جنات کا غلام۔۔۔انیسویں قسط
معروف صحافی اور محقق ’’شاہد نذیر چوہدری ‘‘ کی اپنے سحر میں جکڑ لینے والی تحقیق پر مبنی سچی داستان ’’جنات کا غلام ‘‘
اٹھارویں قسط پڑھنے کے لئے کلک کریں
”آﺅ.... ہم اور تم نماز پڑھ لیتے ہیں۔ وہ اپنی عبادت کر چکے ہیں۔ اس وقت وہ استراحت فرما رہے ہیں....“ شاہ صاحب نے کہا اور ہم دونوں نے باغیچے میں نماز فجر ادا کی۔
”آج صبح مجھے پرچہ دینے جانا ہے....“ میں نے نماز کے بعد انہیں بتایا
”اللہ تمہیں کامیابی عطا فرمائے.... شاہ صاحب نے پرخلوص انداز میں دعا فرمائی۔ ان کا رویہ اب تبدیل ہو گیا تھا۔ ٹاہلی والی سرکار کی سرزنش نے انہیں صراط مستقیم کی راہ پر ڈال دیا تھا اور لگتا تھا کہ اب وہ کبھی سفلی علم کو استعمال نہیں کریں گے۔ انہوں نے خشوع و خضوع کے ساتھ نماز ادا کی اور پھر مجھے اپنے ساتھ مہمان خانے میں لے گئے۔ کمرے میں گہرے سبز رنگ کا زیرو کا بلب روشن تھا۔ ان کے بستر پر بابا جی سرکار دراز تھے۔ باہر کی نسبت اندر خاصی گرمائشتھی۔
مجھے اندر آتے ہوئے دیکھ کر بابا جی سرکار کے بدن میں جنبش ہوئی۔ انہوں نے اپنے سر سے کپڑا سرکایا تو ان کی روشن روشن آنکھیں مجھ پر مرکوز ہو گئیں۔ شاہ صاحب نے میرا ہاتھ پکڑا اور مجھے بابا جی کے بستر کی پائنتی جانب لے گئے۔ وہ ان کے قدموں میں بیٹھ گئے اور ان کے پاﺅں دبانے لگے۔ بابا جی کی آنکھوں میں طلسمات کے سارے چراغ روشن تھے۔ ان کی نظریں مجھے اپنے اندر اترتی ہوئی محسوس ہونے لگیں اور میرے دل کے راستوں پر جمی کرچیاں پگھلنے سی لگیں۔ میری آنکھیں ان کی عقیدت کے خیال سے جھک گئیں اور میں بھی شاہ صاحب کی تقلید کرتے ہوئے ان کے پاﺅں دبانے لگا۔
بابا جی کے پاﺅں انتہائی نفیس تھے۔ پاﺅں کی انگلیاں برابر تھیں۔ پیر آئینے کی طرح شفاف نظر آتے تھے۔ رگوں میں دوڑتا ہوا گرم گرم لہو پارے کی طرح رواں دکھائی دیتا تھا۔ ان کے پیروں پر جب میں نے ہاتھ رکھا تو یوں لگا جیسے کسی تپے ہوئے فولاد پر انسانی گوشت کی کھال چڑھا دی گئی ہے۔ ان کے پیر دباتے ہوئے بڑا عجیب سا سکون محسوس کر رہا تھا۔
”آج چائے نہیں پلاﺅ گے ہمیں....“ بابا جی نے مجھے مخاطب کیا۔
”جی سرکار.... میں ابھی لاتا ہوں....“ یہ کہہ کر میں اندر گیا۔ مجھے معلوم تھا کہ چاچی اس وقت اٹھ پڑتی ہیں اور دودھ بلو رہی ہوتی ہیں۔ وہ باورچی خانے میں ہی تھیں۔ حویلی کی بوڑھی نوکرانی اوپلوں کو انگیٹھی میں ڈال کر پھونکنی سے آگ دہکا رہی تھی چاچی رنگیلڑی چوکی پر بیٹھی دودھ بلو رہی تھی۔ مجھے دیکھتے ہی چاچی بولیں۔ ”بسم اللہ۔ پتر خیر ہے آج سویرے سویرے۔ بھوک لگ گئی ہے....“
