شکار۔۔۔ شہرۂ آفاق مسلمان شکاری کی سنسنی خیز داستان۔۔۔قسط نمبر 24
دیہات کے گھروں میں رفع حاجت کا اہتمام تو ہوتا نہیں تھا..... سب کو باہر ہی جانا ہوتا تھا ..... عورتیں یہ کام رات کے وقت انجام دیتی تھیں مرد جب چاہیں ..... !
شکار۔۔۔۔۔۔ شہرۂ آفاق مسلمان شکاری کی سنسنی خیز داستان۔۔۔قسط نمبر23پڑھنے کےلیے یہاں کلک کریں۔
جس کمرے میں ہم مقیم ہوئے وہ حسب معمول کچا پکا ہی تھا .....ان مواضع ‘ میں پکا کا مطلب سیمنٹ نہیں بلکہ پتھر ہوتا ہے..... کچے کا مطلب مٹی سے بند ہوا ..... ان چھوٹے کمرہ نما گھروں میں کھڑکیاں بھی نہیں ہوتیں ..... ہم جہاں تھے وہاں ایک ہی دروازہ تھا ..... فرش کچھا تھا ..... جسے مٹی سے لیپا گیا تھا ..... اور ہمارے قیام کے لیے اسے خوب صاف ستھرا کر دیا گیا .....
کمرے میں آکر میں ہمیشہ پہلا کام یہ کرتا ہوں کہ دیواروں ‘چھت اور فرش میں دیکھتا ہوں کوئی ایسا سوراخ نہ ہو جس کے ذریعے رات کے اندھیرے میں کوئی کیٹرا مکوڑا تنگ کر سکے ..... کمرے کی دیواریں صاف تھیں ..... فرش میں بھی سوراخ نہیں تھا ..... شکار کا لباس میں نے اتار انہیں ..... ہمارے ساتھ بستر تھے عصر کی نماز سے فارغ ہو کر میں نے ایک پیالی چائے پی اور پچاس ایکسپریس سنبھال کر باہر آگیا ..... عظمت میاں بھی اپنی رائفل لیے ساتھ تھے ..... انھوں نے جنریز کی رائفل لی تھی جو بڑی قیمتی تھی .....
گاؤں کے لوگ اپنے روزمرہ کے کاموں میں مشغول تھے ..... جانوروں کی دیکھ بھال ..... گاؤں کا سب سے اہم کام ہے ا س لیے کہ جانوروں سے نہ صرف کھیت جوتے جاتے ہیں ..... بلکہ گائے بھینس سے دودھ ..... اور بیلوں سے آمدورفت لیے گاڑی کھینچنے کا کام بھی لیا جاتا ہے ..... گاؤں می دو عدد گھوڑے .... اور تین چار گدھے بھی تھے ..... دو ایک بچے گلی میں گولیاں کھیلتے نظر آئے اور میں نے ادھر سے گزرتے ہوئے ایک شخص کو تاکید کی شام سے پہلے ہی ان بچوں کو گھروں میں رکھا جائے .....
گاؤں تو ویسا ہی تھا جیسے ان عورتوں کے سارے دیہات ہوا کرتے ہیں ..... وہی کچے گھر ..... خاک اڑاتی گلی ..... لہلہاتے کھیت ..... سر سبز جنگل ..... گاؤں کے ساتھ ہی ایک بہت بڑا کنواں تھا جس کا پانی گاؤں والوں کی ساری ضروریات پورا کرتا ..... یہی کنواں آبادی کے جنوب میں ایک کھلی جگہ پر واقع تھا اور نزدیک کوئی درخت نہ ہونے کی وجہ سے پانی بھی صاف اور شیریں تھا ..... درخت کنویں کے قریب ہو تو کنویں میں درخت کی پیتاں گر کر پانی میں گل سڑجاتی ہیں ان کی وجہ سے پانی کا ذائقہ اور خوشبو بدل جاتی ہے..... میں نے بار ہا دیہاتوں میں ایسے کنوؤں کا پانی بھی نہایت اطمینان سے نوش کیا ہے جن میں درختوں کی بے حساب پیتاں گری ہوئی تھیں اور پانی میں ان پتیوں کا ذائقہ تھا ..... بلکہ دو چار بار ایسا پانی بھی میسرآیا جس میں نیم کی پتیاں اور نمکولیاں گر کر گل گئی تھیں اور پانی بہت کڑوا تھا..... اس پانی میں نیم کی پتیوں اور نمکولیوں کا عرق شامل ہو گیا تھا .....
نیم کا عرق ..... یا نیم کی پتیوں کا عرق ..... خون صاف کرنے میں بہت موثر اور صحت کے لیے بہت مفید ہے اس کی کڑواہٹ مشہور ہے ..... کڑوا کریلا اور پھر نیم چڑھا ..... !
