نامور کرکٹر وسیم اکرم کی ان کہی داستان حیات۔۔۔ چوبیسویں قسط

نامور کرکٹر وسیم اکرم کی ان کہی داستان حیات۔۔۔ چوبیسویں قسط
 نامور کرکٹر وسیم اکرم کی ان کہی داستان حیات۔۔۔ چوبیسویں قسط

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

تحریر: شاہد نذیر چوہدری

کاؤنٹی کا ہیرو
شارجہ کی سنگر ٹرافی میں پاکستان کی بدنامی اور بدقسمتی کا ایک اور دور شروع ہو گیا تھا۔معین خان کوخسرہ نکل آیا اور وہ ہسپتال میں داخل ہو گیا۔سعید انور نے ٹیم کی قیادت سنبھالی مگرپاکستان 1989ء کے بعد پہلی مرتبہ شارجہ کے فائنل تک بھی نہ پہنچ سکا اور بھارتنے ٹرافی جیت لی۔
وسیم کو انداہ ہو گیا تھا کہ اسے اب جان بوجھ کر نظر انداز کیا جارہا ہے۔لہٰذا اس کے لیے بہتر ہے کہ وہ انگلینڈ واپس چلا جائے تاکہ بورڈ اور قومی ٹیم کی سیاست کا ابال بیٹھ جائے تو تب وہ واپس آئے۔
انگلینڈ پہنچتے ہی کاؤنٹی سیزن شروع ہو گیا۔اس نے سیزن میں81وکٹیں حاصل کیں۔وہ کاؤنٹی کے آخری تین میچ کھیل سکا ورنہ اسے یقین تھا کہ اگر وہ یہ میچ بھی نہ کھیل یتا تو 100وکٹیں لے کر کاؤنٹی ریکارڈ قائم کر دیتا۔لنکا شائر نے وسیم کی بدولت چیمپئن شپ جیت لی جبکہ بیٹسن اینڈ ہیجز کپ میں بھی وسیم نے لنکا شائر کو واضح شکست سے بچالیا۔ اس نے 97گیندوں پر67سکور بنائے اوریوں لنکا شائر نے یہ ٹرافی بھی جیت لی۔وسیم اکرم جب آؤٹ ہو کر ڈریسنگ روم میں آیا تو اس کی کاؤنٹی کے تمام کھلاڑی اورمنیجر اس سے والہانہ انداز میں چمٹ گئے اور اسے کہا:
’’وسیم!تم ہماری کاؤنٹی کے ہیرو ہو ہیرو۔۔۔‘‘
وسیم کا سر فخر سے اونچا ہو گیا مگر دل کے نہاں خانوں میں اپنوں کی بے مروتی اور ناقدرتی کے زخم ہرے ہو گئے۔اس نے آہ بھر کے سوچا کاش یہ پذیرائی مجھے اپنوں سے ملتی۔
وسیم کو کاؤنٹی کے تین میچ چھوڑ کر پشاور ٹیسٹ کے لیے بلا لیا گیاتھا۔ان دنوں رمیض راجہ کو کپتان ،عامر سہیل کو نائب کپتان،مشتاق احمد کو کوچ اورماجد خان کو ٹیم منیجر بنا دیا گیا تھا۔انگلینڈ کے خوشگوار اور سرد موسموں کی لطافت سے محظوظ ہو کر جب وہ پشاور کی سخت گرمی میں پہنچا تو اسے پے درپے ذلت وخواری کا سامنا کرنا پڑا۔وہ جب ہوٹل میں پہنچا تو اسے بتایا گیا کہ اسے دوسرے کھلاڑی کے ساتھ کمرہ شیئر کرنا پڑے گا۔
وسیم اکرم نے حیرانی کے ساتھ یہ بات سنی اور سیدھا رمیض راجہ کے پاس چلا گیا۔

پچھلی قسط پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں۔


’’راجہ بھائی!یہ میں کیا سن رہا ہوں۔آج تک تو یہ نہیں ہوا۔ہر سینئر کھلاڑی کا کمرہ الگ ہوتا ہے۔مگر مجھے یہاں بتایا گیا ہے کہ مجھے کمرہ شیئر کرنا پڑے گا‘‘۔
’’ہاں!بورڈ اور ٹیم منیجرنے یہی فیصلہ کیا ہے‘‘۔رمیض راجہ نیب تایا۔’’صرف کپتان،نائب کپتان ،منیجر اور کوچ کو الگ الگ کمرہ کی سہولت میسر ہے۔‘‘
’’یہ بالکل نہیں ہو سکتا‘‘۔وسیم اکرم نے کہا۔’’مجھے کمرے میں الگ سونے اور رہنے کی عادت پڑ چکی ہے۔میں کمرہ شیئر نہیں کر سکتا۔ آپ کچھ کریں‘‘۔مگر رمیض راجہ ابھی نیا اور کمزور کپتان تھا۔اس نے معذرت کرلی جس وسیم نے ماجد خان سے بات کی۔ ماجدخان نے پہلے تو ٹکا سا جواب دیا لیکن پھر انہیں وسیم اکرم کو الگ سے کمرہ دینا ہی پڑا اس لمحے وسیم اکرم نے یہ طے کر لیا تھا کہ اب ٹیم میں اس کے ناپسندہ لوگ شامل ہو چکے ہیں،جو اس کو ٹینشن دینے کے لیے کچھ بھی کر سکتے ہیں۔اس سلوک کیب اوجود وسیم نے پشاور ٹیسٹ میں سات وکٹیں لیں اور پاکستان نے یہ ٹیسٹ ایک اننگز اور40سکور سے جیت لیا۔

پچیسویں قسط پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں۔

دنیائے کرکٹ میں تہلکہ مچانے والے بائیں بازو کے باؤلروسیم اکرم نے تاریخ ساز کرکٹ کھیل کر اسے خیرباد کہا مگرکرکٹ کے میدان سے اپنی وابستگی پھریوں برقرار رکھی کہ آج وہ ٹی وی سکرین اور مائیک کے شہہ سوار ہیں۔وسیم اکرم نے سٹریٹ فائٹر کی حیثیت میں لاہور کی ایک گلی سے کرکٹ کا آغاز کیا تو یہ ان کی غربت کا زمانہ تھا ۔انہوں نے اپنے جنون کی طاقت سے کرکٹ میں اپنا لوہا منوایااور اپنے ماضی کو کہیں بہت دور چھوڑ آئے۔انہوں نے کرکٹ میں عزت بھی کمائی اور بدنامی بھی لیکن دنیائے کرکٹ میں انکی تابناکی کا ستارہ تاحال جلوہ گر ہے۔روزنامہ پاکستان اس فسوں کار کرکٹر کی ابتدائی اور مشقت آمیز زندگی کی ان کہی داستان کو یہاں پیش کررہا ہے۔