نامور کرکٹر وسیم اکرم کی ان کہی داستان حیات۔۔۔23 ویں قسط
تحریر:شاہدنذیرچودھری
سلیم ملک نے عامر نذیر کو بلوالیا۔وسیم اکرم کے اندازے کے عین مطابق وہ اس وقت وہاں پہنچا جب میچ شروع ہونے والا تھا۔عامر نذیر کو آرام کرنے کا بھی موقع نہ ملا۔سلیم ملک نے آتے ہی اسے باؤلنگ پر لگا دیا۔یہ جانے بغیر کہ وہ تھکان سے چور ہو گا۔اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ عامر نذیر کریمپ کا شکار ہو گیا اور یوں اس کی رہی سہی باؤلنگ بھی ختم ہو گئی۔ وہ مستقل طور پر ان فٹ ہو گیا۔اس پر وسیم اکرنے سلیم ملک کی خوب خبر لی اور کہا:
’’سلیم!تم نے عامر نذیرکے ساتھ بہت زیادتی کی ہے۔کپتان ہونے کا مطلب ہر گز یہ نہیں ہوتا کہ اپنے فیصلے کو انا کا مسئلہ بنالیں تم مسلسل غلط فیصلے کررہے ہو جس سے تمہارا کیرئیر خراب ہو جائے گا‘‘۔
جواب میں سلیم ملک نے خاموشی اختیار کرلی۔اس نے اپنے کسی بھی فیصلے پر پچھتانے کی ضرورت محسوس نہیں کی تھی۔
لیکن جونہی سلیم ملک ٹیم کے ساتھ پاکستان واپس آیا وہ چکرا کررہ گیا۔اس کے وہم و گمان میں بھی یہ بات نہیں تھی کہ پاکستانی کرکٹ بورڈ اور عوام اس کے ساتھ ایسا سلوک کریں گے۔اب وہ صرف انکوائریاں بھگتنے کے لیے خود کو تیار کرنے لگا تھا۔ان حالات میں وسیم اکرم نے آگے بڑھ کر اس کی مدد کی اور بورڈ سے کہا کہ ایک سینئر اور دیانتدار کھلاڑی کو ضائع نہ کریں۔مگر بورڈ نے جواب دیا کہ جب تک انکواری ٹیم اسے معصوم قرار نہیں دیتی،اس وقت تک سلیم ملک کی کوئی مدد نہیں کی جا سکتی۔
پچھلی قسط پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں۔
وسیم اکرم اپنی ٹیم اور اس کے کھلاڑیوں کے رویہ سے نالاں تھا اس کے باوجود اس نے ٹیم میں اتحاد پیدا کرنے کے لیے کوشش کیں مگر اس کا اپنا دامن الزامات کی آگ سے جھلسنے لگا۔اس پر بھی یہ کیچڑا اچھالا جانے لگا کہ وسیم اکرم کے بھائی سٹے بازوں کے دوست ہیں لہٰذا وہ وسیم اکرم پر اثر انداز ہوتے ہیں۔پہلے پہل تو یہ خبریں عام نہیں تھیں مگر جونہی پاکستان کرکٹ کی سیاست عروج پر پہنچی وسیم اکرم پر سنگین الزامات عائد ہونے لگے۔لیکن وسیم اکرم ان سب باتوں کا اثر نہیں لے رہا تھا۔ وہ جانتا تھا کہ لوگ کن مقاصد کے لیے ایسی خبریں اڑا رہے ہیں۔اس کا خیال تھا کہ جب وہ اچھا کھیل پیش کرے گا لوگ خود بخود سمجھ جائیں گے کہ یہ سٹے بازی وغیرہ فضول اور چھوٹی باتیں ہیں۔مگر اس کا یہ خیال ایک خوش فہمی ہی رہا۔اب پاکستان کرکٹ ٹیم اور سٹے بازی کی دھوم چہار سو پھیل گئی تھی۔
سلیم ملک کے غلط فیصلوں نے راشد لطیف اور باسط علی کو ان کے خلاف کر دیا اور انہیں نے ریٹائرمنٹ کا اعلان کر دیا کہ وہ سلیم ملک کی کپتانی میں نہیں کھیلیں گے۔وسیم اکرم نے اس سلسلے میں راشد لطیف سے بات کی تو راشد لطیف نے سختی سے جواب دیا۔