”نہیں چاچی.... وہ بابا جی چائے مانگ رہے ہیں....“
”میں صدقے جاﺅں۔ سرکار نے چائے مانگی ہے۔ لیکن پتر۔ ابھی تو بھینسوں کا تازہ دودھ بھی نہیں آیا۔ رات کے دودھ کو میں نے جاگ لگا دی تھی۔ اب کیا کروں.... حمیداں دیکھ ادھر کٹورے میں دودھ رکھا ہوا ہے کہ نہیں....“ بوڑھی نوکرانی کی آنکھیں آگ سلگاتے ہوئے اوپلوں کے دھوئیں سے سرخ ہو رہی تھیں۔
”اچھا ملکانی جی دیکھتی ہوں....“ وہ اٹھی اور کٹورے کو دیکھ کر بولی۔ ”دودھ کا ایک گھونٹ بھی نہیں ہے۔“
”اچھا تو پھر.... حمیدے کو ڈیرے پر بھیج اور اسے کہو کہ بھوری بھینس کا دودھ دھو کر لائے۔ جلدی کرو....“
حمیداں باہر کو لپکی اور میں بھی واپس ہونے لگا تو چاچی کہنے لگی۔
”پتر باباجی کو لسی میں مکھن ڈال کر کیوں نہیں دیتے.... یہ لو اور سرکار سے کہو کہ تازہ لسی پی لیں....“ چاچی نے بڑے سے پیالے میں تازہ بنی ہوئی لسی میں تازہ مکھن کا پیڑہ ڈال کر مجھے دیا۔ میں نے مہمان خانے میں پہنچ کر بابا جی کو صورتحال بتائی تو وہ مسکرانے لگے۔
”میاں۔ ہم ٹھنڈی اور بادی اشیا کھا ہی نہیں سکتے.... چائے بن جائے تو لے آنا....“
یہ سن کر غازی بھی اسرار کے پردوں سے باہر نکل آیا اور بولا۔ ”سرکار اگر اجازت ہو تو میں پی لوں....“
”تو کبھی سدھر نہیں سکے گا غازی....“ بابا جی ہنس دئیے۔ ”کبھی تو جلیبیاں کھاتا ہے اور کبھی آئس کریم.... جس دن تو پکڑا گیا اس دن پٹے گا....“
”بابا جی سرکار.... آپ کے ہوتے ہوئے مجھے کوئی فکر نہیں ہے۔“ غازی نے میرے ہاتھ سے لسی کا پیالا لیا اور گھونٹ بھر کر بولا۔ ”سواد آ گیا سرکار....“
”شاہد میاں....“ بابا جی نے مجھے مخاطب کیا۔ ”ہم جیسے جنات یہ چھوٹی چھوٹی عیاشیاں کرتے رہتے ہیں لیکن ہمیں اسکی اجازت ہرگز نہیں ہے۔ ہمارے لئے تمہاری دنیا کی غذائیں جنت کی غذاﺅں جیسا درجہ رکھتی ہیں۔ ہمیں ان کی اشتہابہت تنگ کرتی ہے۔ ہائے۔ تمہیں کیا بتاﺅں میاں.... اللہ نے جب بنو اسرائیل کو من و سلویٰ عطا کیا تھا تو اسکی لذت کس درجہ کمال کو پہنچی ہوئی تھی۔ مگر افسوس اس بدبخت قوم نے اس جنتی غذا کو ٹھکرا دیا۔ ہمارے بزرگ بتاتے ہیں کہ جنات بھی من و سلویٰ کھاتے تھے۔ وہ بڑے فخر سے ہمیں بتاتے تھے کہ من و سلویٰ حاصل کرنے کے لئے وہ کیا کیا طریقے اختیار کرتے تھے۔ میں تمہیں ایک راز کی بات بتا دوں۔ اس من و سلویٰ کی ایک جھلک عربوں کے کھانوں میں بھی پائی جاتی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے محبوب پیغمبر رسول اکرم کی امت اور سرزمین کو من و سلویٰ کی لذت سے بھی آشنا کیا تھا۔ کیا تم نے کبھی عربوں کے روایتی کھانے کھائے ہیں....“
