آفتابِ درخشاں،اللہ کے آخری پیغمبر حضرت محمدؐ (2)
حضور نبی کریمؐ اپنی دیانت اور صداقت کی وجہ سے مشہور ہوچکے تھے لوگ آپ کو صادق اور امین پکارتے تھے۔ حضرت خدیجہؓ قریش کی ایک مالدار تاجر بیوہ خاتون تھیں۔نہایت شریف النفس اور پاکباز خاتون تھیں۔ حضرت خدیجہؓ نے اپنے غلام میسرہ کے ذریعے کہلا بھیجا کہ آپؐ میرا مالِ تجارت لے جائیے جو منافع میں اوروں کو دیتی ہوں آپ کو دوچند دوں گی۔ آپ نے قبول فرمایا تو ابوطالبؓ نے حضرت خدیجہؓ سے آپ کا نکاح کردیا۔
حضورنبی کریمؐ تمام جہانوں کے لیے رحمت بناکر بھیجے گئے۔ حضور نبی کریمؐ کی تشریف آوری سے پہلے دنیا جہالت اور اندھیروں میں بھٹک رہی تھی پورے کرہئ ارض پر خدائے وحدہٗ لاشریک کو ماننے والا کوئی نہ تھا
بزم کونین سجانے کے لیے آپ آئے
شمع توحید جلانے کے لیے آپ آئے
نبی کریمؐ غوروفکر کرنے کے لیے غارِ حرا میں تشریف لے جایا کرتے تھے۔ آپ غارِحرا میں عبادت کیا کرتے تھے۔ یہ عبادت وہی عبادت تھی جو آپ کے دادا ابراہیم ؑ نے نبوت سے پہلے کی تھی۔
آپ روزانہ غارِحرا میں اپنے معمول کے مطابق مصروفِ عبادت رہتے تھے۔ آپ پراسرار کھلنے شروع ہوگئے آپ کو رویائے صادقہ آنے لگے جو کچھ آپ خواب میں دیکھتے وہی پیش آتا تھا۔
ایسے میں ایک دن آپ مصروفِ عبادت تھے کہ حضرت جبرائیل ؑ تشریف لائے اور آپؐ سے فرمایا: پڑھ۔ آپؐ نے فرمایا کہ میں پڑھا ہوا نہیں ہوں۔ جبرائیل ؑ نے پھر کہا: پڑھ۔ آپ نے جواب دھرایا……
جبرائیل ؑ نے اللہ کا کلام وحی کیا۔
آنحضرؐت گھر واپس آئے تو جلالِ الٰہی سے لبریز تھے۔ آپؐ نے حضرت خدیجہؓ کو تمام واقعہ بتایا۔ آپؓ نے حضوؐر کو تسلی دی اور آپ کو ورقہ بن نوفل کے پاس لے کر گئیں۔ ورقہ بہت بڑے تھے اور عبرانی زبان جانتے تھے۔ تورات اور انجیل کے ماہر تھے۔ انہوں نے بے ساختہ کہا یہ وہی ناموس ہے جو موسیٰ ؑ پر اُترا تھا۔ کچھ دن بعد حضرت جبرائیل ؑ نے آپؐ کو مژدہ سنایا کہ آپؐ اللہ کے نبی ہیں اور اللہ کی عبادت کے طورطریقے سمجھائے۔ آپؐ نے حضرت خدیجہؓ سے بیان فرمایا آپ فوراً مسلمان ہوگئیں۔ آپ کو علم ہوچکا تھا کہ آپ آخری نبی ہیں اللہ کی طرف سے حکم ہوا کہ لوگوں کو حق کی طرف بلائیے۔ آپ نے نہایت خاموشی سے اللہ کی وحدانیت کی تبلیغ شروع کردی۔ مردوں میں سب سے پہلے سیدنا ابوبکرصدیق ؓ کی تصدیق فرمائی۔
حضرت زیدؓ نے بھی اسلام قبول فرمایا۔ تین برس تک نبی کریمؐ نے نہایت رازداری سے فرضِ تبلیغ ادا کیا۔ آخر حکمِ الٰہی پر حضوؐر نے کھلے عام دعوتِ حق دینا شروع کی۔ آپؐ نے اللہ کے حکم سے اپنے تمام عزیزوں کو کوہِ صفا پر چڑھ کر پکارا۔ آپؐ نے فرمایا: اے لوگو! اگر میں تمہیں کہوں کہ پہاڑ کے عقب سے ایک لشکر آرہا ہے تو تم یقین کروگے۔ سب نے کہا ہاں کیونکہ تم کو ہمیشہ ہم نے سچ بولتے دیکھا ہے۔ چند روز بعد آپؐ نے تمام خاندان کی دعوت کی اور دعوتِ اسلام پیش کی۔ تمام محفل پر سناٹا چھا گیا۔
حضرت علی ؑ نے اٹھ کر فرمایا مجھ کو آشوبِ چشم ہے گو میری آنکھیں نیلی ہیں اور گو میں سب سے نوعمر ہوں تاہم آپؐ کا ساتھ دوں گا……
