ہماری خارجہ پالیسی کی پہلی اینٹ
پاکستان کے پہلے وزیر خارجہ سرظفراللہ خان نہایت قابل اور باریک بین سفارت کار تھے۔ اُن کے سیکرٹری خارجہ جناب اکرام اللہ بھی نہایت ذہین اور فہم و فراست والے عہدیدار تھے۔ پاکستان نیا نیا عالمِ وجود میں آیاتھا۔ جنگِ عظیم کے خاتمے کوا بھی 2 سال بھی نہیں ہوئے تھے۔ تمام دنیا کا نقشہ تلپٹ ہو چکا تھا۔ سامراج کا کنٹرول اپنی اپنی مقبوضہ کالونیوں پر کمزور پڑنا شروع ہو گیا تھا، روس، جو دوسری جنگ میں امریکہ کا اتحادی تھا، وہ جنگ کے فوراً بعد اتحادیوں کی خود غرضیوں سے خائف ہو کر اپنا الگ کیمپ بنا چکا تھا۔ قائد اعظمؒ جیسی مضبوط شخصیت 1948ء میں ابھی حیات تھی۔ لیاقت علی خان بطور وزیراعظم مستحکم پوزیشن میں تھے اور ریاست کے تمام امورمیں عمل دخل رکھتے تھے۔ اِن حالات میں، جبکہ قائد اعظمؒ بھی حیات تھے اور وزیراعظم لیاقت علی بھی کمزور حیثیت نہیں رکھتے تھے، سر ظفر اللہ کے لئے مشکل تھا کہ وہ پاکستان کی اِبتدائی خارجہ پالیسی کے خد و خال اپنی اور اپنے قابل عہدے داروں کی سوجھ بوجھ سے بناتے۔ روس پر 1949ء تک سرد جنگ مسلط نہیں ہوئی تھی۔ محکمہ خارجہ کی خواہش تھی کہ پاکستان روس کی طرف دوستی کا ہاتھ بڑھائے، لیکن حالات ایسے پیدا کر دئیے گئے کہ لیاقت علی خان نے اپنے پہلے خیر سگالی دورے پر امریکہ جانا پسند کیا۔ اس دورے کے لئے امریکہ سے دعوت کا اہتمام کرایا گیا۔ شاہ ایران رضا شاہ پہلوی کی خواہش تھی کہ پاکستان امریکہ کے قریب رہے۔ ہمارا محکمہ خارجہ اپنے تحفظا ت کے باوجود وزیر اعظم کو دورہئ روس کے لئے قائل نہ کر سکا۔ہماری خارجہ پالیسی کی بنیاد کی پہلی اینٹ ڈال دی گئی۔
1951ء میں آئزن ہاور امریکہ کے صدر منتخب ہو گئے۔ ری پبلکن کے آنے سے سرد جنگ کا آغاز ہوگیا۔اُس وقت پاکستان دو جغرافیائی حیثیتوں کا حامل تھا۔ مغربی پاکستان کا جغرافیہ امریکہ کی مڈل ایسٹ پالیسی کے لئے بہت اہم تھا، جبکہ مشرقی پاکستان کا جغرافیہ، جو مشرقِ بعید کا حصہ تھا، اُس کے لئے امریکہ کی پالیسی بالکل الگ تھی۔ مڈل ایسٹ کے تمام ممالک بشمول پاکستان، سعودی عرب، ترکی، عراق اور شام امریکہ کے دوست تھے، لیکن مشرقی پاکستان کے قرب و جوار میں تمام ممالک امریکہ کے دوست نہیں تھے۔ وہ یا تو غیر جانبدار ہو کر روسی کیمپ کا حصہِ بن چکے تھے (ہندوستان، انڈونیشیا، سری لنکا وغیرہ)۔ امریکہ مشرقِ بعید میں جنگِ عظیم کے بعد پہلی جنگ 1951ء میں کوریا میں لڑ کر اور وہاں سے بڑی مشکل سے جان چھڑا کر نکلا تھا۔ ویت نام کی جنگ نے اگرچہ دس سال بعد شروع ہونا تھا، لیکن اُس کے آثارعلاقے میں پیدا ہونا شروع ہو چکے تھے۔ امریکہ کے پالیسی سازوں کے لئے ایسا پاکستان، جو امریکہ کی فارن پالیسی کے 2 مختلف Concepts میں بٹا ہوا تھا،ایک کٹھن معاملہ تھا۔ مغربی پاکستان کوسینٹو کا حصہ بنا کر اسلحے اور مالی اِمداد کے ذریعے امریکن کیمپ میں داخل کر لیا گیا تھا۔ محمد علی بوگرہ، جو امریکہ نواز تھے، ہمارے دوسرے پاکستانی وزیر خارجہ تعینات ہوئے۔ انہوں نے تو پاکستان کو مکمل طور پر امریکہ کے زیرِ اثر دے دیا۔ قائداعظمؒ اور لیاقت علی جیسے مضبوط لیڈر وفات پا چکے تھے۔ سر ظفراللہ نئے حکومتی سیٹ اپ میں چل نہیں سکتے تھے، اس لئے وہ بھی وزاتِ خارجہ چھوڑ چکے تھے۔ ہمارے اَب تک 29وزرائے خارجہ میں صرف 4-3 ہی ایسے تھے جو پاکستان کے مفادات کو اوّلین رکھتے تھے۔ وہ امریکہ کے کاسہ لیس نہ تھے، مثلاًS.K.Dehlvi ، حسین شہید سہروردی جو وزیراعظم بھی تھے، آغا شاہی اور عزیزاحمد۔