میں نے انکار میں سر ہلایا۔
”نہیں کھائے ہوں گے۔ اگر تم کھا بھی لو تو ہضم نہ کر سکو گے۔ تم آج کل کے ان انسانوں میں سے ہو جو خالص غذا نہیں کھا سکتے....“ بابا جی کہہ رہے تھے۔ ”یہ چائے جو تم یہاں پیتے ہو اس میں کسی قسم کی لذت نہیں ہے۔ .... تمہیں کیا بتاﺅں ....بڑی سرکار.... میرے پیر و مرشد بتایا کرتے تھے کہ فرعونوں کے محلات میںجو قہوہ پکتا تھا آج کی دنیا اس کی لذت سے محروم ہے۔ یہ قہوہ جڑی بوٹیوں کو شہد میں گھول کر پکایا جاتا اور پھر یہ مہمانوں کو پینے کے لئے دیا جاتا تھا۔ فرعون جس پر مہربان ہوتے یہ قہوہ اسکو پلاتے تھے۔ میری بڑی سرکار صاحب ایمان ہونے سے پہلے مشرک تھے اور وہ ایک فرعون زادی کے عشق میں مبتلا ہو کر اس کے محل میں رہتے تھے۔ یہ داستان بڑی رنگین اور دلچسپ ہے میاں.... کبھی وقت ملا تو ہم تمہیں سنائیں گے۔ تم داستان گو ہو۔ تمہارے لئے یہ داستان بڑی اہم ہو گی۔ زلیخا کی شادی ہو لینے دو.... اگر تم نے ہمارے اعتماد کو ٹھیس نہ پہنچائی تو ہم تمہیں یہ داستان ضرور سنائیں گے....“
بابا جی کی باتوں میں اس قدر سحر اور اثر تھا کہ میں ان کے قدموں میں بیٹھ گیا۔
”سرکار.... مجھے آپ پر اعتماد ہے اور میں آپ کے اعتماد کو کبھی ٹھیس نہیں پہنچاﺅں گا....“
”ٹھیک ہے۔ پرسوں رات کے بعد ہم تمہیں اپنے پیر و مرشد کی یہ داستان سنائیں گے۔ اب تم جاﺅ اور چائے لے آﺅ.... حمیدا دودھ لے آیا ہے....“ میں باورچی خانے میں گیا تو واقعی حمیدا واپس آ چکا تھا۔ چاچی نے مجھے چائے بنا کر دی میں نے بابا جی کو اپنے ہاتھوں سے چائے پلائی۔ یہ بڑا دلچسپ تجربہ تھا۔ وہ چھوٹی چھوٹی چسکیاں بھرنے لگے۔
”تمہاری حاچی اس میں الائچی ڈال دیتی تو زیادہ لطف آتا....“ بابا جی کہنے لگے ”بہرحال تازہ اور خالص دودھ میں بنی چائے کا بھی اپنا ہی لطف ہے۔“
بابا جی چائے پی چکے تو میں ان سے اجازت لیکر شہر جانے کی تیاری میں مصروف ہو گیا۔ رات تیزی سے گزر گئی تھی۔ مجھ پر جگ رتے کا ذرا بھی اثر نہیں تھا۔ اس روز میرا پرچہ بہت اچھا ہوا۔ میں اس روز بہت زیادہ مضطرب تھا۔ رات کو مجھے ٹاہلی والی سرکار سے بھی ملنا تھا اور اگلے روز زلیخا کی شادی کا بھی بندوبست کرنا تھا۔ شادی میں صرف گھر کے ہی لوگوں نے شریک ہونا تھا۔ میں جب واپس آیا تو بڑے ملک صاحب کو بہت زیادہ غمگین پایا۔ ان کے کاندھے جھکے ہوئے تھے اور وہ ایک دو راتوں میں ہی بوڑھے ہو گئے تھے۔