مسلمانوں کی تعداد بڑھتی گئی۔ آپؐ نے ایک دن حرم کعبہ میں توحید کا اعلان فرمایا۔ کفار برداشت نہ کرسکے اور آپؐ کے شدید مخالف ہوگئے۔ قریش نے مکہ کی زمین تنگ کردی۔ کفار نے جب دیکھا کہ ان کی سختی اور ظلم کی انتہا کے باوجود اسلام پھیلتا جارہا ہے تو کفار نے حضورِپاکؐ اور اُن کے پیروکاروں کو مزید ظلم کا نشانہ بنانا شروع کردیا۔ اللہ تعالیٰ نے وحی کے ذریعے حضوؐر کو اپنے جانثاروں کے ساتھ مدینہ ہجرت کرنے کا کہا۔ اسی اثناء میں کفار نے حضوؐر نبی کریم کو قتل کرنے کی سازش کی۔ یہ نبوت کا تیرہواں سال تھا۔ حضوؐر نے حضرت علی کرم اللہ وجہہ کو اپنے بستر پر سلایا تمام امانتیں لوٹانے کا حکم دیا اور خود مدینہ کی طرف روانہ ہوگئے گویا
شب ہجرت ہے اور بستر نبیؐ کا
علیؑ قائم مقامِ مصطفیؐ ہیں
مدینہ کے انصار نے حضور نبی کریمؐ کا فقیدالمثال استقبال کیا۔ مدینہ کی تمام آبادی شہر سے باہر نکل آئی۔ پردہ نشین خواتین چھتوں پر آکھڑی ہوئیں ننھی معصوم بچیاں دف بجاتے ہوئے گانے لگیں گروہ درگروہ لوگ دربارِ نبویؐ سے فیض حاصل کرنے حاضر ہونے لگے۔ اب تک نمازوں میں صرف دو رکعتیں تھیں۔ اب ظہروعصر و عشا چار چار ہوگئیں اور اذان کا اجراء ہوا۔
2 رمضان المبارک میں قریش مکہ ایک ہزار جنگجوؤں کے ہمراہ بدر کے مقام تک آپہنچے۔ قریش پوری تیاری کے ساتھ آئے تھے۔ ادھر مسلمانوں کا یہ عالم تھا کہ صرف 313صاحب ِ ایمان تھے اور وہ بھی اس حالت میں تھے کہ کوئی سازوسامان نہ تھا۔ لیکن اللہ کی نصرت مسلمانوں کے شامل حال تھی کہ بارش ہوگئی اور کفار کا میدانِ جنگ دلدل بن گیا۔
3جنوری625ء میں غزوہئ اُحد ہوا۔ بدر کی شکست اور مارے جانے والوں کے ماتم کے بعد ایک بار پھر قریش مکہ انتقام لینے کے لیے مدینے پر چڑھ دوڑے۔ اس جنگ میں ابوسفیان کی بیوی ہندہ نے وحشی نامی حبشی کے ذریعے حضرتِ حمزہؓ کو شہید کروایا اور لاش کا مُثلہ کیا۔
آپ بہت آزردہ ہوئے۔ 3ہجری میں امام حسن ؑ کی ولادت ہوئی رمضان کی پندرہ تاریخ تھی۔ حضورؐ نبی کریم نے حضرت عمرؓ کی صاحبزادی حضرتِ حفصہؓ سے نکاح کیا۔ حضرتِ عثمانؓ کی شادی ام کلثومؓ سے ہوئی۔
حضور نبی کریمؐ کا سب سے بڑا فرض توحید کا احیاء اور حرمِ کعبہ کو آلائشوں سے پاک صاف کرنا تھا۔ 10رمضان8ہجری کو حضور نبی کریمؐ کا لشکر جرار علم توحید بلند کیے مکہ روانہ ہوا۔ آپؐ خانہئ کعبہ میں داخل ہوئے 360 بت موجود تھے۔ آپؐ اپنی چھڑی کی نوت سے بُت گراتے جاتے اور یہ پڑھتے جاتے تھے۔ حق آگیا اور باطل مٹ گیا باطل مٹنے کی ہی چیز تھی۔ تمام باطل تصاویر مٹا دی گئیں اور خانہئ کعبہ کے اندر تکبیریں کہی گئیں۔
آپؐ نے تمام لوگوں کے سامنے خطبہ دیا۔ یہ خطاب نہ صرف اہلِ عرب بلکہ تمام دنیا اور آئندہ کی تمام نسلوں تمام بنی نوعِ انسان کے لیے مشعل راہ ہے۔ ایک خدا کے سوا کوئی خدا نہیں۔ اس کا کوئی شریک نہیں، اس نے اپنا وعدہ سچا کیا۔ تمام قریش مکہ آپؐ کے سامنے خاموش اور باادب کھڑے تھے۔ ارشاد ہوا تم پر کچھ الزام نہیں جاؤ تم سب آزاد ہو حتیٰ کہ ہندہ کو بھی معاف کردیا۔
نماز کا وقت آیا حضرت بلالؓ نے کعبہ کی چھت پر چڑھ کر اذان دی اور فرزندانِ توحید نے نماز ادا کی۔
آپ10ہجری میں حج کے لیے روانہ ہوئے 4ذوالحجہ اتوار کا دن جب آپؐ مکہ معظمہ میں داخل ہوئے۔ تسبیح و تہلیل کرتے ہوئے آپ نے طواف کیا۔ دوگانہ نماز ادا کی۔ مناسکِ حج ادا کرنے عرفات آئے اور پھر عرفات میں نمرہ کے مقام پر خطبہ دیا۔ عین اس وقت آیت کریمہ نازل ہوئی…… ”آج میں نے تمہارے لیے تمہارے دین کو مکمل کردیا اور تمہارے لیے مذہب اسلام کو منتخب کرلیا۔“
محسن انسانیت، فخرموجودات، سرور کائنات، پیغمبرآخرالزمان، ہادیئ انس وجاں، حامی بے کساں، حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم 12ربیع الاول 632ء کو وصال فرماگئے……!