نامور کرکٹر وسیم اکرم کی ان کہی داستان حیات۔۔۔ اٹھائیسویں قسط

نامور کرکٹر وسیم اکرم کی ان کہی داستان حیات۔۔۔ اٹھائیسویں قسط
 نامور کرکٹر وسیم اکرم کی ان کہی داستان حیات۔۔۔ اٹھائیسویں قسط

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

تحریر۔شاہدنذیرچودھری

وسیم اکرم نے شارجہ کپ کے دوران دو میچ بآ سانی جیت لیے تھے مگر تیسرا جیتاہوا میچ وہ آسانی سے ہار گیا اور پھر اگلے میچوں میں پھر جیت گیا تھا۔ٹیم کی کامیابیوں کا یہ اتار چڑھاؤ ماہرین کرکٹ کے لیے معمہ بن گیا۔ اس دوران راشد لطیف اپنے چند گواہوں کے ساتھ لاہور کی عدالت میں وسیم اکرم اور بعض دوسرے کھلاڑیوں کے خلاف کچھ ثبوت فراہم کر چکا تھا۔ عدالتی تحقیقات کے لیے جناب جسٹس ملک قیوم کو نامزد کیا گیا تھا۔
ایک طرف تو وسیم اکرم کے خلاف میچ فکسنگ کی تحقیقات جاری تھیں اور دوسری طرف وہ ورلڈ کپ کے لیے ٹیم کو تیار کررہا تھا۔

سٹریٹ فائٹر،نامور کرکٹر وسیم اکرم کی ان کہی داستان حیات۔۔۔ پچھلی یعنی ستائیسویں قسط پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
وسیم اکرم نے ورلڈکپ میں جی جان سے محنت کی مگر فائنل میں وہ آسٹریلیا سے ہار گیا۔ کسی کو یہ توقع نہیں تھی کہ ورلڈکپ کے پول میچوں میں برق وباراں کی طرح مخالفوں کو روند ڈالنے والا پاکستان فائنل اتنی آسانی سے ہار جائے گا۔پاکستان تو کیا دنیا کا ہر ایک شخص اس بات پر حیران تھا کہ پاکستان جیسی مضبوط ٹیم کیسے ہار گئی؟
وسیم اکرم ہیرو یا جواری؟
کرکٹ کی دنیا میں جوئے اور سٹے بازی کے رجحان نے پاکستان کرکٹ کو ایک نئے بحران سے دوچار کر دیا تھا جس کے باعث1998ء میں قومی کرکٹرز کے خلاف جسٹس قیوم کی عدالت میں انکوائری زور و شور سے شروع ہو گئی۔وسیم اکرم کے خلاف بورڈ کارروائی کرنے پر مجبور ہو گیا۔لہٰذا سرگرم لابی اس دوران ان کے خلاف ٹھوس ثبوت تو فراہم نہ کر سکی لیکن بیانات اور الزامات کے تسلسل نے اس کی حیثیت کو مشکوک بنا دیا۔جسٹس قیوم سمیت عالمی کرکٹ کے حلقوں اور وسیم اکرم کے مداحوں کی شدید دکھ کی لہرنے اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ پاکستان کرکٹ بورڈ اور کھلاڑیوں کی جگ ہنسائی ہونے لگی۔ اس بحران کو عالمی میڈیا نے خوب اچھالا اور وسیم اکرم کے خلاف اندرون ملک سرگرم لابی کو تقویت مل گئی۔
جسٹس قیوم کی انکوائری میں ایسے ہوشربا اور شرمناک واقعات سامنے آرہے تھے کہ حکومت پاکستان نے بالآخر1999ء میں پاکستان کرکٹ بورڈ کو ختم کر دیا اورخالد محمود کی جگہ نیب کے سربراہ سینیٹر سیف الحرمن کے بھائی مجیب الرحمن کو پاکستان کرکٹ بورڈ کی ایڈہاک کمپنی کا سربراہ با دیا گیا۔ جاوید زمان ایڈہاک کمیٹی کے رکن بنا دیئے گئے اس کے ساتھ انہیں خزانچی حافظ منظور کی جگہ مالیاتی انچارج بھی مقرر کر دیا گیا۔جبکہڈومیسٹک کرکٹ کے انچارج کے طور پر بھی وہ خدمات انجام دینے کے لئے مقرر کئے گئے۔عوام نے حکومت کے اس فیصلہ کو سراہا کہ اب سکروٹنی کمیٹی کی رپورٹ کے بعد ہی بورڈ میں قیقی نمائندے شامل کئے جائیں گے۔ان حالات میں احتساب بیورو کے سربراہ سینیٹر سیف الرحمن نے ایک انٹرویو میں انکشاف کیا کہ احتساب بیورو نے ورلڈکپ کے حوالے سے وسیم اکرم،سلیم ملک اور اعجاز احمد کے خلاف ٹھوس ثبوت اکٹھے کر لئے ہیں۔احتساب بیورو کے سربراہ نے یہ بھی کہا کہ انہیں کھلاڑیوں کے اثاثوں کی تحقیقات سے معلوم ہو گیا ہے کہ کھلاڑیوں کے اثاثے ان کی آمدنی سے کہیں زیادہ ہیں۔انہی دنوں کرکٹ بورڈ ایڈہاک کمیٹی کے چیئرمین مجیب الرحمن نے بھی وائس آف امریکہ کو ایک انٹرویو کے دوران بتایا کہ جب تک وسیم اکرم،سلیم ملک اور اعجاز احمد کے خلاف الزامات کیب ارے میں حتمی فیصلہ نہیں ہو جاتا ان کھلاڑیوں کوپاکستانی ٹیم میں شامل نہیں کیا جائے گا۔وائس آف امریکہ نے وسیم اکرم کے بارے میں کہا کہ پاکستان کرکٹ بورڈ کی تحقیقاتی رپورٹ شائع ہونے کے بعد اس بات کا قوی امکان ہے کہ وسیم اکرم پر اپنے دوسرے ساتھیوں سمیت ہمیشہ کے لئے پابندی لگا دی جائے گی۔
جاری ہے۔ انتیسویں قسط پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں

دنیائے کرکٹ میں تہلکہ مچانے والے بائیں بازو کے باؤلروسیم اکرم نے تاریخ ساز کرکٹ کھیل کر اسے خیرباد کہا مگرکرکٹ کے میدان سے اپنی وابستگی پھریوں برقرار رکھی کہ آج وہ ٹی وی سکرین اور مائیک کے شہہ سوار ہیں۔وسیم اکرم نے سٹریٹ فائٹر کی حیثیت میں لاہور کی ایک گلی سے کرکٹ کا آغاز کیا تو یہ ان کی غربت کا زمانہ تھا ۔انہوں نے اپنے جنون کی طاقت سے کرکٹ میں اپنا لوہا منوایااور اپنے ماضی کو کہیں بہت دور چھوڑ آئے۔انہوں نے کرکٹ میں عزت بھی کمائی اور بدنامی بھی لیکن دنیائے کرکٹ میں انکی تابناکی کا ستارہ تاحال جلوہ گر ہے۔روزنامہ پاکستان اس فسوں کار کرکٹر کی ابتدائی اور مشقت آمیز زندگی کی ان کہی داستان کو یہاں پیش کررہا ہے۔