”ٰپتر تم بھی میری مدد نہیں کر سکے۔ میں تو تمہیں اپنا ہمدرد سمجھتا تھا....“
چاچا جی کی بات سن کر میں مجرموں کی طرح سر جھکا کر خاموش کھڑا رہا۔ میرا دل چاہا کہ یہ زمین پھٹ جائے اور میں اس میں غرق ہو جاﺅں۔ بے کسی سے میری آنکھوں میں آنسو آ گئے اور میں منہ موڑ کر بھاگ گیا۔
”پتر کب تک یونہی بھاگتے رہو گے....“ مجھے چاچا جی کی آواز سنائی دی.... میرے پاس ان کی کسی بات کا جواب نہیں تھا۔ میں انہیں کیا بتاتا کہ میں خود کن حالات سے گزر رہا ہوں۔ اور میرے بس میں اب کچھ نہیں رہا۔
میں ڈیوڑھی سے گزر رہا تھا کہ مجھے عقب سے زلیخا کی آواز سنائی دی۔ میں نے پلٹ کر دیکھا۔ اس نے سرخ رنگ کا جوڑا پہنا تھا اور زنان خانے کی دہلیز پر کھڑی تھی۔
”شاہد۔ میرے لئے شہر سے گلاب کے پھول منگوا دینا....“
میں کسی ساکت شے کی طرح اسکو دیکھتا رہ گیا۔ ”اور یہ پھول کل میری تربت پر ڈال دینا.... اپنے ہاتھوں سے....“
”زلیخا....“ میرے اندر رواں کرچیاں دوبارہ اکٹھی ہو کر میرے حلق میں پھنس گئیں اور میری رگ و پے زخم زخم ہو گئی.... کوئی بہت ہی اذیت سے میرے اندر چیخا تھا....
میں نے اسکی طرف سے رخ موڑ لیا اور ڈیوڑھی میں بھاگتا ہوا حویلی سے باہر نکل گیا۔ عقب سے زلیخا کی آواز میرا تعاقب کرتی رہی۔ ”شاہد یہ پھول تم میری تربت پر ڈال دینا....“
میں حویلی سے بھاگتا ہوا ہانپتا کانپتا ہوا قبرستان کی طرف دوڑتا چلا گیا ۔میرا پورا وجود زخموں سے چور چور تھا۔ میری سانسیں بھی اکھڑ چکی تھیں۔ میں سیدھا ٹاہلی والی سرکار کے والد گرامی کی قبر کے پاس جا گرا۔ میرا دل چاہا کہ یہ قبر شق ہو جائے اور میں اسکے اندر دفن ہو جاﺅں۔ ابھی تک چاچا جی اور زلیخا کی آوازیں میرا تعاقب کر رہی تھیں۔ میں نے شدت سے مغلوب ہو کر اپنے کان بند کر لئے اور زور زور سے چیخنے لگا۔
”خدا کے لئے مجھ پر رحم کرو.... میں بے بس ہوں۔ میرے اختیار میں کچھ نہیں ہے.... کچھ نہیں ہے میرے اختیار میں....“
میں روتا جا رہا تھا اور میری چیخوں سے قبرستان کے مردے بھی عاجز آ گئے تھے۔ معاً کسی نے میرے کاندھے پر ہاتھ رکھا اور دہشت زدہ ہو کر نم آنکھوں سے پلٹ کر دیکھنے لگا۔ ٹاہلی والی سرکار کھڑی تھی۔ انکے ہاتھ میں دانوں کی ایک بڑی سی مالا تھی۔
