دلیپ کمار کی کہانی انہی کی زبانی ۔ ۔ ۔ اکتیسویں قسط
نظام الدولہ
’’زندگی انقلاب کی دہلیز پر دستک دینے جارہی تھی۔اس روز میں نے اسے پہلی بار دیکھا۔اسکے سیاہ بال پیچھے کو کنگھی کئے تھے اور مسکراتی آنکھوں سے وہ مجھے دیکھ رہا تھا۔مسزدویکارانی نے مجھے اس سے متعارف کرایا۔اس نے گرمجوشی سے میرے ساتھ ہاتھ ملایا۔اس کویہ معلوم ہوا کہ میں نے ابھی ابھی فلم انڈسٹری جوائن کی ہے تو اسے یہ سن کر اچھا لگا۔وہ اشوک کمار تھا۔ میرا اشوک بھیا ۔جسے میں نے ہمیشہ عزت دی اور احترام دیا۔اس کے ساتھ میری دوستی زندگی بھر کا ساتھ تھی۔‘‘
ایک صبح میں چرچ اسٹیشن پر کھڑا تھا ( سینٹرل بمبئی کا اسٹیشن )جہاں سے مجھے دادار کے لئے ٹرین پکڑنی تھی۔وہاں میری ایک ایسے انسان سے ملاقات ہونے جارہی تھی جو مجھے ایک کاروباری پیش کش کرنا چاہتا تھا۔یہ لکڑی کی چارپائیوں کا کاروبار تھا جو ہم نے چھاؤنی میں شروع کرنا تھا ۔چرچ اسٹیشن پر ڈاکٹر مشانی بھی موجود تھے۔وہ مجھے جانتے تھے،نفسیات کے استاد تھے اور جب میں ایک سال تک ولسن کالج میں پڑھتا رہا یہ وہاں پڑھاتے تھے ۔چرچ گیٹ پر مجھے ان کا انتظار تھا۔خیر ملاقات ہوئی اور میں نے انہیں اپنا تعارف کرایا ،وہ آغا جی کو جانتے تھے ۔مجھے دیکھ کر بولے ’’ یوسف تم یہاں کیا کررہے ہو؟‘‘
دلیپ کمار کی کہانی انہی کی زبانی ۔ ۔ ۔ تیسویں قسط پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
میں نے عرض کیا’’ ملازمت کرچکا ہوں لیکن اب کاروبار کی سوچ رہا ہوں‘‘
’’کاروبار اچھی چیز ہے‘‘ وہ بولے’’ ہاں میں ملاد جارہا ہوں ۔وہاں بمبئی ٹاکیز والوں سے میری ملاقات ہے۔اگر تمہارے پاس وقت ہے تو میرے ساتھ چلو ۔ہوسکتا ہے تمہیں وہاں اچھی ملازمت مل جائے‘‘
میں نے توقف کیا۔کچھ سوچا اور دادار جانے کا فیصلہ ملتوی کردیا اور انکے ساتھ چل دیا۔
میرے پاس تو بندرا تک کا ٹکٹ تھا لیکن ڈاکٹر مشانی نے ٹکٹ چیکر سے مجھے ملاد کا ٹکٹ کٹوا دیا۔وہ ان کاجاننے والا تھا،ملاد اتر کر ڈاکٹر مشانی نے ٹیکسی لی اور کہا’’ ہمیں جلدی پہنچنا ہوگا ۔ویسے یہاں سے بمبئی ٹاکیز دور نہیں لیکن خدشہ ہے اگر مسزدویکارانی لنچ کے لئے اٹھ گئیں تو ہمیں کافی انتظار کرنا پڑے گا‘‘ مسزدویکا رانی بمبئی ٹاکیز کی مالک تھیں ۔
مجھے فلم کی دنیا کے بارے میں کچھ بھی معلوم نہیں تھا ۔حتٰی کہ کبھی فوٹو پر بھی کوئی ایکٹر نہیں دیکھا تھا البتہ راجکپور کی زبانی کچھ سن رکھا تھا ۔اسکے والد پرتھوی راج فلموں میں کام کرتے تھے۔اس سے زیادہ مجھے علم نہیں تھا۔
بمبئی ٹاکیز کی دنیابڑی مسحور کن تھی۔کئی ایکڑ میں پھیلے اس سٹوڈیو میں باغات سے دلکشی پیدا ہورہی تھی۔باغات سے آگے ایک خوبصورت فوارہ بھی نصب تھااور سامنے بنگلہ نما عمارت تھی جس میں مسزدویکا رانی کا آفس تھا ۔مجھے ماحول میں آسودگی ،مانوسیت اور نفاست نے متاثر کیا۔
ڈاکٹر مشانی سے مسز دویکا رانی انتہائی گرمجوشی سے ملیں ۔وہ خوبرو اور حسین عورت تھیں۔ مجھے دیکھا اور پھر تکے جانے لگیں ۔ڈاکٹر مشانی نے میرا تعارف کرایا تو انہوں نے مجھے کرسی کھینچ کر پاس آنے کے لئے کہا لیکن اس دوران بھی انکی نگاہیں مجھ پر مرکوز و منجمند رہیں ۔انہوں نے صوفے پر بیٹھے ایک فلم ڈائریکٹر چکرا بوراتھی سے میراتعارف کرایا۔
مسزدویکا رانی نے مجھ سے پوچھا ’’ اردو جانتے ہو؟‘‘
اس سے قبل ہی ڈاکٹر مشانی نے انہیں بتادیا کہ اسکا پشاور سے تعلق ہے ،آغا جی کا بھی حوالہ دیا۔اور میرے بارے میں اچھے کلمات ادا کئے۔مسز دویکا رانی یہ جان کر بہت خوش ہوئیں کہ میں اچھی اردو اور انگریزی بول سکتا ہوں ،میں انکی نگاہوں میں اپنے لئے غیر معمولی اشتیاق دیکھ رہا تھا کہ وہ متجسس اور پرجوش ہیں ۔لیکن کیوں ؟کیا وہ مجھے ملازمت کی آفر کرنے جارہی تھیں؟
بالاخر وہ بولیں ’’ کیا تم اداکار بننا پسند کروگے‘‘؟
یہ غیر متوقع جملہ تھا اور میں اس پر حیران ہی ہورہا تھا کہ وہ گویا ہوئیں’’ میرے سٹودیو میں ملازمت کروگے تو میں تمہیں ہر مہینہ ساڑھے بارہ سو روپے تنخواہ دوں گی‘‘ میں حیران تھا ،پریشان تھا اور ڈاکٹر مشانی کی جانب دیکھنے لگا کہ مجھے کیا جواب دینا چاہئے۔کیا مجھے اس آفر کو قبول کرلینا چاہئے؟(جاری ہے)
دلیپ کمار کی کہانی انہی کی زبانی ۔ ۔ ۔ بتیسویں قسط پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں