کچے کے ڈاکوؤں اور دہشتگردوں سے ہم خوفزدہ کیوں ہیں؟
یونس باٹھ
کچے کے علاقے میں ڈاکوؤں کے ہاتھوں پولیس ملازمین کی شہادتوں کا افسوس ناک واقعہ ابھی ہم بھول نہیں پائے تھے کہ بلوچستان میں دہشت گردوں نے متعدد حملوں کے دوران قانون نافذ کرنے والے 10اہلکاروں سمیت 38افراد کو موت کے گھاٹ اتار کر اداروں کی کارکردگی پر سوالیہ نشان لگادیا ہے ایسے واقعات کی روک تھام کے لیے مؤثر حکمت عملی اپنانے کی ضرورت ہے جبکہ وفاقی وزیر داخلہ کا کہنا ہے کہ بلوچستان میں آپریشن کی ضرورت نہیں دہشت گرد ایک ایس ایچ او کی مار ہیں۔ کاش ایسا ممکن ہوتا۔ اگر ایسی ہی بات ہے تو پھر کسی ایسے ایس ایچ او کو تلاش کریں جو یہ کوہ گراں اٹھا سکے۔ ایسا ایس ایچ او تلاش کرنا ریت کے صحرا میں سوئی تلاش کرنے کے برابر ہے۔ شاید وزیر داخلہ نے یہ بات کوئٹہ میں جذبات سے مغلوب ہو کر کہہ دی ہو گی۔ اگر وہ سنجیدہ ہیں تو پھر ایک ایسا ہی ایچ او پہلے تلاش کر کے ٹریننگ یا امتحان کے طور پر کچے کے علاقے میں ڈاکو ؤ ں کی سرکوبی کے لیے بھیجا جائے اگر وہ کامیاب ہوتا ہے تو پھر اسے بلوچستان میں دہشت گردوں کی سرکوبی کے لیے روانہ کیا جائے۔ یاد رکھیں اس کے ساتھ اس کے اہلکار بھی ایسے ہونے چاہئیں جیسا وہ خود سر پھرا ہو۔ موت سے بے خوف، دشمنوں کے لیے خوف کا نشان۔ مگر ”ایسا کہاں سے لائیں کہ تجھ سا کہیں جسے۔“ کچے کے ڈاکو فرماتے ہیں کہ یہ اسلحہ ہمیں صرف اسلحہ سمگلروں سے ہی نہیں اپنے بااثر سرپرستوں کے علاوہ پولیس والوں کی مہربانیوں کے طفیل آرام سے کچے میں ہی مل جاتا ہے۔ بس ذرا قیمت زیادہ وصول کی جاتی ہے۔ مگر کوئی بات نہیں۔ ایسا پکا سودا اور بروقت مال کی سپلائی کوئی اور کون کہاں کر سکتا ہے۔ اس کے برعکس بلوچستان کے گمراہ دہشت گردوں کو تو اور بھی کئی ذرائع سے اسلحہ اور پیسہ دل کھول کر مل رہا ہے۔ افغانستان میں بھارت کے کارندے تربیتی کیمپ بھی چلا رہے ہیں۔ انہیں سامان پہنچانے کے ساتھ بھارت اور بیرون ملک تربیت بھی دی جاتی ہے۔ ان کے خفیہ اکاؤنٹس میں بھی پیسہ آتا ہے۔ یہ جو لاپتہ کے نام پر آنسو بہاتے ہیں اس کے پیچھے اسی مالی مفاد کا ہاتھ ہوتا ہے۔ تاہم جبری گمشدگی کا خاتمہ ضروری ہے۔ اگر کوئی مجرم ہے تو اسے عدالتوں میں لا کر قانون کے مطابق سزا دی جائے تاکہ اس کے گھر والوں اور دوسرے لوگوں کو بھی پتہ چلے کہ اس نے کیا کیا ہے۔ ورنہ لاپتہ افراد کے گھر والے تو روز جیتے اور مرتے ہیں۔ مگر ان کے نام کی آڑ میں بہت سے سیاسی بونے اپنا قد کاٹھ اور اثاثے بڑھاتے ہیں۔خبر ہے کہ آئی جی پولیس پنجاب ڈاکٹر عثمان انور کی درخواست پر پنجاب حکومت نے کچے کے ڈاکوؤں سے نمٹنے کے لیے جدید بکتر بند گاڑیاں اور ہتھیار خریدنے کا فیصلہ کیا ہے۔ آپریشن کے لیے 20بلٹ پروف گاڑیاں اور 7بکتر بند گاڑیاں خریدی جائیں گی، 12بلٹ پروف گاڑیاں رحیم یارخان کچے کے لیے اور 8راجن پور کچے کے لیے خریدی جائیں گی۔4بکتر بند گاڑیاں رحیم یارخان کے لیے اور 3راجن پور کے لیے خریدی جائیں گی، 450جی تھری رائفل اور 450ایس ایم جی رائفل بھی خریدی جائیں گی، جدید بکتر بند گاڑیاں اور رائفلیں ہنگامی بنیادوں پر خریدی جارہی ہیں۔