آبادی تھی ہی کتنی ..... میں ایک چکر لگا کر واپس ادھر آگیا جدھر دوپہر کو شیر دیکھا گیا تھا اور سیدھا اس گھاٹی کے دہانے تک آیا جس کا تذکرہ کر چکا ہوں .....
’’کیا خاں اس گھاٹی میں جاؤگے ..... ‘‘عظمت نے پوچھا
’’ نہیں ..... لیکن اس مقام کے آس پاس ٹھہرنا مناسب ہوگا ..... ‘‘
گھاٹی کے نزدیک کوئی مناسب مقام ایسا نہیں ملا جہاں ہم دونوں ٹھہر سکتے ..... نتیجتاً میں گاؤں واپس آیا اور ایک شکستہ مکان کی دیوار کی آڑ میں ٹھہرے رہنے کافیصلہ کیا .....
آدم خور شیر کی حرکات قطعاً ناقابل پیش بیتی ہوا کرتی ہیں ..... لیکن طویل تجربہ ان تمام آدم خور شیروں کی حرکات و سکنات کا ایک خاکہ ضرور بنا دیتا ہے جس پر غور کرنے سے ان تاریک گوشوں پر کچھ روشنی ضرور پڑتی ہے جہاں آدم خور کی حرکات کا ریکارڈ ہے .....
مجھے خاصا یقین تھا کہ آدم خور ایک بارپھر رات یا دن کے کسی حصے میں اس کھانے سے بھی فراغت کر لے گا ..... اس کے بعد میں نے پھر رائفل سنبھالی .....
’’خاں رات اندھری رہے .....‘‘ عظمت میاں بولے .....
’’ہاں ..... لیکن ستاروں کی روشنی کافی ہوگی ..... اور پھر ٹارچ بھی ہے ..... ‘‘ لیکن خوب اندھیرا ہو جانے کے بعد مجھے یہ احساس ہو اکہ وہاں بیٹھ کر خواہ مخواہ اندھیرے میں شکار کا خطرہ لینا مناسب نہیں ..... شیر اور بلی کی نسل کے دوسرے سارے درندے رات کے وقت بالکل صاف دیکھ سکتے ہیں اور سب درندے رات میں ہی شکار کرتے ہیں جبکہ انسان کی آنکھیں رات دیکھنے کے لیے نہیں بنائی گئیں ..... میں اس وقت بھی دیوار کی آڑ میں بیٹھا بمشکل دس گز تک دیکھ سکتا تھا ..... یہ فاصلہ ایسا تھا کی شیر اچانک نمودار ہو تا تو فائرمشکل تھا ..... در آنحالیکہ مجھے شیر گز سو پچاس گز دور سے بہ آسانی دیکھ سکتا تھا .....
نصف شب کے قریب میں نے مزید انتظار ملتوی کر دیا اور قیام گاہ واپس آگیا ..... فجر کی نماز کے لیے حسب معمول آنکھ کھل گئی ..... لیکن باہرنکلنے کے لیے مجھے ایک بار پھر لباس تبدیل کرنا پڑا اس دوران عظمت بھی بیدار ہوگئے ..... ہم دونوں مسلح ہو کر ہی باہر نکلے ..... ضروریات سے فراغت کے بعد کنویں کی طرف چلے کہ وضو کر سکیں ..... ایک قدم ادھر بڑھایا ہی تھا کہ میری چھٹی جس نے خطرے کی گھنٹی بجائی ..... اور میں یکباریگی رائفل اٹھا کر تیار ہوگیا .....
’’ کیا ہوا ..... ؟ ‘‘ عظمت گھبرا کر بولے
’’ کیا شیر آگیا ..... ؟ ‘‘
’’ پتہ نہیں ..... لیکن کچھ ہے ضرور ..... ‘‘
ابھی اندھیرا تھا ..... صبح صادق نے اس علاقے کے پہاڑیوں کو تو کسی قدر نمایاں کر دیا تھا لیکن گپھا پہاڑوں کے درمیان وادی میں واقع تھی جہاں صبح ابھی نہیں پہنچی تھی ..... میں نے عظمت کو دیوار کی طرف ہٹنے کا اشارا کیا ..... اور ہم دونوں دیوار سے لگ کر کھڑے ہوگئے ..... کم از کم عقب سے حملہ ممکن نہیں تھا ..... سامنے کچھ نظرنہیں آرہا تھا .....
اسی وقت گاؤں کی دوسری جانب سے کتوں کے بھونکنے کی آوازیں آئیں ..... کتے ایسی آوازوں میں بھونک رہے تھے جن سے خوفزدگی ظاہر تھی ..... گویا بھونکنے کے دوران ان کی ایک آدھ چیخ بھی نکل جاتی تھی ..... اور اسی لمحے جو خطرہ مجھے محسوس ہورہا تھا وہ بھی زائل ہوگیا ..... کتے چند لمحوں بعد خاموش ہوگئے .....
