نامور کرکٹر وسیم اکرم کی ان کہی داستان حیات۔۔۔ قسط نمبر27
تحریر۔شاہدنذیرچودھری
اغواء برائے تاوان
وسیم اکرم نے کچھ دن تک تو انتظار کیا کہ شاید اسے ٹیم میں شامل کرلیا جائے لہٰذا وہ اپنی کٹ بیگ تیار کیے ہوئے بیٹھا رہا۔مگر جب اسے مکمل جواب دے دیا تو وہ واپس انگلینڈ چلا گیا۔ اس باراس نے کندھے کا آپریشن بھی کرالیا۔بعدازاں لنکا شائر نے اسے کپتان بنا دیا اور اس نے کاؤنٹی سیزن میں شاندار کارکردگی کا مظاہرہ کیا۔فروری1998ء میں جب واپس پاکستان آیا تو اسے معلوم ہوا کہ اس کے والد کو اغواء برائے تاوان کے لیے اغوا کرنے کی کوشش کی گئی ہے اور اس کے بھائیوں پر بھی الزام لگایا گیا ہے کہ وہ سٹے بازی میں وسیم اکرم کے معاون ہیں۔
سٹریٹ فائٹر،نامور کرکٹر وسیم اکرم کی ان کہی داستان حیات۔۔۔چھبیسویں قسط پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
وسیم اکرم نے اس صورت حال سے نپٹنے کے لیے پرائیویٹ سکیورٹی فورس سے رابطہ کیا اور گھر کو مسلح پہریداروں کے حوالے کر دیا۔ دریں اثناء اس نے اس وقت کے وزیراعظم میاں نواز شریف سے بھی ملاقات کی اور تمام حالات ان کے گوش گزار کر دیئے۔نواز شریف خودبھی کرکٹ کے رسیا تھے اور وسیم اکرم کے مداح بھی تھے لہٰذا انہوں نے بورڈ کے حالات تبدیل کرنے کے لیے خالد محمود کو چیئرمین بنا دیا جنہوں نے آتے ہی وسیم اکرم کو ٹیم میں شامل کرلیا اوراسے جنوبی افریقہ بھیج دیا۔جہاں پاکستان کرکٹ ٹیم اپنے آخری ٹیسٹ کی جیت کے لیے جان لڑا رہی تھی۔ وسیم اکرم نے جاتے ہی کپتان راشد لطیف کو اپنے تعاون کی یقین دہانی کرائی۔ لیکن راشد لطیف اپنی کپتانی کا حق ادا نہ کر سکا اور اس نے باسط علی اور عامر سہیل کے ساتھ مل کر وسیم اکرم، سلیم ملک، اعجاز اور دوسرے کھلاڑیوں پر میچ فکسنگ کے ثبوت فراہم کرنے کے لیے ہاتھ پاؤں مارنے شروع کر دیئے۔وطن واپس آتے ہی اس کا مزاج مزید جارحانہ ہو گیا تھا۔
1998-99ء میں ورلڈ پک کے سیزن کا آغاز ہو گیا تھا۔ پاکستان کو ورلڈ کی تیاریوں کے لیے دس ٹیسٹ اور تیس ون ڈے کھیلنے تھے۔بورڈ نے راشد لطیف کی بجائے عامر سہیل کو کپتان بنا دیا۔ اس نے صحارا کپ میں بھارت کو شکست دی مگر آسٹریلیا میں ہوم سیریز ہار گیا۔آسٹریلیا میں ہی عامر سہیل اور وسیم اکرم کے درمیاان اختلافات شروع ہوگئے اور عامر سہیل نے الزام لگایا کہ وسیم اکرم نے اسے قتل کرانے کی دھمکی دی ہے لیکن وسیم اکرم نے اس قسم کی کسی بھی دھمکی سے تعلقی ظاہر کی۔ ورلڈ کپ1999ء کا آغاز ہونیوالا تھا جب وسیم اکرم کو تیسری بار کپتان بنانا بورڈ کی مجبوری بن گئی۔
وسیم میاں داد جھگڑا
ورلڈکپ سے پہلے شارجہ ٹورنامنٹ میں وسیم اکرم اور میانداد میں جھگڑا ہو گیا جس پر میاں داد نے استعفیٰ دے دیا۔ میاں داد نے الزام عائد کیا کہ ٹیم کی کارکردگی کا گراف جس طرح یک دم گر جاتا ہے اور پھر اگلے ہی میچ میں بلند ہو جاتا ہے اس سے ٹیم کا کردار مشکوک ہو جاتا ہے۔بحیثیت کپتان وسیم اکرم کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ اس بارے میں اپنے کردار کو واضح کریں۔وسیم اور میاں داد کے درمیان اس مبینہ جھگڑے کی ایک وجہ یہ بھی بیان کی جاتی ہے کہ دونوں کے درمیان13ہزاررنز کے ایک تحفہ کی تقسیم پر جھگڑا ہوا تھا۔
وسیم اکرم نے شارجہ کپ کے دوران دو میچ بآ سانی جیت لیے تھے مگر تیسرا جیتاہوا میچ وہ آسانی سے ہار گیا اور پھر اگلے میچوں میں پھر جیت گیا تھا۔ٹیم کی کامیابیوں کا یہ اتار چڑھاؤ ماہرین کرکٹ کے لیے معمہ بن گیا۔ اس دوران راشد لطیف اپنے چند گواہوں کے ساتھ لاہور کی عدالت میں وسیم اکرم اور بعض دوسرے کھلاڑیوں کے خلاف کچھ ثبوت فراہم کر چکا تھا۔ عدالتی تحقیقات کے لیے جناب جسٹس ملک قیوم کو نامزد کیا گیا تھا۔
ایک طرف تو وسیم اکرم کے خلاف میچ فکسنگ کی تحقیقات جاری تھیں اور دوسری طرف وہ ورلڈ کپ کے لیے ٹیم کو تیار کررہا تھا۔
جاری ہے، اٹھائیسویں قسط پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
دنیائے کرکٹ میں تہلکہ مچانے والے بائیں بازو کے باؤلروسیم اکرم نے تاریخ ساز کرکٹ کھیل کر اسے خیرباد کہا مگرکرکٹ کے میدان سے اپنی وابستگی پھریوں برقرار رکھی کہ آج وہ ٹی وی سکرین اور مائیک کے شہہ سوار ہیں۔وسیم اکرم نے سٹریٹ فائٹر کی حیثیت میں لاہور کی ایک گلی سے کرکٹ کا آغاز کیا تو یہ ان کی غربت کا زمانہ تھا ۔انہوں نے اپنے جنون کی طاقت سے کرکٹ میں اپنا لوہا منوایااور اپنے ماضی کو کہیں بہت دور چھوڑ آئے۔انہوں نے کرکٹ میں عزت بھی کمائی اور بدنامی بھی لیکن دنیائے کرکٹ میں انکی تابناکی کا ستارہ تاحال جلوہ گر ہے۔روزنامہ پاکستان اس فسوں کار کرکٹر کی ابتدائی اور مشقت آمیز زندگی کی ان کہی داستان کو یہاں پیش کررہا ہے۔