نزدیک ضلع راولپنڈی کا رہنے والا تھا۔ اس مشقّتی نے بھٹو صاحب کی خوب خدمت کی۔ وہ ان کے ساتھ آخری وقت تک رہا۔ وہ بھٹو صاحب کو دل وجان سے چاہتا تھا اور دن رات سیکیورٹی وارڈ کے کچن میں بھٹو صاحب کی کال کا منتظر رہتا تھا۔
بھٹو صاحب کو جب4-3 اپریل1979ء کی رات کو پھانسی کیلئے لے جایا جا رہا تھا تو اس شخص کے ہاتھ میں چائے کی پیالی تھی جو بھٹو صاحب کے نصیب میں نہ تھی۔
ہیئر کٹ :۔ بھٹو صاحب سر کے بال خوب لمبے رکھتے تھے۔ راولپنڈی جیل میں تقریباً گیارہ ماہ کی اسیری کے دوران انہوں نے صرف ایک بار بال ترشوائے۔ اکتوبر1978ء میں انہوں نے جیل حکام سے حجام کیلئے کہا۔ ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ کی نگرانی میں ایک باربر کو‘ جس کا لباس اور بال کاٹنے کے اوزاروں وغیرہ کی صفائی کا خاص اہتمام کیا گیا تھا‘ سیکیورٹی وارڈ بھجوایا گیا۔ بال کٹوانے کے بعد بھٹو صاحب نے اس کا شکریہ ادا کیا اور ایک صد روپے اس کو انعام دیئے مگر اس نے پیسے نہ لینے پر اسرار کیا۔ مجھے بتایا گیا کہ بھٹو صاحب نے اس سے کہا کہ ’’تم غریب پاکستانیوں میں سے ایک ہو اور میری تو شاید جان بھی آپ لوگوں کیلئے قربان ہو گی۔ یہ تو بہت معمولی سی رقم ہے۔ یہ آج رات تمھارے بچوں کے کھانے کیلئے ہے۔‘‘ اس پر حجام نے وہ رقم آنکھوں میں آنسوؤں کے ساتھ قبول کر لی۔(جاری ہے )
کمپوزر: طارق عباس