بارشیں،سیلاب اور پنجاب انتظامیہ

  بارشیں،سیلاب اور پنجاب انتظامیہ
  بارشیں،سیلاب اور پنجاب انتظامیہ

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

سیلاب اور بارشوں جیسی قدرتی آفات کو شائد روکا نہیں جا سکتا،مگر ہم اپنی تیاریوں اور بہتر حکمت عملی سے اس کی تباہ کاریاں کم کر سکتے ہیں،کوئی شک نہیں کہ جاپان کے دورے سے تازہ تازہ لوٹے،چیف سیکرٹری پنجاب زاہد زمان اور ان کی ٹیم بارشوں اور سیلاب میں تندہی سے کام کر رہی ہے، پنجاب انتظامیہ نے ان ہنگامی حالات کے دوران ابھی تک اپنے فرائض سرانجام دینے میں کوئی کسر اُٹھا نہیں رکھی، دن رات ایک کر رہے ہیں، سیکرٹری آبپاشی ڈاکٹر واصف خورشید تو کئی راتیں جاگتے رہے اور بمشکل چند گھنٹے سو رہے ہیں، میں نے جب سیکرٹری مواصلات و تعمیرات سہیل اشرف کو فون کیا تو وہ اس وقت جھنگ کے کسی علاقے میں سڑکیں چیک کر رہے تھے،متاثرین کے حالات معلوم کر رہے تھے، سیکرٹری لائیو سٹاک احمد عزیز تارڑ جنوبی پنجاب کے کسی علاقے میں مصروف کار تھے،انسپکٹر جنرل جیل خانہ جات میاں فاروق نذیر،ٹی شرٹ اور نیکر پہنے تین تین فٹ پانی میں ڈوبی سیالکوٹ جیل کے قیدیوں کا حوصلہ بڑھا رہے تھے،یہ کوششیں اور کام قابل تعریف ہیں۔

مگر ایک سوال یہ بھی اٹھتا ہے کہ ہم ہر کام اسی وقت کیوں کرتے ہیں، جب وہ سر پر پڑتا ہے؟ فائر فائٹنگ ”بوہے  آئی جنج، ونوں کڑی دے کن “کے مصداق اپنی تیاریوں اور معاملات کو آخری وقت تک ہی کیوں پس پشت ڈالے رکھتے ہیں؟ کمشنر لاہور جیسی اہم ترین پوسٹ کب سے خالی تھی،اس پر کسی مناسب افسر کو لگانے کی بجائے ڈپٹی کمشنر لاہور موسیٰ رضا کو اس کا اضافی چارج دے دیا گیا،کیوں؟ موصوف تو اپنا بوجھ اٹھا نہیں پا رہے،ان سے اپنے ماتحت افسروں پر قابو پانا مشکل ہے، کمشنری کیسے چلنی تھی،نتیجے میں کیا ہوا؟لاہور کے اردگرد راوی کنارے اور راوی بیڈ کے اندر تمام آبادیاں، کالونیاں اور سوسائٹیاں تو سیلاب میں ڈوبنی ہی تھیں،ان کے مکینوں کو بھی وقت سے پہلے نکالا جا سکا نہ انہیں کوئی فوری ریلیف دیا جا سکا،سر پر پڑی تو وزیراعلیٰ کے دورے کے لئے ڈی سی لاہور سے چارج واپس لے کر سیکرٹری قانون کو دے دیا گیا،آصف بلال لودھی نے ابھی لاہور ڈویژن میں قانون کی عملداری شروع ہی کی تھی کہ ان سے بھی چارج واپس لے لیا گیا اور کمشنر فیصل آبادمریم خان کو تبدیل کر کے کمشنر لاہور لگا دیا گیا، مریم خان بہت ہی محنتی اور اپ رائٹ افسر ہیں،لاہور کی پہلی خاتون کمشنر کا اعزاز انہیں ملا ہے، وہ پنجاب کے چار ڈویژنوں میں خدمات سر انجام دینے والی بھی واحد افسر ہیں، انہیں سمجھنا ہو گا کہ لاہور میں ہونے والی انتظامی ناکامی کی ایک وجہ اس کی بڑہتی ہوئی آبادی بھی ہے،حکومت کو فوری طور پر لاہور کو شہری اور دیہی دو ڈسٹرکٹس میں تبدیل کرنا ہو گا،اسی طرح لاہور میں روڈا،میونسپل کارپوریشن اور ایل ڈی اے کے معاملات کیسے چل رہے ہیں،یہ بھی سمجھ سے بالا تر ہے، یہاں چوں چوں کا مربہ بنا ہوا ہے، حکومت اگر ان تمام معاملات میں بہتری چاہتی ہے تو نئی کمشنر کو مکمل اختیارات دے کر اس کا مینڈیٹ دیا جائے تاکہ لاہور کے انتظامی اور ترقیاتی معاملات بہتر ہو سکیں،فیصل آباد میں نئے لگنے والے کمشنر راجہ جہانگیر بھی بہت بہتر چوائس ہیں،وہ اس سے پہلے بہاولپور میں اچھا کام کر چکے ہیں،ضرورت اِس امر کی ہے کہ باقی اہم ڈویژنوں،اضلاع اور بڑے شہروں میں جونیئر افسروں کی بجائے،سینئر اور تجربہ کار افسر لگائے جائیں۔ 

