کینیڈا میں انتخابات

کینیڈا کے وزیراعظم مارک کارنی نے پارلیمنٹ تحلیل کرتے ہوئے ملک میں 28اپریل کوقبل ازوقت انتخابات کا اعلان کیا تو ان کا مقصد اپنی لبرل پارٹی کو مضبوط مینڈیٹ دلانا ہے،قبل ازیں جنوری 2025ء میں وزیراعظم جسٹن ٹروڈو نے اچانک استعفیٰ دے دیاتھا، جس کے بعد لبرل پارٹی کے نئے رہنما مارک کارنی نے 14مارچ کو وزارتِ عظمیٰ کا حلف اٹھایا، تاہم، حلف برداری کے صرف نو دن بعد 23 مارچ کو، کارنی نے قبل از وقت عام انتخابات کا اعلان کردیا،جسٹن ٹروڈو کا اچانک استعفیٰ کینیڈا کی سیاست میں غیر متوقع تھا، ان کے مستعفی ہونے کی وجوہات میں ملک میں بڑھتی ہوئی مہنگائی، معیشت کی سست روی،اور امریکہ کے ساتھ تجارتی تنازعات شامل تھے،مارک کارنی، جو بینک آف کینیڈا اور بینک آف انگلینڈ کے سابق گورنر رہ چکے ہیں سے معیشت کی بہتری کے حوالے سے بہت امید وابستہ تھی، مگر کمزور مینڈیٹ کے باعث وہ امریکی جارحیت کا مقابلہ کرنے میں خود کو بے بس پا کر بھاری مینڈیٹ کے لئے انہوں نے الیکشن میں جانے کا اعلان کر دیا،یہ الیکشن ایک ایسے وقت میں ہو رہے ہیں جب کینیڈا کی امریکہ و بھارت سے کشیدگی اب ڈھکی چھپی نہیں،تارکین وطن کا مسئلہ بھی سنجیدہ ہو چکا ہے،ان کے مقابل کنزرویٹو پارٹی تارکین وطن کا دروازہ بند کرنا چاہتی ہے،امریکہ سے بھی خوشگوار تعلقات کی داعی ہے جبکہ لبرل پارٹی مضبوط دفاع اور آزادداخلی پالیسی کی حامی ہے،امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے کینیڈا کے خلاف تجارتی پابندیوں اور الحاق کی دھمکیوں کے باعث ملک کو ایک مضبوط مینڈیٹ کی ضرورت ہے تاکہ ان چیلنجز کا موثر انداز میں مقابلہ کیا جا سکے،کینیڈا کے عام انتخابات میں دو بڑی جماعتیں، لبرل پارٹی اور کنزرویٹو پارٹی، کے درمیان سخت مقابلہ متوقع ہے، کنزرویٹو پارٹی کے رہنما پیئر پوئیلیور، جو ایک تجربہ کار سیاستدان ہیں، انتخابات میں کارنی کے اہم حریف ہوں گے، حالیہ سروے کے مطابق کارنی کو 43 فیصد جبکہ پوئیلیور کو 34 فیصد عوامی حمائت حاصل ہے۔
کینیڈین سیاست کو آج کل جن اہم مسائل کا سامنا ہے ان میں امریکہ کے ساتھ تعلقات بہت اہم ہیں، صدر ٹرمپ کی جانب سے کینیڈا پر تجارتی پابندیاں اور الحاق کی دھمکیاں بڑا مسئلہ ہیں، کارنی کا موقف ہے کہ وہ کینیڈا کی خودمختاری کا دفاع کریں گے، جبکہ پوئیلیور نے کارنی کے کارپوریٹ پس منظر پر تنقید کی ہے، مہنگائی اور معیشت کی سست روی جیسے مسائل پربھی دونوں جماعتیں اپنی پالیسیاں پیش کر رہی ہیں، کارنی کے مالیاتی اداروں میں تجربے کو ان کی معاشی پالیسیوں کے لئے مثبت سمجھا جا رہا ہے،قومی سلامتی اورخالصتان تحریک اور دیگر داخلی مسائل بھی انتخابی مہم کا حصہ ہیں، کارنی نے کینیڈا کی سالمیت اور اتحاد پر زور دیا ہے،حالیہ رائے عامہ کے جائزوں کے مطابق، لبرل پارٹی کو معمولی برتری حاصل ہے، لیکن انتخابات کے نتائج غیر یقینی ہو سکتے ہیں، رائے عامہ کے حالیہ پولز سے ظاہر ہوتا ہے کہ لبرلز کے موقف کی پزیرائی ہو رہی ہے، ٹرمپ کی دھمکیوں،وزیراعظم جسٹن ٹروڈو کے استعفیٰ نے کینیڈین سیاست کوہلا کر رکھ دیا ہے، رائے عامہ کے جائزہ کے مطابق سابق وزیراعظم جسٹن ٹروڈو کی پارٹی اپوزیشن کنزرویٹو سے سخت مقابلے میں ہے، جسٹن ٹروڈو کینیڈا میں بہت زیادہ مقبولیت سے عدم مقبولیت کی طرف آئے تو اس کی وجہ ٹروڈو کی غلطیاں، زیادتیاں اور ناپسندیدہ فیصلے کم اور کینیڈا میں اقتصادی بدحالی، کساد بازاری کے فیکٹرز نے پبلک کے غیر متعلق حصہ کو لبرل پارٹی حکومت سے دور کرنے میں زیادہ کردار ادا کیا۔