”پتر۔ تم بھول گئے۔ ہم نے کہا تھا جب دکھ بڑھ جائیں تو اللہ کو یاد کرنا۔ تمہاری ساری آزمائشیں وہی ذات کامل آسان کر سکتی ہے۔ آﺅ۔ میرے پاس بیٹھ جاﺅ اور اپنے اسم اعظم کو پڑھو۔ خشوع و خضوع کے ساتھ اپنے قلب کے اندر عشق حقیقی کا چراغ روشن کرو اور اپنی ساری ذہنی قوتیں اس چراغ کی لو پر مرکوز کر دو.... اور دل و جان سے یکتا ہو کر پڑھو۔ پھر دیکھنا عبادت و ریاضت کا اثر.... آﺅ.... اچھے مرد روتے نہیں ہیں....“
”مرد کیوں نہیں روتے۔ مرد تو بہت روتے ہیں سرکار....“ میں گلوگیر لہجے کے ساتھ بولا۔ ”سرکار جب مرد آہ زاری کرتے ہیں تو سمندروں اور پہاڑوں میں جوار بھاٹا اٹھتے ہیں۔ زمین کا کلیجہ پھٹ جاتا ہے۔ سرکار جب مرد روتا ہے تو آسمان بھی اسکے ساتھ روتا ہے۔ اس وقت مرد بڑا بے بس ہوتا ہے سرکار۔ بڑا دکھی ہوتا ہے....“
”ہاں.... مگر یہی دکھ اور بے کسی اسے اپنے کمزور ہونے اور اس ذات کامل کی طرف راغب کرتا ہے۔ مرد ہمیشہ اپنی طاقت کے زعم میں رہتا ہے مگر جب اس کا زعم ختم ہوتا ہے تو وہ عشق حقیقی کی آغوش میں پناہ لیتا ہے۔“
ٹاہلی والی سرکار کی باتیں میرے دل پر اثر کرنے لگیں اور میں نے انکی ہدایت پر اپنے دل کو ذکر الٰہی سے معمور کرنا شروع کر دیا۔ میں اپنے دل میں عشق حقیقی کا چراغ روشن کرنے لگا۔ میری باطنی دنیا کے گہرے اندھیروں میں ذکر الٰہی کے نور سے سیاہی چھٹنے لگی۔
٭٭
میں نور کی کرنوں میں کھڑا تھا اور سرتاپا ایک دبیز اور انتہائی کیف آور روشنی میرے پورے بدن سے پھوٹ رہی تھی۔ میری آنکھیں ہنوز بند تھیں مگر قلب و ذہن کی راہداریوں میں سرگرداں روح اپنی بصیرت کے جلوے دکھا رہی تھی۔ میرے اندر حقیقی انسان گوشت پوست سے مبرا ہو کر ایک لطیف وجود کی شکل میں اس نظارے سے لطف اٹھا رہا تھا۔ میرے اختیار میں ہوتا تو اپنی روح کے دیدار اور لطف و کرم کی سنہری بارش سے ملاقات کا ناطہ کبھی نہ توڑتا۔ مگر یہ ابتدا کے دن تھے۔ ارتکاز ابھی پختہ نہیں ہوا تھا۔ کچے دھاگے کی طرح ٹوٹ گیا تھا اور میں بیدار ہو گیا۔ میری آنکھیں بوجھل اور کن پٹیاں بھاری ہو رہی تھیں۔ دل کی دھڑکن بہت تیز ہو گئی تھی اور سانس میں گرماہٹ اور اکتاہٹ کا احساس ہو رہا تھا۔
ٹاہلی والی سرکار نے میری حالت دیکھی تو اپنا دست مبارک میرے سر پر رکھا اور پھر پہلے دائیں اور پھر بائیں کندھے پر ہاتھ پھیرنے لگے۔
