شکاری۔۔۔ شہرۂ آفاق مسلمان شکاری کی سنسنی خیز داستان... قسط نمبر 23
بات اناؤ میں ٹیکر کے میدان سے شروع ہوئی تھی .....میں نے دیہاتیوں کا لباس زیب تن کیا ..... اور رائفل چھپا کر ساتھ لی ..... لیکن میں کبھی پانچ سو گز کے اندر نہ پہنچ سکا ۔حیرت یہ کہ اس لباس میں رائفل کے بغیر میں ہرنوں کے ایک غول کے قریب گیا..... نجانے کیوں بیل گاڑی سے ان کو خطرہ محسوس نہیں ہوتا.....
بیل گاڑی پر سے فائر بہت دشوار ہوتا ہے ..... بیل اگر رک جائیں تب بھی ان کی سانس لینے کی رفتار کے ساتھ بیل گاڑی اوپر نیچے ہوتی رہتی ہے اور گولی خطا ہوتی ہے ..... میں نے یہ کیا کہ جب بیل گاڑی مناسب رینج میں آگئی، میں گاڑی کے پیچھے رائفل لے کر چپکے سے ایک نشیب میں کود گیا ..... اور بلا فاصلہ نشانہ لے کر ایک کالے کو گرالیا .....
شکاری۔۔۔ شہرۂ آفاق مسلمان شکاری کی سنسنی خیز داستان... قسط نمبر 22 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
ٹیلی سکوپ کا وسیلہ رائج ہو جانے کے بعد فاصلے پر فائر کی دشواری بڑی حد تک آسان ہوگئی ۔میرے ہاتھ میں اس وقت جبکہ بیر کنڈ کے آدم خور کی ہلاکت پیش نظر تھی، تین سو پچھتر ہالینڈ اینڈ ہالینڈ میگنم تھی ..... اس پر ٹیلی سکوپ نہیں تھی ..... اتنے بڑے کیپلر کی رائفل پر جس کو خطر ناک جانوروں کے شکار کے لیے استعمال کرنا ہو ..... بالعموم ٹیلی سکوپ نہیں لگائی جاتی ..... یوں بھی کہہ سکتے ہیں کہ میں ذاتی طور سے اس کا قطعاً مخالف ہوں .....
ٹیلی سکوپ بہت کار آمد چیز ہے ..... ساٹھ ستر گز سے زیادہ فاصلوں کے لیے اس کا استعمال بہت اچھا ہے ..... میری ساری رائفلیں ..... یعنی 30-30تھرٹی اسپرنگفیلڈ اور سیون ایم ایم میگنم پر نہایت عمدہ REDFIELD اور WEAVERکی 12X کی ٹیلی سکوپس لگی ہیں ..... یہ ساری VARIABLEہیں ..... سب ہی دو سو گز کے لیے زیرو کی ہوتی ہیں .....
ٹیلیسکوپ دو مواقع پر قطعاً بیکار ..... بلکہ خطرناک ہے :
۱۔ قریب کا فائر ..... اگر ہدف نزدیک ہے تو ٹیلی سکوپ قطعاً بیکار ..... ٹیلی سکوپ میں کچھ نظر ہی نہیں آتا ..... شیر چیتے یا ریچھ کے شکار میں ایسی صورت حال پیش آجائے تو پھر نہ شکاری باقی رہے نہ اسکوپ .....
۲۔ٍ فوری اورنزدیک کا فائر۔۔۔ ٹیلی سکوپ لگی ہوئی رائفل سے فوری فائر نہیں ہوسکتا ..... ٹیلی سکوپ کے بغیر رائفل تو شانے پر آتے ہیں دید بان اور نشانہ ایک لائن میں لے لیتی ہیں ..... فائر میں دیر نہیں لگتی ..... ٹیلی سکوپ لگی ہوئی رائفل سے یہ سہولت مفقود ہے ..... اس کو شانے پر لا کر نظر کو ٹیلی سکوپ سے گزارنا ہوتا ہے ..... ہدف کو اسکوپ کے وسط میں لانا ہوتا ہے پھر اسکوپ لے کر اس کو ہدف پر جمانا ..... یہ سب کام اگرچہ بہت سرعت سے ہوسکتا ہے لیکن کچھ وقت تو لگتا ہے ..... اور وہی چند ثانیے جو اس کام میں صرف ہوتے ہیں ..... بعض مواقع پر زندگی اور موت کی حد فاصل بنا سکتے ہیں.....
خطرناک شکار کے مواقع اب بھی ہیں ..... افریقہ ..... امریکہ اور ارجنٹینا ..... وغیرہ ..... افریقہ میں ببر کے شکار کے چند لائسنس ہر سال جاری ہوتے ہیں اور اب چونکہ ان کی نسل محفوظ ہوگئی ہے اس لیے آئندہ بھی یہ لائسنس ملتے رہیں گے ..... امریکہ میں تو یہ سلسلہ ہمیشہ رہے گا ..... گرزلی اور سیاہ ریچھ دونوں ہی نہایت خطرناک ہوتے ہیں ..... کینیڈا میں بھی ریچھ بکثرت ہیں .....