اب حکومت کو سمجھ آگئی ہے کہ کچے کے ڈاکوؤں کے پاس اسلحہ پولیس کی نسبت زیادہ جدید ہے اس لیے وہ ان پر قابو نہیں پاسکے۔پچھلے کچھ عرصہ کے دوران جب بھی ہم نے ان ڈاکوؤں سے چھیڑ چھاڑ کی کوشش کی ہمیں بھاری جانی اور مالی نقصان کا سامنا کرنا پڑا۔ 8سالوں کے دوران ان ڈاکوؤں کے ہاتھوں ہماری پولیس فورس کے 2درجن کے قریب اہلکار شہید اور لگ بھگ اتنے ہی پولیس اہلکار اغواء کرکے سرکاری اسلحہ بھی لوٹ لیا گیا۔یہ فیصلہ پہلے کیوں نہیں کیا گیا ؟یہ و ہی ڈاکو ہیں جنہوں نے گزشتہ دنوں ہمارے 12پولیس اہلکاروں کو شہید کرنے کے ساتھ ایک اہلکار کو اغواء بھی کر لیا تھا۔ اس پر تشدد کر کے ویڈیو بنائی جس میں وہ حکام سے اپنی رہائی کی اپیل کر رہا تھا۔ اب اطلاع یہ ہے کہ اسے بدنام قاتل اور ڈکیت کے بدلے میں چھوڑا گیا ہے جو جیل میں بند تھا۔ یوں اس پولیس والے کی رہائی ممکن ہو سکی۔ اب کوئی بتلائے کہ ہم کیا کہیں۔ یہ تو حقیقت میں ڈوب مرنے کا مقام ہے۔ قانون نافذ کرنے والے مسلح ادارے بھی ان مٹھی بھر کہہ لیں یا چند سو ڈاکوؤں کے سامنے بے بس نظر آرہے ہیں۔ یہ ڈاکو سندھ، پنجاب اور بلوچستان میں جہاں جی چاہتا ہے واردات کرتے ہیں اور لوگوں کو اغواء کر کے تاوان وصول کر کے چھوڑتے ہیں۔ جن اداروں نے قانون اور حکومت کی رٹ قائم کرنی ہے وہ تماشہ دیکھتے رہ جاتے ہیں۔ پولیس پر ہر سال اربوں روپے خرچ ہوتے ہیں۔ کیا یہ صرف ان کی ٹہل سیوا کے لئے ہوتے ہیں۔ یہ جدید اسلحہ و تربیت کے باوجود ان چند سو سماج دشمن عناصر کیخلاف کامیاب نہیں ہو رہے ان کے قدم اکھڑتے محسوس ہو رہے ہیں۔ اب گزشتہ دنوں جس پولیس والے کے بدلے میں یہ ڈاکو کو رہا کیا گیا اس کی واپسی پر کچے کے علاقے میں ڈاکوؤں نے بھرپور جشن منایا اور دل کھول کر فائرنگ کر کے اس کا استقبال کیا۔ یہ دراصل استقبال نہیں پولیس والوں کی کارکردگی پر طمانچہ ہے کہ انہی کے پروردہ ڈاکو آج انہی پر وار کر رہے ہیں۔ اب بھی اگر ان کو کچلا نہیں گیا تو کل کیا پتہ یہ اپنے مربی حکمرانوں، سیاستدانوں کو بھی کچے کی ”سیر“ کیلئے لے جا سکتے ہیں، انہیں کون روک سکتا ہے،اب تو ان کے منہ کو خون لگ گیا ہے۔خبر ہے کہ وزیر اعلیٰ پنجاب کے ویژن کے مطابق لاہور پولیس کے سربراہ بلال صدیق کمیانہ کی ہدایت پر لاہور پولیس نے بجلی چوروں کے خلاف کریک ڈاؤن میں تیزی لاتے ہوئے صوبہ بھر میں سب سے زیادہ 20457 بجلی چور گرفتار اور 20775 مقدمات درج کرکے 6506 مقدمات کے چالان بھی جمع کروادئیے ہیں جبکہ ڈی آئی جی آرگنائزڈ کرائم عمران کشور کی ہدایت پر ڈی ایس پی چوہنگ فاروق اصغر اعوان نے گھروں میں وارداتیں کرنے والے خاتون سمیت 5رکنی گینگ کو گرفتار کر کے ان سے 20لاکھ روپے سے زائد نقدی برآمدکی ہے اس گینگ کی گرفتاری کے بعد امکان ظاہر کیا گیا ہے کہ شہر بھر میں ہاؤس رابری کی وارداتوں میں نمایا ں کمی ہو گی۔اگر اسی طرح دیگر فورسز بھی ملذمان کی گرفتاری میں اپنا کردار ادا کریں تو شہر میں جرائم کی شرح میں کمی لائی جاسکتی ہے۔ضرورت اس امر کی ہے کہ کچے کے ڈاکوؤں اور دیگر دہشت گردوں کا خاتمہ کرنے کے لیے موثر حکمت عمل اپنائے بغیر امن کو بحال کرنا مشکل ہی نہیں ناممکن ہے۔