”میاں .... دیکھا یہ لطف و کرم۔ وجدان کی یہ دنیا بڑی نرالی ہے۔ سچ بتاﺅ۔ اگر تمہارے اختیار میں ہوتا تو کیا تم اس دنیا سے واپس آنا پسند کرتے۔ اپنی آنکھیں کھول کر اس عارضی دنیا کی کراہتوں کو سہنا پسند کرتے“
”سرکار .... آپ صحیح فرماتے ہیں سرکار۔ میں نے چند گھڑیوں میں جو لطف اٹھایا ہے روح کی سرشاری اور اس کے نور کی لطافت میں جو راحت پائی ہے خود کو ایک جیتا جاگتا اور محسوسات سے بھرا ہوا انسان پایا ہے میں اس دنیا سے بالکل واپس آنا پسند نہ کرتا“
”حق اللہ .... حق اللہ“
ٹاہلی والی سرکار نے انگشت شہادت آسمان کی طرف اٹھائی اور سر دھنتے ہوئے کہنے لگے ”یہ راز حقیقت کی ایک بہت ہی چھوٹی سی جھلک تھی میاں .... اب کہو تمہاری دنیا اور ہماری دنیا میں کتنا فرق ہے۔ میرے مرشد نے جب مجھے یہ منظر دکھایا تھا تو میں نے دنیا تیاگ دی تھی۔ اپنے سکول کالج اور یونیورسٹی کی ساری ڈگریاں جلا دی تھیں۔ میں اپنے رب سے شرمندہ تھا۔ اتنے برسوں ایسی تعلیم اور علم حاصل کرتا رہا جو مجھے اس ذات کبریا سے دور لے گیا تھا۔ بابا .... یہ دنیاوی علم اپنے رب کی پہچان کسی کسی کو ہی دیتا ہے۔ یہ بڑا سطحی علم ہے۔ ہم جیسے ملنگ اور مجذوب لوگ اپنی روح کی دنیا میں رہنا پسند کرتے ہیں۔ وہ اپنے ظاہری بدن کے قید خانے میں عمریں کاٹ رہے ہوتے ہیں مگر بدن کے اس پنجرے میں طائر روح کہیں اور پرواز کر رہا ہوتا ہے۔ ہم اپنی پروازوں اور لطافتوں کی دنیا سے ہرگز واپس نہیں آنا چاہتے۔ تم جیسے لوگ ان ملنگوں درویشوں مجذوبوں اور بابوں کا مذاق اڑاتے رہتے ہو۔ ان کے بدن پر لٹکتے غلیظ چیتھڑے نما ملبوسات کو دیکھ کر ناک بھوں چڑھاتے ہو۔ ہائے تم کیا جانو۔ ان کے قلب و ذہن کس بیداری میں رہتے ہیں“
ٹاہلی والی سرکار کی باتیں میرے دل پر نقش ہو رہی تھیں اور میرا دل بار بار اسی دنیا کی لطافتوں کی طرف کھنچا چلا جا رہا تھا۔ میرے دل میں آیا کہ ان کے ہاتھوں بیعت ہو جاﺅں مناسب الفاظ تلاش کرکے اپنا مدعا بیان کرنے کی کوشش میں تھا کہ وہ بولے
”تم جس شش و پنج میں مبتلا ہو یہ تمہیں کوئی بہتر حل نہیں بتا سکے گا۔ تم ہماری دنیا کے آدمی ہو مگر تمہیں ہماری دنیا سے فی الحال دور ہی رہنا ہے۔ تم پر بھی بزرگوں کا سایہ ہے۔ تم کسی کی دعا کی لاج ہو۔ جاﺅ پہلے اپنا کھوج لگاﺅ۔ تمہاری کمر پر کسی ہستی نے مہر لگائی تھی اسکے سلسلہ میں بیعت ہونا ہے تجھے “ میں نے چونک کر ان کی طرف دیکھا
”میں کچھ سمجھا نہیں سرکار“
