نامور کرکٹر وسیم اکرم کی ان کہی داستان حیات۔۔۔ چھبیسویں قسط
تحریر:شاہدنذیرچودھری
وسیم کا کہنا تھا کہ ’’زمبابوے کے خلاف شیخوپورہ ٹیسٹ کو میں شاید ہی کبھی فراموش کر سکوں۔بحیثیت بولر تو میرے بہت سے میچز ایسے ہیں جنہیں یادگار کہا جا سکتا ہے۔لیکن بحیثیت بیٹسمین میں شیخوپورہ ٹیسٹ کو کبھی فراموش نہیں کر سکتا۔ اس ٹیسٹ میں ،میں نے آؤٹ ہوئے بغیر257رنز بنائے تھے۔مجھے خود اپنی کارکردگی پر حیرت تھی۔ساتویں نمبر پر بیٹنگ کے لئے جانے والے ٹیل اینڈر سے آپ کیا توقع کر سکتے ہیں۔تیس،پینتیس یاد زیادہ سے زیادہ پچاس رنز۔لیکن میرے 257رنز میرے لئے اب تک ناقابل یقین ہیں۔اب میں شاید ہی کبھی اس سحر انگیز کارکردگی کو دوہرا سکوں۔آٹھ گھنٹے مسلسل بیٹنگ تو میں نے کبھی فرسٹ کلاس یا کاؤنٹی کرکٹ میں بھی نہیں کی تھی۔ پچاس کے بعد سورنز پر پنچ کر مجھے نہایت لطافت کا احساس ہوا۔سنچری کے بعد میں لاپرواہ شاٹس مار رہا تھا۔لیکن کچھ ہی دیر بعد میرے اسکور کا ہندسہ150سے تجاوز کر گیا۔ثقلین میرے ساتھ ڈٹے ہوئے تھے۔ہم نے بعد میں آٹھویں وکٹ کی شراکت میں عالمی ریکارڈ بھی بنایا۔ثقلین بار بار میری ہمت بڑھا رہا تھا۔ مجھے دو سو رنز بنانے کا کوئی خاص شوق نہیں تھا۔ثقلین بار بار مجھ سے کہہ رہا تھا۔’’وسیم بھائی!تھوڑی سی ہمت،آپ دوسو کر سکتے ہیں۔‘‘لیکن190کے اسکور سے تالیاں بجنا شروع ہوگئیں۔مجھے اس وقت احساس ہوا کہ شاید واقعی میں کوئی بڑا کام کرنے جارہا ہوں۔
ڈبل سنچری۔۔۔اف کس قدر لذت تھی200واں رن لینے میں۔ثقلین مجھے بہت اچھا لگ رہا تھا۔ اس پر مجھے بے حد پیار آرہا تھا۔ بے لوث جذبے سے اس نے میری ہمت بندھائی اور ڈبل سنچری بنوا دی۔ورنہ مجھے تو ڈبل سنچری کی لذت کا علم ہی نہ تھا۔ اس دن اس محاورے’’بندر کیا جانے ادرک کا مزہ‘‘ کے معنی و مطلب مجھے پہلی مرتبہ سمجھ میں آئے۔واقعی ایک بولر یا ٹیل اینڈر کیا جانے ڈبل سنچری کا مزہ۔
پچیسویں قسط پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں۔
ڈبل سنچری بنانے کے بعد اس احساس نے کہ میرا نام اب ظہیر عباس، جاوید میانداد اور حنیف محمد جیسے بیٹسمینوں کی فہرست میں آگیا ہے۔میرا تن بدن شدید تھکاوٹ کے باوجود کیف و سرور میں ڈوب گیا۔دوسو کے بعد اب مجھے کیا لینا تھا۔ میں نے آگے بڑھ کر دو چھکے رسید کر دیئے۔میں تھک چکا تھا۔ مجھے ابھی بولنگ بھی کرنی تھی۔ میں آؤٹ ہو کر چند لمحے ریسٹ کرنا چاہتا تھا لیکن اس موقع پر پولین سے اعجاز احمد نے ہدایات بھیجیں۔’’وسیم بھائی۔۔۔آپ نو چھکے لگا چکے ہیں تین اور لگائیں۔ورلڈریکارڈ ہو جائے گا۔‘‘وہ سب میری بیٹنگ سے لطف اٹھا رہے تھے۔وہ مجھ سے بہت کچھ چاہتے تھے۔باوجود تھکن کے میں پھر ڈٹ گیا۔ اس دن میں جو چاہ رہا تھا ہو رہا تھا۔بھرپور طاقت سے میں نے تین چکے لگا ہی ڈالے۔