امریکہ میں حکومت بدلتے ہی ڈونلڈ ٹرمپ نے کینیڈا پر 25فیصد ٹیرف تھوپنے سے لے کر کئی ناپسندیدہ اور کینیڈین عوام کو متنفر کرنے والے فیصلے کئے، ان فیصلوں پر کینیڈا کی کنزرویٹو پارٹی نے صرف تماشا دیکھا لیکن لبرل پارٹی کی حکومت نے اس پر سخت قوم پرست پوزیشن اختیار کی،جسٹن ٹروڈو نے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی کینیڈا کو امریکہ میں ضم کر دینے کی بچگانہ دعوت سے لے کر ٹرمپ ٹیر ف تک ہر حرکت کا بہت مناسب، مبنی بر حقیقت اور کینیڈین تدبر اور تہذیب سے بھرا نپا تلاجواب دیا، صرف جواب ہی نہیں دیئے بلکہ اپنی پالیسیوں کو ٹرمپ کے چیلنج کا مقابلہ کرنے کے لئے مناسب طریقہ سے مولڈ بھی کیا، اس سارے عمل نے پبلک کو حیرتناک خوشگواریت سے دوچار کیا، ٹرمپ سے گھبرانے کی بجائے لوگوں کو جسٹن ٹروڈو کی پوزیشن میں تحفظ کا احساس ہوا، امریکی ٹیرف،51 ویں ریاست کی دھمکیاں کینیڈا کو ہلا نے میں درحقیقت ناکام رہیں تو اس کا ایک اہم فیکٹر جسٹن ٹروڈو کی مینجمنٹ ہی تھی،ٹروڈو نے ٹرمپ کا مقابلہ اس وقت کیا جب وہ خود آئندہ الیکشن میں وزیراعظم کا امیدوار اور لبرل پارٹی کا لیڈر نہ ہونے کا واضح اعلان کر چکے تھے، لبرل پارٹی کے اندر ٹروڈو کے ہٹنے سے خالی ہونے والے آفسز تک پہنچنے کی دوڑ نے بھی پارٹی کے اندر سرگرمی اور پارٹی کے باہر اس کے امیج کو بہتر بنانے میں کردار ادا کیا ہے۔
کینیڈین سکیورٹی انٹیلی جنس سروس نے کینیڈا کے عام انتخابات میں بھارت اور چین کی مداخلت کے خدشے کا اظہار کیا ہے،ڈپٹی ڈائریکٹر آپریشنزنے پریس کانفرنس میں کہا کہ پیپلز ریپبلک آف چائنہ آئندہ الیکشن میں کینیڈا کے جمہوری عمل میں مداخلت کرنے کی کوشش میں اے آئی ٹیکنالوجی سے چلنے والے ٹولز کا استعمال کر سکتا ہے،اُنہوں نے کہا کہ بھارتی حکومت بھی کینیڈین کمیونٹیز اور جمہوری عمل میں مداخلت کرنے کا ارادہ اور صلاحیت رکھتی ہے،واضح رہے کہ کینیڈا میں خالصتان کے رہنما کے قتل کے بعد جب واضح ہو گیا کہ اس قتل میں بھارت کی خفیہ ایجنسیاں ملوث ہیں تو کینیڈا نے سخت ردعمل کا اظہار کیا،پھر خبر آئی کہ بھارت مزید سکھ رہنماؤ ں کے قتل کی منصوبہ بندی کر رہا ہے،جس کے بعد دونوں کے تعلقات میں کشیدگی آ گئی، وزیراعظم جسٹن ٹروڈو نے نہ صرف اس کی مذمت کی بلکہ بھاتی حکومت سے کارروائی کا بھی مطالبہ کیا اور عالمی سطح پر بھی کیس کو شد و مد سے اٹھایا،انہوں نے قرار دیا کہ سکھ رہنما کا قتل دراصل ایک کینیڈین شہری کا قتل تھا،جس کی اجازت نہیں دی جا سکتی، واضح رہے کہ کینیڈا میں سکھ ووٹرز کی تعداد قابل ذکر ہے،یوں لبرلز نے سکھ کمیونٹی کی مکمل حمائت حاصل کر لی ہے۔
انتخابات کے حوالے سے سرویز کے نتائج کچھ بھی ہوں یہ طے ہے کہ لبرلز اور کنزرویٹوز میں گھمسان کا رن پڑنے والا ہے،کہا جا سکتا ہے کہ اس جدید دور میں جدت پسند اور رجعت پسند ایک دوجے کے مقابل ہوں گے،اس الیکشن میں تارکین وطن کا کردار بھی بہت اہم ہو گا،لبرلز مزید 15لاکھ تارکین وطن کو ویزا دینے کی پالیسی بنا رہے ہیں،کینیڈا میں بوڑھوں کی تعداد بڑھتی جا رہی ہے یہ لوگ اپنی مدت ملازمت کے خاتمے کے بعد بڑی تعدادمیں ریٹائر ہو رہے ہیں،جس سے کام کرنے والے نوجوان کم ہو رہے ہیں افرادی قوت کی کمی پورا کرنے کے لئے تین سال تک ہر سال پانچ لاکھ مزید غیر ملکیوں کو کینیڈا میں رہائش اور کام کی اجازت دی جارہی ہے جس کی وجہ سے تارکین وطن کی اکثریت کا ووٹ لبرل کے پلڑے میں جانے کا امکان ہے تاہم کنزرویٹوز بھی اس حوالے سے تارکین وطن کی حمائت حاصل کرنے کے لئے کوشاں ہیں۔
٭٭٭٭٭