ایوب خان نے اپنی خودنوشت میں تجزیہ کیا کہ انہیں مغربی پاکستان میں زیادہ ووٹ ملے مگر انہیں مادر ملت کے مقابل کھڑا ہونا ہی نہیں چاہیے تھا
مصنف:جسٹس (ر) بشیر اے مجاہد
قسط:72
فیلڈ مارشل ایوب خان نے اپنی خودنوشت کتاب ”جس رزق سے آتی ہوپروازمیں کوتاہی“ میں اگرچہ یہ تجزیہ کیا ہے کہ انہیں مغربی پاکستان میں زیادہ ووٹ ملے اور مشرقی پاکستان میں بھی ان کی اکثریت تھی…… مگر حقیقت یہ ہے کہ فیلڈ مارشل ایوب خان کو محترمہ مادر ملت کے مقابل کھڑا ہونا ہی نہیں چاہیے تھا۔ انہیں اُن کی جماعت کنونشن مسلم لیگ کے سیاست دانوں نے محترمہ فاطمہ جناحؒ کے بارے میں غلط بتایا تھا۔ وہ قوم کی ماں تھیں اور بانیٔ پاکستان کی ہمشیرہ کی حیثیت سے اُن کے ادب و احترام کا تقاضہ تھا کہ فیلڈ مارشل ایوب خان اُنہیں مناسب احترام دیتے اور اُن کے مقابلہ سے دست کش ہو جاتے۔ کیونکہ ایک ماں کے مقابلے میں جیتنے والا جیت کر بھی ہار جاتا ہے۔ جیسا کہ فیلڈ مارشل ایوب خان اقتدار سے اپنی ریٹائرمنٹ کے بعد بھی اس سلسلہ میں ہمیشہ شرمندہ شرمندہ ہی رہے۔ وہ 1965ء میں پاکستان کے دوبارہ صدر منتخب تو ہو گئے مگر اس کے بعد ایوب خان کے خلاف بہت سی بغاوتیں ہوئیں اور وہ شدید بیمار بھی ہوئے۔
1965 ء کے اس عرصہ میں جب ایوب خان اپنی نام نہاد مقبولیت کا بھانڈا پھوٹ جانے پر سخت پریشان تھے، ہمارے ازلی دشمن بھارت نے 6 ستمبر 1965ء کو پاکستان پر حملہ کر دیا۔ رات کے اندھیرے میں بھارتی فوجیں لاہور شہر پر حملہ آور تھیں مگر پاکستان کے محافظ جاگ رہے تھے۔ ایوب خان نے 6 ستمبر 1965ء کو جو تقریر کی اس کا مثبت اثر ہوا۔ پوری قوم متحد و منظم ہو گئی۔ بھارتی حملہ ناکام ہوا مگر مختلف محاذوں پر یہ جنگ 17 روز تک جاری رہی۔ قوم نے ایوب حکومت اور افواج پاکستان کا بھرپور ساتھ دیا اور بھارتی ناپاک عزائم کو ناکام بنا دیا۔ جنگ طرفین کے لیے بے پناہ نقصانات کا باعث ہوتی ہے۔ اس میں ہزاروں افراد کام آئے مگر اس سے ایوب حکومت کو ایک فائدہ ضرور ہوا وہ یہ کہ محترمہ کی احتجاجی تحریک کی وجہ سے ہونے والا نقصان وقتی طور پر دور ہو گیا اور اپوزیشن پارٹیاں اور عوام سیاسی اختلاف بھول کر دفاع پاکستان کے لئے متحد و منظم انداز میں حکومت کا ساتھ دینے لگے۔ جنگ کے بعد ایوب خان معاہدۂ تاشقند کے لئے روس کے کہنے پر مذاکرات کی میز پر بیٹھے جہاں وہ میدان جنگ میں ملنے والے مثبت تاثر کو بات چیت کی میز پر ہار گئے اور ملک بھر میں اپوزیشن پارٹیاں پھر اُن کے خلاف اٹھ کھڑی ہوئیں۔ ایوب خان نے 3 برس تک اپوزیشن کا مقابلہ کیااور بالآخر 1969ء میں وہ یہ سیاسی جنگ ہار گئے۔ اس دوران اگرچہ انہوں نے اپوزیشن پارٹیوں اور بنگال کے شیخ مجیب الرحمن سے مذاکرات کئے مگر حکومت سے ان کے پاؤں اُکھڑ چُکے تھے اور بالآخر انہوں نے مارچ 1969ء میں صدر مملکت کا عہدہ چھوڑ دیا اور اقتدار چیف آف دی آرمی سٹاف جنرل آغا یحییٰ خان کے سپرد کر دیا جو فوری طور پر مارشل لاء نافذ کر کے عہدۂ صدارت پر قابض ہو گئے۔ یہاں ایوب خان سے جو غلطی ہوئی وہ یہ تھی کہ وہ اگر اقتدار اپنے بنائے ہوئے آئین کے مطابق اپنی قومی اسمبلی کے سپیکر فضل القادر چودھری کے حوالے کر دیتے تو ملک میں جمہوریت کا تسلسل قائم رہتا۔ مگر انہوں نے اقتدار جنرل یحییٰ خان کو سونپ کر اپنی ادھوری سی جمہوریت کا بھی گلہ گھونٹ دیا۔ یحییٰ خان نے 1962ء کا آئین منسوخ کر کے تمام اسمبلیوں کو تحلیل کر دیا۔ فیلڈ مارشل ایوب خان کی اس سنگین غلطی نے پاکستان میں جمہوریت کا دروازہ بند کر دیا اور پاکستان کی سیاسی جماعتوں کو ازسر نو جمہوریت کے لیے جدوجہد کا آغاز کرنا پڑا۔ (جاری ہے)
نوٹ: یہ کتاب ”بک ہوم“ نے شائع کی ہے (جملہ حقوق محفوظ ہیں)ادارے کا مصنف کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں۔