غرضیکہ بیر کنڈ کا آدم خور اس نشیب کی گھاٹی میں اترا ضرور تھا لیکن اس کی فطرت نے اس کو پہاڑی کی طرف موڑ دیا ہوگا ..... اگر نہ بھی مڑا ہوتا تب بھی میں گھاٹی میں ہر گز نہ اترتا .....
دائیں جانب کی پہاڑی پر درخت کم تھے اور اوپر کی طرف جانے کی حالت میں مجھے کم از کم تیس چالیس گز کھلی صاف نظر آتی تھی..... میں سیدھا اسی طرف گیا ..... یہ پہاڑی پتھروں اور یتلی مٹی سے بنی تھی ..... بعض مقامات پر بجری پر پیر جمانا مشکل ہوتا تھا۔میں اس پہاڑی کی نزدیکی وادی اور جنگل میں تقریباً ڈھائی گھنٹہ گشت کرتا رہا ..... لیکن شیر کا نشان بھی نہ ملا ..... جب میں گاؤں کی طرف واپس آرہا تھا تو اس سمت سے جدھر شیر گیا تھا بہت دور سے دھاڑنے کی آواز کئی بار آئی ..... یہ تو یقین کے ساتھ نہیں کہا جا سکتا کہ آواز اسی شیر کی تھی لیکن قیاس یہ ضرور کہتا تھا کہ وہی رہا ہوگا ..... اور اگر وہی تھا تو غالباً وہ اس گاؤں کے علاقے سے دور ہوگیا ..... آواز کی کیفیت یہی بتاتی تھی تعجب یہ بھی تھا کہ اتنے وسیع علاقے میں صرف ایک ہی شیر کیسے تھا ..... ؟
شیر کی جولاں گاہ تقریباً بیس مربع میل ہوتی ہے ..... اتنے رقبے میں کوئی دوسرا شیر نہیں آسکتا ..... آدم خور جس وسیع رقبے میں سر گرم عمل تھا وہ اسے رقبے سے بہت زیادہ تھا ..... شیروں کی تعداد کے پیش نظر اس علاقے میں کم از کم تین شیر ہونا چاہیے تھے .....
میں واپس پہنچا تو سہ پہر ہوچکی تھی ..... اور سورج ڈھل رہا تھا .....
’’اب تو خاں رات ادھر ہی گزرے گی ..... ‘‘
عظمت مجھے دیکھ کر بولے ..... میں مسکرادیا .....
’’ معلوم تو ہوتا ہے ..... ‘‘
’’کچھ نظر آیا .....‘‘
’’ نہ ..... ‘‘
ٍ ’’تمہارے جانے کے بعد اب تک سارے گاؤں کے لوگ میرے پیر پکڑ رہے ہیں کہ ہم لوگ وہیں رہ کر شیر کو شکار کر لیں .....‘‘
میں عظمت کی طرف دیکھ ضرور رہا تھا ..... لیکن جواب نہیں دیا .....
شیر کی آواز سننے کے بعد میں یہ سوچ رہ اتھا وہ ظالم اس علاقے سے مایوس ہو کر یقیناًکسی او رسمت نکل گیا ..... اس لیے کہ آواز کا فاصلہ بتاتا تھا کہ وہ دور ہے ..... اور دور ہوتا جا رہا ہے .....
’’کیا خیال ہے خاں ..... ؟ ‘‘ عظمت نے پوچھا
’’میں جب واپس آرہا ہوں اس وقت بہت فاصلے سے شیر کی آواز سنی ..... میں جانتا ہوں وہ یہاں سے مایوس ہو کر کسی اور آبادی کی طرف نکل گیا ہے ..... ممکن ہے ایک دو دن بعد پھر ادھر کا رخ کرے ..... لیکن یہ صرف قیاس ہے ..... ‘‘
’’اپن اس جواب سے کیا سمجھیں خاں ..... ‘‘
’’ یہ سمجھو کہ آج رات تو مجبوراً ہی گزریگی ..... ‘‘
’’اور کل ..... ؟ ‘‘
’’سوچ لیں گے انشاء اللہ ..... ‘‘
گاؤں والوں نے ہمارے قیام کی اطلاع پا کر اطمینان کا سانس لیا ..... ایک چھوٹا سا گھر ہمارے لیے خالی کیا گیا ..... جہاں عظمت خاں اور میں متمکن ہوئے ..... ایک کمرہ کسی نے نزدیک ہی اور مہیا کیا جہاں ہمارے ساتھی بمعہ سامان رہے ..... میں نے ان سب کو اچھی طرح تاکید کر دی کہ آئندہ کوئی مرد ہر گز تنہا باہر نہ نکلے ..... تین چار آدمی مل کر آئیں جائیں ..... کتوں کو ساتھ رکھیں ..... اس لیے کہ دیہات کے کتے خاصے دلیر ہوتے ہیں ..... شیر کی بو پا کر بھاگنے کی بجائے خوب شور مچاتے ہیں ..... عورتوں اور بچوں کے بارے میں ہدایت تھی کہ جب تک ان کے ساتھ کم از کم تین عورتیں اور دو مرد نہ ہوں تب تک گھر سے نکلنے کی جرات نہ کریں .....
(جاری ہے)
شکاری۔۔۔ شہرۂ آفاق مسلمان شکاری کی سنسنی خیز داستان... قسط نمبر 24پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں