چمن کی آگ بجھانے سے ہی نمی ہو گی۔۔۔
حسین شہر سے اک دن روانگی ہو گی
کسی کے دل میں لگی آگ میں کمی ہو گی
دیے میں نے بھی جلاۓ ہیں بام جاناں پر
"جلے گا دل تو زمانے میں روشنی ہو گی"
ضرور منزلوں پر پہنچو گے مرے یارو
خمیر میں بھی اگر موج دل بری ہو گی
سلگ رہا ہے ہواؤں میں آج ہر پتا
چمن کی آگ بجھانے سے ہی نمی ہو گی
غریب خانے سے روتا ہوا گیا ہے وہ
اسی کے سامنے میری دوانگی ہو گی
اگرچہ اتری خزاں میں رہا ہوں میں پل پل
خزاں بھی سوچ پہ اس بار موسمی ہو گی
مرا نصیب ہے قرآن کے سپاروں میں
ملا ہے علم کھرا ، بات بھی کھری ہو گی
نہ ہو گا ذہن سے مفلوج ایک بھی بچہ
دوا میں اور ذرا کم جو مرکری ہو گی
حریفِ سوختہ جاں کی خبر نہیں امبر
دل و جگر میں مرے کیا ہمہ ہمی ہو گی
کلام : ڈاکٹر شہباز امبر رانجھا