”اپنے گھر جاﺅ .... اور اپنے والدین سے پوچھنا۔ تم بڑی دعاﺅں اور منتوں کے بعد اس دنیا میں آئے ہو۔ اللہ ذوالجلال نے اپنے کسی ولی کی دعا کو قبول فرمایا اور تمہارے والدین کے حق میں دعا فرمائی تھی۔ جاﺅ اور اپنی شناخت تلاش کرو“ میں ان کی باتیں سن کر سوچنے لگا کہ نہ جانے وہ کس وہم و گماں میں مبتلا ہو گئے ہیں۔ میں نے اپنے والدین سے ایسی کوئی بات نہیں سنی تھی کہ میری پیدائش سے پہلے انہوں نے کسی بزرگ سے دعا کرائی تھی۔ ٹاہلی والی سرکار نے میرے ماتھے پر نظریں جمائیں جیسے کسی دستاویز کو پڑھ رہے تھے۔ ان کے لبوں پر مسکان تھی۔
”میاں .... میں نے شریعت کے خلاف کوئی بات نہیں کی .... تم کس گماں میں ہو۔ یہ طریقت کا سلیقہ ہے۔ طریقت شریعت پر رہے تو کسی بدگمانی میں مبتلا نہیں ہونا چاہئے اور تم تو ویسے بھی بڑے خوش بخت ہو ،تمہارے لئے ایک صاحب طریقت نے دعا کی تھی۔ جاﺅ اور اب ان کی دعاﺅ ں کا حق ادا کرو اور ان کے لئے بھی دعا کرو۔ میاں .... دعا تقدیر کو بدل دیتی ہے۔ بس دعا کا سلیقہ سیکھ لو۔ اپنے اللہ سے محبت کرو۔ اس قدر محبت سے اس کو چاہو کہ وہ تمہیں چاہنے لگے۔ رب ذوالجلال سے اس کا فضل مانگ کر اپنے حق میں دعا کرو گے تو فیض پاﺅ گے .... جاﺅ اور اپنی منزل کے نشان تلاش کرو“
ٹاہلی والی سرکار کی باتوں سے میرے اندر کشمکش جاری ہو گئی تھی کہ وہ کون سی ہستی ہے جس کی دعاﺅں کا میں ثمر ہوں۔ مجھے اپنے متعلق جاننے کی کھدبد ہونے لگی تھی اور یہ رات میرے لئے کاٹنا بڑی مشکل ہو رہی تھی۔ میں واپس حویلی چلا گیا تو شاہ صاحب نے مجھے دیکھتے ہی بتایا کہ شادی کچھ دنوں کے لئے موخر کر دی گئی ہے۔ ان کا چہرہ ستا ہوا تھا مگر مجھے اس خبر سے آگاہ کرتے ہوئے وہ خاصے ہیجان میں تھے۔
”کیا ہوا“ میں نے دریافت کیا
”زلیخا کی طبیعت خراب ہے۔ چاچی نے بابا جی سے بات کی ہے کہ شادی کچھ دنوں کے لئے موخر کر دی جائے“
یہ پہلا موقع تھا جب یہ خبر سن کر مجھے کچھ عجیب نہیں لگا نہ ہی اس شادی کے موخر ہونے کی خبر سن کر میرے اندر لڈو پھوٹے تھے اور نہ ہی میں نے زیادہ استفسار کیا۔ میں تو اپنی کھوج کے بھنوروں میں غرقاب ہو رہا تھا۔ میں نے چاچی سے بھی یہ پوچھنا گوارا نہ کیا اور کمرے میں پہنچ کر کتابیں کھول کر بیٹھ گیا۔ کچھ ہی دیر گزری تھی کہ نصیر کمرے میں آ گیا اور اس نے اطلاع دی کہ بابا جی سرکار نے مجھے یاد کیا ہے۔
