نامور کرکٹر وسیم اکرم کی ان کہی داستان حیات۔۔۔ بائیسویں قسط
تحریر:شاہدنذیرچودھری
سلیم ملک کہہ رہاتھا ’’آسٹریلین توکہتے ہیں میں نے انہیں رشوت کی آفر کی ہے۔مگر کس لیے۔اس لیے کہ وہ میرے لیے مشکلات پیدا نہ کریں۔حالانکہ ان میچوں میں شین وارن نے پاکستان کی وکٹیں اڑا کر رکھ دی تھیں اور میں نے خود بھی237اور143سکور بنا کر پاکستان کوبرے حالات سے نکالا تھا۔وسیم بھائی میں نہیں سمجھتا کہ میرے خلاف یہ سب کیوں ہو رہا ہے۔مگر میں اتنا ضرور کہوں گا کہ میرے ساتھیوں کا رویہ حتیٰ کہ میرے نائب کپتان کا بھی رویہ ٹھیک نہیں ہے۔اسے چاہئے کہ میرے حق میں دوسروں سے لڑے انہیں قائل کرے مگر وہ بھی دوسروں کے ساتھ ملا ہوا ہے‘‘سلیم ملک بہت کم گو کھلاڑی ہیں مگر اس روز وہ کئی گھنٹے تک وسیم اکرم کو اپنی معصومیت کا یقین دلانے کے لیے بے لاگ بولتے رہے۔ بالآخر وسیم اکرم اس نتیجے پر پہنچا کہ سلیم ملک واقعی بے قصور ہے۔
لیکن وسیم اکرم اس وقت سوچ میں پڑ گیا جب اس نے سلیم ملک کو ٹیم میٹنگ کے اصولوں کے منافی چند فیصلے کرتے ہوئے دیکھ لیا۔جوہانسبرگ کے میچ میں ٹیم میٹنگ کے دوران یہ بات طے ہو گئی تھی کہ پاکستان ٹاس جیتنے کے بعد خود کھیلے گا کیونکہ پچھلے وقت یہاں کی وکٹیں نمی کی وجہ سے باؤلر کی مدد کرتی ہیں۔مگر سلیم ملک نے جنوی افریقہ کے خلاف دونوں فائنلز میں ٹاس جیتنے کے بعد انہیں بیٹنگ کی دعوت دی جس سے تمام کھلاڑی حتیٰ کہ ہنسی کرونیئے بھی حیران رہ گئے۔اس شام تمام نوجوان کھلاڑی اپنے کپتان پر برس پڑے اور اس کی توہین کی۔وسیم اکرم سے یہ سبب برداشت نہ ہو سکا اور وہ بھی چلا اٹھا:
اکیسویں قسط پڑھنے کیلئے کلک کریں۔
’’میں نے آج تک اس سے زیادہ بری ٹیم میٹنگ نہیں دیکھی۔میں اب یہاں ایک منٹ نہیں بیٹھوں گا‘‘یہ کہہ کر وہ باہر نکل گیا۔اس کی دیکھا دیکھی چند دوسرے کھلاڑی بھی اس کے پیچھے چلے گئے تو انتخاب عالم پریشان ہو گئے۔وہ وسیم کے پاس گئے اور اسے سمجھایا۔
’’وسیم!تم لوگوں کے اعتراضات اپنی جگہ پر ہیں مگر اس وقت ہم بہت نازک حالات کا سامنا کررہے ہیں۔اگریہ معاملہ اخبارات میں آگیا تو ہماری بدنامی میں اور اضافہ ہو جائے گا‘‘۔
بالآخر انتخاب عالم نے ایک بار پھر اپنی ٹیم کو متحد کیا اور لڑکوں سے قرآن پاک پر حلف لیا کہ وہ سٹے بازی میں ملوث نہیں ہوں گے۔تمام کھلاڑیوں نے باوضو ہو کر حلف اٹھایا،اس کے باوجود ٹیم میں اتحاد پیدا نہ ہو سکا اور پاکستان نے جوہانسبرگ میں324سکور سے عبرتناک شکست کھائی۔وسیم اکرم اس صورت حال سے بہت دل برداشتہ ہوا۔خاص طور پر وقار یونس نے کہہ دیا کہ وہ ان فٹ ہو گیا ہے تو ٹیم کا مورال اور گر گیا۔وسیم اکرم نے انتخاب عالم اور سلیم ملک کے ساتھ ایک میٹنگ کی اور انہیں سمجھایا۔
’’دیکھئے!حالات ہمارے حق میں ٹھیک نہیں ہیں۔وقار کا پرابلم ممکن ہے جینوئن ہو۔اس لیے ہمیں کڑھنے کے بجائے اس کا فوری حل تلاش کرنا چاہئے‘‘۔
’’تمہارا کیاخیال ہے۔ہمیں کیا کرنا چاہئے‘‘۔انتخاب علم نے پوچھا۔
’’آپ عطا الرحمن کو وقار یونس کی جگہ شامل کرلیں‘‘۔
’’نہیں۔۔۔میں عامر نذیر کو پاکستان سے بلوارہا ہوں‘‘۔سلیم ملک نے اپنا فیصلہ سنایا۔’’میں نے پاکستان فون کر دیا ہے‘‘۔
وسیم اکرم سلیم ملک کے اس احمقانہ فیصلے پر اس لیے حیرمان تھا کہ عامر نذیر آؤٹ آف پریکٹس تھا جبکہ عطاء الرحمن انہیں فوری دستیاب تھا۔وسیم اکرم کا تجربہ کہہ رہا تھا کہ عطاء الرحمن عامر نذیر سے بہت بہتر تھا۔عامر نذیر اب سے دو سال پہلے ٹیسٹ کھیل چکا تھا مگر دو سال کے وقفے کے بعد اسے یکا یک ایک اہم میچ کے لیے بلا لینا بڑی عجیب بات لگتی تھی۔
جاری ہے.اگلی قسط پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں۔
دنیائے کرکٹ میں تہلکہ مچانے والے بائیں بازو کے باؤلروسیم اکرم نے تاریخ ساز کرکٹ کھیل کر اسے خیرباد کہا مگرکرکٹ کے میدان سے اپنی وابستگی پھریوں برقرار رکھی کہ آج وہ ٹی وی سکرین اور مائیک کے شہہ سوار ہیں۔وسیم اکرم نے سٹریٹ فائٹر کی حیثیت میں لاہور کی ایک گلی سے کرکٹ کا آغاز کیا تو یہ ان کی غربت کا زمانہ تھا ۔انہوں نے اپنے جنون کی طاقت سے کرکٹ میں اپنا لوہا منوایااور اپنے ماضی کو کہیں بہت دور چھوڑ آئے۔انہوں نے کرکٹ میں عزت بھی کمائی اور بدنامی بھی لیکن دنیائے کرکٹ میں انکی تابناکی کا ستارہ تاحال جلوہ گر ہے۔روزنامہ پاکستان اس فسوں کار کرکٹر کی ابتدائی اور مشقت آمیز زندگی کی ان کہی داستان کو یہاں پیش کررہا ہے۔