ہم دونوں اس طرح دیوار سے لگے کھڑے رہے ..... تا آنیکہ ذرا سا اجالا ہوا تو میں نے قدم بڑھایا ،کنویں پر ہم نے وضو کیا..... اور واپسی کے لیے اٹھے ہی تھے کہ سامنے کے گھر کا دروازہ کھلا اور ایک دیہاتی نے سر نکال کر باہر جھانکا پھر اپنے کسی عزیزیا دوست کو آواز دی..... اس کے بعد لوگ اپنے گھروں سے نکلنے لگے ..... ہم دونوں نے قیام گاہ آکر فجر کا دوگانہ ادا کیا ..... پھر باہر آگئے اب اجالا ہو گیا تھااور گاؤں والے ..... جو ہمیشہ علی الصباح بیدار ہوتے ہیں ..... نکل کر اپنے کاموں میں لگ گئے تھے ..... میں سیدھا کنویں کے پاس آیا اور آس پاس کی زمین کا بغور معائنہ کیا ..... کنویں کی جگت کے نزدیک ہی ایک جگہ شیر کا ماگھ نم مٹی پر واضح تھا ..... تھوڑی کوشش سے ہی میں نے اور کئی نشان بھی تلاش کر لیے ..... واپسی کے وقت شیر کو جلدی تھی اس لیے دوڑتا ہوا گیا تھا ..... وہ نشانات بھی جابجا ملے .....
یہ واقعہ اس آبادی کے لیے نہایت سنگین صورت حال کا پیش خیمہ تھا ..... شیر کا کھیتوں کی طرف آنا ..... لوگوں پر تاک لگانا ..... چرواہوں کو دھمکانا ..... یہ سب جدا ہیں ..... لیکن آبادی کے اتنے قریب کنویں کی آڑ میں بیٹھنا ظاہر کرتا ہے کہ آدم خور زیادہ نڈر اور دلاور ہوتا جارہا ہے اوراب یہ بلا اس آبادی پر نازل ہو ہی گئی .....
عظمت میاں بھی اس صورت حال سے بہت متاثر ہوئے ..... ان کو وہم و گمان بھی نہیں تھا کہ آدم خور اس قدر جری ہو سکتا ہے..... وہ شکاری ضرور ہیں لیکن شیر کے شکار کی نوعیت ہی مختلف ہوتی ہے ..... اور شیربھی آدم خور ..... اس کے شکار کے لیے ایک خاص مزاج اور سلیقے کی ضرورت ہوتی ہے .....
وہ تو مجھ سے کہنے لگے ..... ’’میاں خاں ..... اپن اگر کنویں کی طرف جاتے تو مارے گئے تھے ..... ‘‘
’’ہاں .....شیر تو گھات میں تھا ہی ..... ‘‘
’’ حملہ کرتا ..... ‘‘
’’ممکن تھا ..... ‘‘
’’خاں تم تو جیسے اس کو اہمیت ہی نہیں دے رہے ہوگے ..... !‘‘
میں ان کی طرف دیکھ کر مسکرایا ..... وہ ابھی تک مضطرب تھے ..... ان کے چہرے سے ان کی قلبی کیفیت پڑھی جاسکتی تھی .....
میں ہر جذبے سے معریٰ تھا .....ایسی حالت میں کہ کوئی واقعہ رونما نہیں ہوا میں یہ کیوں سوچتا کہ یوں ہوتا تو کیا ہوتا ..... اس کا تدارک بھی اب کیا تھا .....
’’واقعہ اہم اس لحاظ سے ہے کہ اب گاؤں والے شدید خطرے میں ہیں ..... لیکن میں گزرے ہوئے لمحات کے بارے میں سوچ کر پریشان نہیں ہونا چاہتا..... ‘‘
عظمت میاں چپ ہوگئے ..... لیکن وہ اندرونی طور پر مضطرب اور فکر مند تھے
’’اب تو گویا دروازے سے باہر قدم نکالنے کے لیے بھی سوچنا پڑے گا ..... ‘‘
انھوں نے فکر انگیز لہجے میں کہا
’’ہاں ..... ایسی ہی صورت حال ہوگئی ہے ..... ‘‘
’’کہیں یہ آدم خور گھروں میں نہ گھسنے لگے ..... ؟ !‘‘
میں نے جواب نہیں دیا ..... سوچ میں بھی یہی رہا تھا ..... میں ایسے کئی آدم خوروں کے بارے میں جانتا تھا جو اتنے جری ہوگئے تھے ..... میں نے ایک ایسا چیتا ہلاک کیا جو میرے گاؤں میں موجودہوتے ہوئے ایک گھر میں کود کر ایک بچے کو پکڑ کر لے گیا تھا .....(جاری ہے)
شکار۔۔۔۔۔۔ شہرۂ آفاق مسلمان شکاری کی سنسنی خیز داستان۔۔۔قسط نمبر 25 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں