سی پیک!
سی پیک ایک اقتصادی منصوبہ ہے جو پاکستان اور چین کے درمیان 2013ء میں شروع ہوا لیکن اس کا باقاعدہ آغاز 2015ء میں کیا گیا۔ CPEC (China Pakistan Econmic Coridor) ”چین پاکستان معاشی راہداری“ یہ وہ تجارتی راستہ جو کہ چین کو پاکستان سے بذریعہ سڑک اور سمندر (گوادر) ملائے گا اور پاکستان اور چین کے درمیان تجارت کو فروغ دے گا اور اس منصوبہ سے دونوں ممالک تجارتی اور معاشی لحاظ سے مضبوط اور خوشحال ہوں گے یہاں ہم اپنے قارئین کو یہ بتانا ضروری سمجھتے ہیں کہ یہ منصوبہ دو حصوں پرمبنی ہے یعنی کہ (i) BRIاور (ii) CPEC
اب ہم پہلے یہ دیکھیں گے کہ یہ (Belt and Route Initiative)BRI کیا ہے؟ اور سی پیک جو کہ (CPEC)درحقیقت BRI کا ہی ایک حصہ ہے۔ BELT بیلٹ سے مراد خشکی کا راستہ یا وہ سڑک ہے جو کہ چین کے صوبہ سنکیانگ (XIJIANG) سے شروع ہو گی اور پاکستان کے مختلف علاقوں اور صوبوں سے ہوتی ہوئی بلوچستان میں گوادر کی بندرگاہ پر ختم ہو گی۔اس سڑک کی کل لمبائی 3000km ہے جبکہRoute Initiative سے مراد سمندری راستہ ہے جس میں چین گوادر کی بندرگاہ کو جدید طرز پر تعمیر کرے گا اور اپنی تجارت کو یہاں سے مشرق وسطیٰ کے ممالک روس، افریقہ اور جنوب مشرقی ممالک کے علاوہ امریکہ و یورپ تک پھیلائے گا۔
اب یہاں پر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ چین یہ راہداری کیوں بنانا چاہتا ہے؟ اس راہداری کی تعمیر سے پہلے چین اپنے جنوبی حصہ میں واقع سمندر کو استعمال کرتا تھاجس کے ساتھ بحرہند بھی واقع ہے اس سمندری راستے کے راستے دوسرے ممالک تک چین کو پہنچنے کے لئے 13000km کا سفر طے کرنا پڑتا تھا جو کہ بذریعہ گوادرصرف 2500kmتک محدود ہو کر رہ گیا ہے، یعنی کہ چین اگر گوادر کو استعمال کرے تو اس کی تجارتی اشیاء کی لاگت کم ہونے سے سستی بھی ہوں گی اور وقت بھی بہت کم لگے گا یعنی جو مال چین پہلے دوسرے ممالک اور براعظموں تک ایک ماہ میں پہنچاتا تھا وہ اب صرف ایک ہفتے میں پہنچانے میں کامیاب ہو جائے گا ویسے بھی گوادر کی بندرگاہ گرم پانی اور گہرے پانی کی بندرگاہ ہے جوکہ بڑے جہازوں کے لئے پورا سال دستیاب ہوگی۔
اس راہداری کے قیام کی دوسری بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ اگر چین اپنی جنوبی بندرگاہ کا استعمال کرتا ہے تو دنیا کے دوسرے ملکوں تک پہنچنے کے لئے یہ راستہ نہ صرف لمبا ہے بلکہ پُرخطر بھی ہے۔خاص کر سمندری راستہ جس میں زیادہ تر ممالک امریکہ اور انڈیا کے زیر اثر ہیں، کیونکہ یہ دونوں ممالک چین کو سپرپاور بنتے ہوئے نہیں دیکھ سکتے۔ چنانچہ چین کو یہ خدشہ ہے کہ اگر امریکہ اور اس کے زیر سایہ ممالک جو کہ چین کی سمندری سرحدوں کے ساتھ ہی واقع ہیں اس سمندری راستے کو بند کر دیتے ہیں یا کوئی رکاوٹ ڈالی جاتی ہے تو چین کے پاس CPEC اور گوادر کی شکل میں متبادل راستہ موجود ہو گا، جس کے ذریعے وہ بآسانی عالمی منڈیوں تک اپنا مال پہنچا سکے گا۔
BRI اور CPEC کے قیام سے صرف چین کو ہی فائدہ نہیں ہوگا بلکہ پاکستان کو بھی ہو گا کیونکہ اس اقتصادی راہداری (سڑک) کے مکمل ہونے سے جو کہ 2023ء میں مکمل ہونی تھی اب 2025ء میں ہو گی اور یہ تمام تر منصوبہ (BRI+CPEC) 2030ء تک مکمل ہو جائے گا، جس میں چین اس راہداری کو پاکستان کے دوسرے حصوں تک جوڑے گا یا ملائے گا اور اس راہداری کے ساتھ صنعتی علاقے، زرعی علاقے، بجلی کے میگا پراجیکٹ آئی ٹی کے منصوبے اور ریل گاڑیوں کا نظام ML1 اور ML2 قائم کرے گا۔ جس سے ملکی نوجوانوں کو ایک طرف تو روز گار ملے گا اور دوسری طرف ملک معاشی لحاظ سے مضبوط ہو گا۔ نیز بڑے ڈیم بھی بنیں گے۔
جیسا کہ ہم جانتے ہیں کہ بلوچستان رقبے کے لحاظ سے سب سے بڑا اور پسماندہ صوبہ ہے۔ لہٰذا چین جو کہ گوادر کی بندر گاہ کو جدید طرز پر تقریباً مکمل کر چکا ہے اور اس کے علاوہ ایک جدید طرز کا ایئرپورٹ بھی بنا چکا ہے۔ اس صوبے کی غربت اور پسماندگی کو بھی دور کرے گا اور مقامی لوگوں کو روز گار ملنے سے دہشت گردی کا بھی خاتمہ ہوگا۔
حالیہ سروے اور رپورٹس کے مطابق چین اس راہداری کا فیز 1 تقریباً مکمل کر چکا ہے، یعنی کہ قلیل اور درمیانی مدت کے منصوبے مکمل کر چکا ہے، جبکہ کچھ طویل مدت کے منصوبوں پر ابھی کام جاری ہے اور یہ پراجیکٹ فیز 2 میں داخل ہو چکا ہے، جس میں چین Mainline-1 (ML-1) تعمیر کرے گا اور پھر بعد میں (ML2) تعمیر کرے گا، یعنی کہ سڑکوں کے جدید نیٹ ورک کے ساتھ ساتھ جدید طرز کی ریلوے لائنیں بھی بنیں گی اور چین پاکستان کی سستی لیبر اور سستے خام مال کو استعمال کرتے ہوئے جدید طرز پر پیداواری طریقوں کو استعمال کر کے اشیاء تیار کرے گا اور اپنے ساتھ ساتھ پاکستانی مصنوعات و برآمدات میں اضافے کا باعث بنے گا۔ یہ امید کی جاتی ہے کہ یہ تمام منصوبے پاکستان کے لئے ایک گیم چینجر (Game Changer) ثابت ہوں گے۔
٭٭٭٭٭