تحریک انصاف۔۔۔ نامنظور؟
حکومت پاکستان کے ترجمان وفاقی وزیر اطلاعات عطاء اللہ تارڑ اور دیگر ”اہم غیرسرکاری ترجمان“ کھل کر کہہ رہے ہیں کہ اب تحریک انصاف پر پابندی لگائی جائے گی، یعنی اسے اب پاکستان میں سیاست کرنے کا ”حق“ نہیں رہے گا جبکہ ایک دوسرا بڑا ”اعلان یا دعویٰ“ بھی ساتھ ساتھ کیا جا رہا ہے کہ خیبرپختونخوا میں تحریک انصاف کے وزیراعلیٰ علی امین گنڈاپور کی حکومت کا ”خاتمہ“ کر دیا جائے گا اور یہ خاتمہ چونکہ ”جمہوری طریقے“ یعنی تحریک عدم اعتماد سے نہیں ہو سکتا، لہٰذا صوبے میں ”گورنر راج“ لگایا جائے گا۔ اگر ایسا ہو گیا تو ایک ”شارٹ کٹ سے اقتدار“ پیپلز پارٹی کو مل جائے گا، کیونکہ صوبہ خیبرپختونخوا کے گورنر فیصل کریم کنڈی پیپلز پارٹی کے سینئر لیڈر ہیں۔فیصل کریم کنڈی کا تعلق وزیراعلیٰ علی امین گنڈاپور کے ضلع ڈیرہ اسماعیل خان سے ہے اور وہ 2018ء اور 2024ء میں علی امین گنڈاپور کے ہاتھوں شکست کھا چکے ہیں، لہٰذا یہ کہا جا سکتا ہے کہ وزیراعلیٰ سے شکست کھانے والا گورنر خیبرپختونخوا اقتدار کی اس کرسی کو ”سنبھالے“ گا جس کے لئے اس کے ووٹرز نے اسے انتخابات میں اہل نہیں سمجھا تھا۔ تحریک انصاف پاکستان کی دوسری طاقتور ترین سیاسی پارٹی ہو گی جس سے ”سیاست کا حق“ چھینا جائے گا۔ ویسے تو پاکستان میں گزشتہ 77 برسوں میں 70 کے قریب مذہبی و سیاسی جماعتوں کو اپنا سیاسی و مذہبی کردار ادا کرنے سے روکا جا چکا ہے، لیکن تحریک انصاف سے پہلے جس بڑی جماعت پر یہ پابندی عائد کی گئی تھی وہ مشرقی پاکستان کی مقبول ترین جماعت عوامی لیگ تھی جسے جنرل یحییٰ خان نے مارچ 1971ء میں ”سیاست سے باہر“ کر دیا تھا اور نتیجہ وہاں کے عوام نے بھارت کے تعاون سے ”ہمیں“ مشرقی پاکستان سے ”باہر“ کر دیا تھا۔ ویسے تو جنرل ضیاء الحق نے بھی اپنے ”گرفتار حریف“ سابق وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کی جماعت کو سیاست سے باہر کر کے ان کی جماعت کو ”ٹکڑے ٹکڑے“ کر دیا تھا، لیکن ختم نہ کر سکے اور بھٹو کی بیٹی، داماد اور اب نواسہ اقتدار کے کھیل میں ”صرف شریک“ ہی نہیں،بلکہ ”حصے دار“ ہیں۔ اگر ”طاقتور ترین فوجی آمر“ کی لگائی پابندی کا سامنا کرنے والی پیپلز پارٹی نے اب اپنی سیاسی حریف تحریک انصاف پر پابندی لگوائی یا گورنر راج میں حصہ ڈالا تو وہ وہی کام کریں گے،جو ان کے خلاف ملک پر طویل ترین مدت حکمران رہنے والے فوجی آمر جنرل ضیاء الحق نے کیا تھا۔ پاکستان میں سیاسی جماعتوں پر پابندی کا کھیل پاکستان کے قیام کے صرف چار سال بعد شروع ہو گیا تھا جب 1951ء میں کمیونسٹ پارٹی کی قیادت اور پاک فوج کے جنرل اکبر خان کو لیاقت علی خان کی حکومت کا تختہ اُلٹنے کی سازش کے الزام میں گرفتار کیا گیا۔ میجر جنرل اکبر خان، ان کی اہلیہ، کمیونسٹ پارٹی کے سیکرٹری جنرل سید سجاد ظہیر، پاکستان کے بے مثل اور لازوال شاعر فیض احمد فیض و دیگر کو اس بغاوت کے الزام میں گرفتار کیا گیا۔ کمیونسٹ پارٹی پر وہ ”پابندی“ تو نہ رہی، لیکن انہیں پاکستان میں سیاست کرنے کی آزادی نہ مل سکی۔ جب بھی انہوں نے سیاست میں حصہ لینے کی کوشش کی تو سختیاں برداشت کرنا پڑیں۔ بائیں بازو کے رہنما کہلانے والے ذوالفقار علی بھٹو کے دور میں بھی کمیونسٹ پارٹی زیرعتاب ہی رہی اور پھر بھٹو کی بیٹی بے نظیربھٹو کے دور میں اس پارٹی کو ”سانس لینے“ کی اجازت مل ہی گئی۔ کمیونسٹ پارٹی کے بعد جس اہم جماعت پر سیاست میں حصہ لینے پر پابندی لگائی گئی وہ جماعت اسلامی تھی 1963ء میں ایوب خان کے دور میں جماعت اسلامی پر ریاست مخالف سرگرمیوں اور غیر ملکی فنڈنگ کے الزام میں پابندی لگائی گئی۔