ہم ذوالفقار علی بھٹوکو کامیاب وزیر خارجہ سمجھتے ہیں،جبکہ ایسا نہیں ہے۔وہ ایک کامیاب مقرر تھے جو ہجوم کو گرما سکتے تھے، اسٹیٹس مین بالکل نہیں تھے۔ 1965ء کی جنگ سے پہلے بھٹو صاحب وزیرِخارجہ تھے۔ فیلڈ مارشل ایوب خان کے بہت قریب تھے۔ صدر ایوب خان کو اپنے وزیر ِ خارجہ کی پالیسوں پر بہت اعتماد تھا۔ 1965ء کی جنگ کا پلان بھٹو صاحب اور اُن کے دوست دو جرنیلوں کے ذہن کی اختراع تھی۔ اس جنگ کے لئے کسی تدّبر اور دُور اندیشی سے کام نہیں لیا گیا۔ بھٹو صاحب نے اور اُن کے دوستوں نے مقبوضہ کشمیر میں گوریلا جنگ شروع کرنے سے پہلے نہ تو کوئی کاڈرز (Caders)تیار کئے، نہ ہی مقبوضہ کشمیر کے لوکل عوام میں گوریلہ جنگ کے لئے پاکستان کے ہمددر پیدا کئے اور نہ اس جنگ کے بین الاقوامی اثرات اور ردِعمل پر غور کیا گیا۔ ایوب خان کا بطور صدر اس جنگ کی منظوری دینا ایک بڑی غلطی تھی۔1965ء کی جنگ ہماری عاقبت نااندیشی، غیر مدّبرانہ خارجہ پالیسی اور ناقص منصوبہ بندی کی وجہ سے اپنے مقاصدحاصل نہ کر سکی۔ ہماری فوج اگر مثالی بہادری اور تیز رفتار حرکت کا مظاہرہ نہ کرتی تو 1965ء کی جنگ ہمارے گلے کا طوق بن چکی ہوتی۔ بھٹو ایک ناکام وزیرخارجہ تھے۔ اُنہوں نے البتہ یو این او میں جذباتی تقریر کر کے پاکستانیوں خاص طور پرپنجابیوں کو متاثر کر کے اپنا مستقبل کا سیاسی پلان کامیاب کر لیا۔ پیپلز پارٹی کی بنیاد پنجاب میں ہی پڑی، 1971ء کی جنگ میں پولینڈ کی قراردار کو ڈرامائی انداز میں پھاڑ کر بچے کُھچے مشرقی پاکستان کو مکمل بنگلہ دیش بنوادیا۔ شملہ کانفرنس میں کشمیر کے بین الاقوامی مسئلے کو دو طرفہ مسئلہ بنا کر اس مسئلے کی بین الاقوامی حیثیت کو ختم کر دیا۔ بھٹو صاحب کو ہم ہر دلعزیز اور کرشمے والا لیڈر تو مان سکتے ہیں، لیکن خارجی معالات کو بھٹو صاحب دور اندیشی سے نہیں چلا سکے۔ دنیا کے تمام مسلمان ممالک کی 1974ء کی لاہور کانفرنس کو لوگ بھٹو کی کامیاب خارجہ پالیسی کا حصہ بتاتے ہیں۔ میرے خیال میں یہ ایک قبل از وقت اِقدام تھا۔ بھٹو صاحب نے اس اِقدام سے امریکہ اور یہودی لابی کو الرٹ کر دیا اور مسلمان ملکوں میں ہمیشہ کے لئے نفاق کا بیج بو دیا گیا۔ شاہ فیصل کو بطور سزا مروا دیا گیا۔بھٹو کو بھی سکون سے حکومت نہ کرنے دی اور بالآخر عوام کے محبوب لیڈر بھٹو صاحب کو غیظ و غضب کا نشانہ بنا دیا گیا۔
مضبوط خارجہ پالیسی کے لئے، مضبوط لیڈر، جو عوام میں بھی ہر دلعزیز ہو اور دنیا کی تاریخ اور جغرافیے کو سمجھتا ہو۔ اُس کی نظر Geo-political حالات پر ہو۔ بہت قابل، ہر دلعزیز، دیانت دار اور مخلص لیڈر ہو تو عوام تکلیفوں اور مہنگائی کا بھی مقابلہ کر سکتے ہیں۔ آج کا سرمایہ دارانہ نظام بھی ملک کے داخلی اور خارجی تعلقات پر اثر انداز ہوتا ہے، چونکہ بین الاقوامی سرمائے کے مفادات یکساں ہوتے ہیں، اس لئے امریکہ کے بڑے تاجر اور صنعت کار دوسرے ممالک کے انتخابات پر بھی اثر انداز ہوتے ہیں۔