ہر چھکے پر ایسا محسوس ہوتا کہ شاید کیچ آؤٹ ہو جاؤں گا لیکن گیند ہر بارمیدان سے باہر ہوتی۔چھکے مارنے کی خواہش میں اسکور250تک پہنچ گیا۔300کا ہندہستہ ذہن میں آتے ہی میں لرز گیا۔ٹرپل سنچری۔۔۔کیا میں ٹرپل سنچری بنا سکتا ہوںٖ؟میں زیر لب بڑبڑایا۔۔۔میں نے ارادہ کرلیا کہ تین سو کے ہندسے تک جاؤں گا۔لیکن میرے مصم ارادے میں اس وقت پہلی دراڑ پڑی جب باہمت ثقلین میری ہمت بندھاتے بندھاتے خود پویلین سدھار گئے۔آخری کھلاڑی وقار یونس تھے۔وہ طویل عرصے سے پیڈ باندھے پویلین میں بیٹھے تھے۔میں چاہتا تھا کہ وہ بھی ثقلین کی مانند سیدھے بلے سے کھیلتے رہے اور میں اپنا سفر جاری رکھوں۔لیکن وقار گرم خون اور جذبے والے کھلاڑی ہیں۔انہوں نے سوچا کہ میں بھی چھکے مار سکتا ہوں اور وہ ہٹ آؤٹ کرتے ہوئے بولڈ ہو گئے۔انہوں نے زور دار شاٹ مارنے میں جلدی کی۔پاکستان کی اننگز ختم ہو گئی۔ میری زندگی کا یادگار ہندستہ257پر محدود ہو گیا اور میں ٹرپل سنچری تک نہ پہنچ سکا۔ بہرحال میری زندگی کا یادگار میچ ثابت ہوا۔
یہ کسی آل راؤنڈر کی بہترین کارکردگی ہے۔لیکن دسمبر 1997ء میں شارجہ کپ کے دوران اس کارکردگی کا گراف گر گیا۔ دراصل وہ سٹے بازی کے الزامات کی وجہ سے بری طرح نروس ہو چکا تھا۔
شارجہ کپ کے بعد بورڈ کی انتظامیہ میں تبدیلی آگئی۔ ماجد خان چیئرمین بورڈ تھے اور ظہیر عباس چیف سلیکٹرز۔دونوں کا وسیم اکرم کے ساتھ رویہ انتہائی سرد تھا۔ انہوں نے وسیم اکرم کو ٹیم سے باہر کر دیا اور راشد لطیف کو کپتان بنا دیا۔
پے درپے توہین کی وجہ سے وسیم اکرم سے برداشت نہ ہو سکا،اس نے ظہیر عباس سے کہا۔
’’میں کپتانی کے لیے نہیں کھیلنا چاہتا۔صرف پاکستان کے لیے ایک کھلاڑی کی حیثیت سے کھیلنا چاہتا ہوں،حالانکہ پیسہ کمانے کے لیے میرے پاس لنکا شائر ہی کافی ہے۔مگر مجھ پر میرے ملک کا قرض ہے جو تاعمرادا کرتارہوں تو ادا نہ ہو گا‘‘۔ظہیر عباس نے اسے حوصلہ دیا اور کہا کہ حالات کو اپنی قوت ارادی اور دوستانہ رویے سے بدلنے کی کوشش کرو۔
(جاری ہے، اگلی یعنی ستائیسویں قسط پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں)۔
دنیائے کرکٹ میں تہلکہ مچانے والے بائیں بازو کے باؤلروسیم اکرم نے تاریخ ساز کرکٹ کھیل کر اسے خیرباد کہا مگرکرکٹ کے میدان سے اپنی وابستگی پھریوں برقرار رکھی کہ آج وہ ٹی وی سکرین اور مائیک کے شہہ سوار ہیں۔وسیم اکرم نے سٹریٹ فائٹر کی حیثیت میں لاہور کی ایک گلی سے کرکٹ کا آغاز کیا تو یہ ان کی غربت کا زمانہ تھا ۔انہوں نے اپنے جنون کی طاقت سے کرکٹ میں اپنا لوہا منوایااور اپنے ماضی کو کہیں بہت دور چھوڑ آئے۔انہوں نے کرکٹ میں عزت بھی کمائی اور بدنامی بھی لیکن دنیائے کرکٹ میں انکی تابناکی کا ستارہ تاحال جلوہ گر ہے۔روزنامہ پاکستان اس فسوں کار کرکٹر کی ابتدائی اور مشقت آمیز زندگی کی ان کہی داستان کو یہاں پیش کررہا ہے۔