مشرقی پاکستان ہائیکورٹ نے اس پابندی کو مسترد کر دیا جبکہ مغربی پاکستان ہائیکورٹ نے ”حسب ِ توقع“ پابندی برقرار رکھی اور پھر سپریم کورٹ سے جماعت اسلامی کو ریلیف ملا اور دوبارہ سیاست کرنے کی اجازت مل گئی۔ایوب خان کے بعد آنے والے حکمران جنرل یحییٰ خان نے ایک نہیں دو بڑی پارٹیوں پر یہ پابندی عائد کی۔انہوں نے مشرقی پاکستان میں تقریباً اور پورے ملک میں بے مثال کامیابی حاصل کرنے والے شیخ مجیب الرحمن کی جماعت عوامی لیگ پر پابندی عائد کی، جس پر الزام تھا کہ متوازی حکومت قائم کی، ملک میں بدامنی، عدم استحکام، تشدد اور قومی پرچم کی بے حرمتی کے الزامات بھی عائد کئے گئے۔ عوامی لیگ کے علاوہ نیشنل عوامی پارٹی جو آج عوامی نیشنل پارٹی کہلاتی ہے، پر بھی یحییٰ خان نے پابندی عائد کی اس وقت پارٹی سربراہ موجودہ سربراہ ایمل ولی خان کے دادا عبدالولی خان تھے۔ عوامی نیشنل پارٹی یا نیشنل عوامی پارٹی کو یہ اعزاز بھی حاصل ہے کہ انہیں دو مرتبہ اس پابندی کا سامنا کرنا پڑا۔ دوسری مرتبہ طاقتور سیاسی مخالف وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو نے اس جماعت پر پابندی لگا دی اور ان کے نتیجے میں صوبہ سرحد یعنی خیبرپختونخوا اور بلوچستان میں جمعیت علماء اسلام اور اے این پی کی حکومتیں ختم ہو گئیں۔ بہرحال نیشنل عوامی پارٹی پہلے نیشنل ڈیموکریٹک پارٹی اور اب عوامی نیشنل پارٹی کے نام سے زندہ ہے اور آج بھی سیاست میں بھرپور کردار ادا کر رہی ہے۔عوامی نیشنل پارٹی پر پابندی لگانے والے ذوالفقار علی بھٹو کی اپنی پارٹی کو جنرل ضیاء الحق نے ان کے ساتھی کے ذریعے ٹکڑے ٹکڑے کر دیا،مگر وہ اس پارٹی کا کچھ بھی نہ بگاڑ سکے۔ پارٹی آج بھی زندہ ہے البتہ بے نظیر بھٹو کی راولپنڈی کے لیاقت باغ سٹیڈیم کے باہر شہادت کے بعد سے پارٹی سکڑتی جارہی ہے اور اب مکمل طور پہ ایک صوبے کی پارٹی بن چکی ہے یا یوسف رضا گیلانی اور ان کے بیٹوں کی سیٹوں کی بدولت ملتان پر اس کا مکمل کنٹرول ہے۔ مسلم لیگ(ن) کے سربراہ میاں نوازشریف کی حکومت کا تختہ اُلٹ کر اقتدار میں آنے والے جنرل پرویز مشرف کے دور میں ڈھیروں مذہبی سیاسی جماعتوں پر پابندی لگائی گئی۔ 2001ء سے 2015ء تک 60 سے زائد مذہبی اور سیاسی جماعتوں پر پابندی لگی، سپاہ صحابہ، سپاہ محمد، لشکر جھنگوی، تحریک نفاذ فقہ جعفریہ، تحریک اسلامی، لشکر طیبہ، جیش محمد، جماعت الدعوہ اور دیگر جماعتوں اور گروہوں پر پابندی لگتی رہی،مگر کسی بھی جماعت کو پاکستان کی سیاست چاہے مذہبی ہو یا سیاسی میں کام کرنے سے روکا نہیں جا سکا اور آج بھی یہ تمام جماعتیں کسی نہ کسی نام سے اپنا کردار ادا کر رہی ہیں۔سابق وزیراعظم عمران خان کے دور میں ایک اور طاقتور مذہبی جماعت بن کر ابھرنے والی تحریک لبیک پر پابندی لگائی گئی، جس پر پاکستان میں پرتشدد مظاہرے کرنے اور پولیس اہلکاروں پر تشدد کرکے ہلاک کرنے جیسے الزامات تھے، لیکن یہ پابندی بھی صرف سات ماہ ہی چل سکی۔ ان حالات میں سمجھ نہیں آتی کہ تحریک انصاف جیسی طاقتور سیاسی جماعت کو کس طریقے سے ”پابند ِ سلاسل یا راہ عدم“ کی سزا سنائی جا سکے گی۔ سزا سنانے والے جانیں اور سزا سننے والے جانیں، لیکن ہم نیک و بد حضور کو سمجھائے دیتے ہیں کہ اب 2025ء آ رہا ہے اور اب ”دنیا“ دیکھتی ہی نہیں، بلکہ ”مداخلت“ بھی کرتی ہے، اللہ تعالیٰ اس پاکستان کو اس ”دنیاوی اور بیرونی“ مداخلت سے بچائے۔ آمین!
٭٭٭٭٭