پاکستان خصوصاً صوبہ پنجاب ہر سال بارشوں اور سیلاب کے خطرات سے دوچار ہوتا ہے، یہ کوئی پہلی بار نہیں ہوا بلکہ دہائیوں پرانی کہانی ہے جس کے بنیادی اسباب میں انتظامی کوتاہیاں، منصوبہ بندی کی کمی، بھارتی آبی جارحیت کا بیانیہ اور موسمیاتی تبدیلی کے بڑھتے ہوئے اثرات شامل ہیں، گزشتہ پچاس برسوں سے یہ موقف بارہا دہرایا جاتا ہے کہ بھارت دریاؤں پر ڈیم بنا کر پانی روک رہا ہے، یا پھر اچانک چھوڑ دیتا ہے، جس سے پاکستان میں سیلاب آتا ہے، یہ ”آبی جارحیت“ کا بیانیہ ہر سیلاب کے موقع پر سرکاری اور سیاسی سطح پر موضوع بنتا ہے، لیکن حقیقت یہ ہے کہ اگر بارشیں شمالی علاقوں اور مقبوضہ کشمیر کی پہاڑی وادیوں میں زیادہ ہوں تو پانی کا بہاؤ فطری طور پر نشیبی علاقوں یعنی پنجاب اور سندھ میں ہی آنا ہے۔ اگر ہم یہ جانتے تھے کہ پانی نیچے ہی آنا ہے تو ہم نے اتنے برسوں میں اس قدرتی بہاؤ کو قابو میں رکھنے کے لئے پائیدار منصوبہ بندی کیوں نہیں کی؟ ہر بار صرف بھارت کو موردِ الزام ٹھہرا دینا کیا ہماری انتظامی کمزوریوں پر پردہ ڈالنے کے مترادف نہیں؟

پنجاب کی صوبائی انتظامیہ اور بیوروکریسی کا اولین فرض عوام کی جان و مال کا تحفظ ہے، لیکن زمینی حقیقت یہ ہے کہ ہر بارش اور سیلاب سے قبل وارننگز موجود ہوتی ہیں، محکمہ موسمیات پیشگی اطلاعات دیتا ہے، حتیٰ کہ عالمی ماہرین بھی ماڈلز کے ذریعے خطرات کا اندازہ لگا لیتے ہیں،اس کے باوجود وقت پر حفاظتی اقدامات نہ ہونا انتظامی ناکامی ہے، سیلابی پانی کی تباہ کاریوں کی بڑی وجہ انسانی غلط منصوبہ بندی ہے، دریاؤں کے قدرتی راستے صدیوں سے موجود ہیں، لیکن جب ان راستوں پر ہاؤسنگ اسکیمیں، فیکٹریاں اور دیہات تعمیر ہونے لگیں تو لازمی تھا کہ پانی اپنا راستہ بنانے کے لئے انہی بستیوں کو اجاڑتا، سوال یہ ہے کہ ان کالونیوں کو این او سی کس نے جاری کیے؟ کس محکمے نے یہ اجازت دی کہ دریائے راوی یا چناب کے کنارے رہائشی آبادیاں بسائی جائیں؟یہ ذمہ داری براہِ راست ضلعی انتظامیہ، ریونیو محکمے، لوکل گورنمنٹ اور ڈویلپمنٹ اتھارٹیز پر عائد ہوتی ہے، اگر اس پر سنجیدہ اور شفاف تحقیقات کی جائیں تو معلوم ہو گا کہ کتنے افسروں نے ذاتی مفادات، رشوت یا سیاسی دباؤ کے تحت ایسی سکیموں کو منظور کیا۔پنجاب حکومت کے لئے سب سے بڑا امتحان یہی ہے کہ وہ ان ہزاروں این او سیز کی تحقیقات کرے، اگر ایک افسر یا ادارہ عوامی مفاد کے خلاف فیصلے کرتا ہے اور دریا کے راستے پر آبادیاں بننے دیتا ہے تو اس سے ہونے والی تباہی کی ذمہ داری بھی اسی پر عائد ہونی چاہئے۔

پوری دنیا اس وقت موسمیاتی تبدیلیوں کو سب سے بڑا خطرہ سمجھ کر اقدامات کر رہی ہے لیکن ہم ابھی تک سنجیدہ تیاری نہیں کر سکے،پنجاب اس حوالے سے ملنے والے فنڈز کہاں خرچ کر رہا ہے؟چھوٹے ڈیمز کی تعمیر، جدید آبپاشی نظام، درختوں کی کٹائی پر پابندی اور شہروں کی واٹر ڈرینج سسٹم کی اپ گریڈیشن وہ اقدامات ہیں جن پر بہت کم عمل ہوا، نتیجہ یہ ہے کہ ایک طرف گلیشیر پگھلنے اور بارشوں کے بڑھنے سے پانی زیادہ ہو رہا ہے اور دوسری طرف ہم اسے ذخیرہ کرنے کے قابل نہیں یوں یا تو سیلاب آتا ہے یا پھر قحط۔

محکمہ موسمیات کافی دن پہلے بارشوں اور ممکنہ سیلاب کی پیشگوئی کرتا ہے،مگر افسوس کہ نہ تو بروقت اقدامات کیے جاتے ہیں، نہ ہی دیہات اور قصبوں کے لوگوں کو بہتر مقامات پر منتقل کیا جاتا ہے، ریسکیو آپریشن شروع ہونے تک پانی اپنے راستے میں سب کچھ بہا لے جاتا ہے، سیلاب اور بارشیں ”قدرتی آفت“ سے زیادہ ”انتظامی ناکامی“ہیں،اگر ہم سنجیدہ اقدامات کریں تو نقصانات کم سے کم کیے جا سکتے ہیں۔

٭٭٭٭٭

مزید :

رائے -کالم -