یہ وہی رات تھی جب بابا جی سرکار نے مجھے افیون لانے کے لئے کہا تھا اور اگلے روز میں دو رتی افیون کے لئے دیہاتوں کی خاک چھانتا پھرا تھا۔ اس سے اگلے روز میرا پرچہ تھا۔ میں نے جس ذہنی الجھن اور غیر متوقع حالات میں انگریزی کا پرچہ دیا تھا اس کا ذکر آغاز میں کر چکا ہوں اور یہ بھی بتا چکا ہوں کہ اس روز سبزی منڈی میں غازی کی حماقتوں اور شرارتوں کے نتیجہ میں ایک درویش۔۔۔۔۔۔ بابا تیلے شاہ کی کٹیا میں پہنچ گیا تھا۔ بابا تیلے شاہ میرے لئے ایک معمہ سے کم نہیں تھا۔ اس کا یہ کہنا کہ وہ مجھے خود اپنے پاس کھینچ کر لایا ہے ایک عجیب سی بات تھی۔ میں تو ایک غیر اہم اور عام سا نوجوان تھا۔ میرے اندر ایسے کون سے لعل جڑے ہوئے تھے کہ یہ بابے اور ملنگ مجھے اہمیت دے رہے تھے۔ ایک طرف ٹاہلی والی سرکار اور دوسری طرف بابا تیلے شاہ .... تیسری جانب شاہ جی او ر بابا جی سرکار تھے۔ میں تو ایک ہجوم اسرار میں گھر چکا تھا۔ میں نے غازی کو بابا تیلے شاہ سے بڑی مشکل سے بچایا تھا مگر اب ہم دونوں اپنی اصلیت بھی ظاہر کر چکے تھے۔ بابا تیلے شاہ نے بتایا تھا کہ جنات کی پکھیوں کی سرگرمیوں نے پورے علاقے کے بزرگوں کو بے زار کر دیا ہے اور اس سے دوسری ہوائی اور کافر مخلوق میں بھی ہلچل مچی ہوئی ہے۔ ان کے استفسار پر میں نے اپنے گزشتہ چار دنوں کی پوری داستان سنا دی تھی کہ میں بابا جی سرکار سے کیسے ملا۔ غازی سے میرا تعلق کیا تھا ۔ اب تک ہونے والے تمام حالات کی پٹاری کھول کر رکھ دی۔
”پھر تم کہتے ہو کہ میں اتنا غیر اہم کیسے ہو گیا“ بابا تیلے شاہ نے معنی خیز انداز میں میری طرف دیکھا ”جو بھی انسان اس آتشی مخلوق سے تعلق واسطہ رکھے گا وہ خود بخود اہم ہو جاتا ہے۔ میری ایک بات یاد رکھو۔ مقناطیس ہی مقناطیس کو کھینچتا ہے اور یہ لوہے کا برادہ .... اس مقناطیسی ڈنڈے کے ساتھ کھنچا چلا آتا ہے۔ کبھی تم نے دیکھا ہے ان منگتوں کو۔ وہ مزدوری بھی کرتے ہیں اور لوہے کا برادہ بھی اکٹھا کرتے ہیں۔ وہ خاک اور گندگی میں بھی مقناطیسی ڈنڈا پھیرتے رہتے ہیں۔ جہاں جہاں لوہا چھپا ہو گا ڈنڈے کے ساتھ کھنچا چلا آئے گا۔ تمہیں بھی اس روحانی ڈنڈے نے کھینچ نکالا۔ چاہے تم پاتال میں ہوتے۔ تمہاری باری آنی تھی اور تمہیں ظاہر ہونا تھا“میں انہماک سے بابا تیلے شاہ کی باتیں سن رہا تھا مگر میں پھر بھی اس نکتہ کو نہ جان سکا جو وہ مجھے سمجھانا چاہتے تھے۔
”تم میرے ساتھ چلو گے“ انہوں نے رمز و کنایہ کی گفتگو سے باہر نکلتے ہوئے پوچھا
”کہاں“ میں نے استفسار کیا
”ادھر سیداں والی .... پیر کاکے شاہ کے مزار پر جانا ہے چلو گے“ انہوں نے کہا۔اور کچھ سوچنے لگا۔