’’میں کبھی بھی ایسے کپتان کا نائب ہونا پسند نہیں کروں گا جو ملک کو بدنام کرے اور اپنے ساتھیوں کو اندھیرے میں رکھ کرمتنازعہ فیصلے کرے۔میں اور باسط علی ایسی کرکٹ کو خیر باد کہہ رہے ہیں‘‘۔راشد لطیف بطور وکٹ کیپر دنیا کے بہترین کھلاڑیوں میں شمار ہوتا تھا مگر اس نے کرکٹ کے میدان خارزار میں جوئے بازؤں کے خلاف جہاد کرکے بہت سے معصوم چہروں کوبے نقاب کر دیا۔وسیم اکرم نے اسے قائل کرنے کی کوشش کی مگر وہ اپنی ہٹ پر اڑ گیا۔ لیکن چند ماہ بعد جب شارجہ کپ کا انعقاد ہوا تو سلیم ملک کو باہر کر دیا گیا جس پر راشد اور باسط دونوں واپس آگئے۔اس بار معین خان کو کپتان اور سعید انور کو نائب کپتان بنایا گیا تھا۔معین خان کپتانی کے رموز سے نا آشنا تھا۔ اس نے وسیم اکرم کو انگلینڈ فون کیا اور بتایا کہ شارجہ کے لیے وہ کپتان بن گیا ہے۔لہٰذا وہ اس کی مدد کرے۔
وسیم اکرم بخوبی جانتا تھا کہ قومی ٹیم اس وقت زوال پذیر ہو رہی ہے۔معین خان ایک جونیئر کھلاڑی تھا مگروسیم اکرم نے اسے اپنی مکمل حمایت کا یقین دلایا۔وہکیمپ میں پہنچ گیا اور ٹیم کے ساتھ شارجہ روانہ ہو گیا۔ اس نے ہما کو کہہ دیا تھا کہ وہ مانچسٹر سے سیدھی شارجہ پہنچ جائے۔مگر شارجہ پہنچتے ہی وسیم اکرم کو بتایا گیا کہ وہ اپنی بیگم کو شارجہ نہیں بلا سکتے۔وسیم اکرم کی دوسری مرتبہ ایسی توہین کی گئی تھی ۔اس نے تحمل سے پوچھا:
’’مجھے اس وقت کیوں نہیں بتایا گیا جب مجھے شارجہ آنا تھا۔ ہما اس وقت مانچسٹر سے روانہ ہو چکی ہے۔اس اسے کیسے مطلع کر سکتا ہوں؟‘‘
’’بہرحال یہ آپ کا کام ہے کہ آپ نے انہیں کیسے روکنا ہے۔‘‘انتظامیہ نے اس سخت جواب دیا۔
’’تو پھر ٹھیک ہے۔میں واپس جا رہا ہوں۔میں اپنی بیوی کو خوار نہیں کرنا چاہتا۔‘‘وسیم اکرم نے جب دیکھا کہ اس کی بات نہیں سنی جارہی تو اس نے دھمکی دے دی۔بورڈ نے بالآخر انہیں اس بات کی اجازت دے دی کہ وہ اپنی بیگم کو شارجہ بلا سکتے ہیں۔اس پر وسیم اکرم نے بورڈ سے کہا:
’’آپ اس طرح کھلاڑیوں کو ذلیل نہ کیا کریں۔اگرآپ چاہتے ہیں کہ کھلاڑی اپنی بیگمات کو ساتھ لے کر نہ جایا کریں تو اس کے لیے قانون بنا دیں تاکہ کسی کو اعتراض کاموقع ہی نہ ملے۔‘‘
وسیم ارم کی بات میں وزن تھا مگر بے وزن بورڈ نے اس کی پروانہ کی۔
جاری ہے۔ اگلی قسط پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں۔
دنیائے کرکٹ میں تہلکہ مچانے والے بائیں بازو کے باؤلروسیم اکرم نے تاریخ ساز کرکٹ کھیل کر اسے خیرباد کہا مگرکرکٹ کے میدان سے اپنی وابستگی پھریوں برقرار رکھی کہ آج وہ ٹی وی سکرین اور مائیک کے شہہ سوار ہیں۔وسیم اکرم نے سٹریٹ فائٹر کی حیثیت میں لاہور کی ایک گلی سے کرکٹ کا آغاز کیا تو یہ ان کی غربت کا زمانہ تھا ۔انہوں نے اپنے جنون کی طاقت سے کرکٹ میں اپنا لوہا منوایااور اپنے ماضی کو کہیں بہت دور چھوڑ آئے۔انہوں نے کرکٹ میں عزت بھی کمائی اور بدنامی بھی لیکن دنیائے کرکٹ میں انکی تابناکی کا ستارہ تاحال جلوہ گر ہے۔روزنامہ پاکستان اس فسوں کار کرکٹر کی ابتدائی اور مشقت آمیز زندگی کی ان کہی داستان کو یہاں پیش کررہا ہے۔