شکاری۔۔۔ شہرۂ آفاق مسلمان شکاری کی سنسنی خیز داستان... قسط نمبر 22
اپنی موت کی نہ انسان کو خبر ہوتی ہے نہ جانور کو ..... لیکن جانوروں میں خطرے کی حس یقیناً ہوتی ہے ..... سینکڑوں مرتبہ کا تجربہ ہے کہ سارے جانور شکاری کو شناخت کرلیتے ہیں ..... عام آدمی سے نہ ڈرتے ہیں نہ بھاگتے ہیں .....
بھوپال میں بیرسیہ کے علاقے میں کالا ہرن بہت ہوتا تھا ..... دیہات کے لوگوں سے یہ ہرن کبھی نہیں بھاگتے تھے ..... میری جھلک دیکھتے ہی راہ فرار اختیار کرتے تھے..
اناؤ میں ٹیکر کے میدان میں نہ کسی قسم کی رکاوٹ ہے نہ جھاڑی نہ درخت ..... چٹیل میدان ہے اور ہرن شکار بہت مشکل ..... گاؤں والوں کا بیان تھا کہ ہرن ان کو دیکھ کر کھڑے رہتے ہیں اور اکثر لوگ ہرنوں کے سو پچاس گز کے قریب سے گزرے لیکن ہرن کھڑے رہے اور انھیں دیکھا کئے .....
شکاری۔۔۔ شہرۂ آفاق مسلمان شکاری کی سنسنی خیز داستان... قسط نمبر 21 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
میں نے شکار لباس ترک کر کے تہمد باندھی ..... دیہاتیوں کا شلوکہ یا صدری پہنی ..... پگڑی باندھی اور رائفل بھی چھپائے رکھی لیکن ان ہرنوں نے مجھے تین چار سو گز کے اندر نہ آنے دیا ..... ان دنوں رائفل پر ٹیلیسکوپ کا رواج نہیں تھا .....اور بغیر ٹیلیسکوپ کے چار سو گز پر فائر ہر گزنہیں ہوسکتا ..... گو میں نے تقریباً اسی فاصلے پر کئی بار جانور شکار کیے ہیں .....
فلگنڈے میں ایک پہاڑی کے دامن پر میں اور پیراں حسینی دیر سے خاموشی اور ساکت بیٹھے مناظر کے حسن سے لطف اندوز ہورہے تھے ..... ہر طرف شادابی تھی جو ذرے ذرے سے پھوٹی پڑتی تھی ..... ہم جس پہاڑی کے دامن پر جس جگہ پر بیٹھے وہاں سے کوئی پچاس گز نشیب میں ایک فراخ وادی تھی ..... اس وادی کے عین وسط سے ایک چشمہ بل کھاتا گنگناتا گرزر ہا تھا ..... جابجا چھوٹے بڑے ٹول..... ہوا نہایت خوشگوار تھی ..... اور وادی کے اس پار جو پہاڑی تھی ..... تقریباً چار ساڑھے چار سو گز پر ..... اس کا سارا دامن نہایت حسین و رنگین جنگلی پھولوں سے اس طرح بھرا ہوا تھا جیسے کسی نے پھولوں کی چادر بچھادی ہو .....
پھولوں کی چادر سے یاد آیا کہ ..... اولیاء اللہ واقعی اللہ کے پیارے اور نیک بندے تھے کہ ان کی وفات کے بعد بھی اللہ تعالیٰ سبحانہ ان کی ہر دلعزیزی اور آبرو قائم رکھی ہے .....زندگی میں وہ مرجع خلائق رہے ..... لیکن اس دنیا سے رخصت ہر کر بھی ان کا فیض جاری رہا ..... ان کے مزارات پر بھی اللہ تعالیٰ سبحانہ کی رحمت و عنایت کم نہیں ہوئی ..... میں ہمیشہ جہاں بھی گیا ..... اس شہر میں آکر کسی ولی کا مزار ہو ا تو محض اس خیال سے کہ اس جگہ اللہ تعالیٰ سبحانہ کی رحمت بیشتر ہے ..... ضرور حاضری دی ..... فاتحہ پڑھی ..... ذرا دیر وہاں بیٹھا ..... یا موجود رہا ..... ہندوستان اور پاکستان کے شہروں میں بے شمار مزارات ہیں جہاں اللہ کے محبوب بندے محو خواب ہیں ..... میں جن جگہوں پر گیا ..... ان کا تذکرہ دلچسپی سے خالی نہیں .....
حضرت شیریںؒ رقم بھوپال ..... شیخ صابرؒ کلیر ..... شاہ شرف الدین کچھ چھہ ..... شیخ احمد مجدد الف ثانی سر ہند ..... حضرت نظام الدین اولیا ء ..... دہلی ..... حضرت ضیاء الدین حسن اناؤ ..... شاہ مینا لکھنوء ..... حضرت وارث علی شاہ ‘ بارہ بنکی ‘ حضرت معین الدینؒ اجمیر ..... داتا گنج بخش لاہور ..... میراں سید محمد شاہ ؒ نقوی بخاری موج دریا ‘ لاہور ..... میراں کبیرؒ لاہور ..... شیخ زکریا ملتانی ‘ ملتان ..... شمس تبریز ‘ ملتان فریدؒ گنج شکر‘ پاک پتن ..... حضرت جلال الدین جہانیاںؒ جہانگشت ‘ اچ شریف ..... شیخ بہاؤ الحق ملتان!
ایران میں امام رضاؒ کے علاوہ بے شمار امام زادگان کے مقابر ہیں ..... میں جہاں پہنچ سکا ضرور گیا اس کے علاوہ شیخ با یزید بسطامیؒ اور شیخ نور الحسنؒ خرقانی کے مزارات پر بھی گیا ..... امام غزالیؒ کے مزار پر بھی حاضری دی ..... یہ تو وہ ہیں جوفی الفور ذہن میں آتے ہیں ..... ترکی اور عراق کا ذکر بھی کرنا چاہیے.....
بات پھولوں کی چادر کی تھی ..... میں جس مزار پر بھی حاضر ہوا ..... وہاں پھولوں کی چادر ضرور موجود پائی ..... سعودی عرب کے علاوہ ..... وہاں تو قبروں کے نشانات مٹا دینے کا رواج ہے .....ورنہ سارے مشرق وسطیٰ کے ممالک میں جہاں بھی بزرگان دین کے مزارات ہیں سب تزک و احتشام کا نمونہ ہیں ..... اور ہر مزار پر پھولوں کی چادر ..... اور پھول بھی تازہ اور خوشبو سے معطر .....! میں نے کبھی کسی مزار پر مرجھائے ہوئے پھول نہیں دیکھے ..... غالباً عقیدت مند یا مجا ور اس کا بہت خیال رکھتے ہیں ..... !
غرضیکہ میں جس پہاڑی کے دامن کا تذکرہ کر رہا ہوں وہ رنگین پھولوں کے چادر سے دھکی ہوئی تھی ..... اور ہم ان کے دلکش اور دلفریب رنگوں میں نجانے کب سے محو تھے ..... ہوا کا جھونکا ان سے اٹھکھیلیاں کرتا گزرتا تو ایسا معلوم ہوتا جیسے سطح آب پر ایک موج رقصاں ہوگئی ہو .....
ابھی ہم دیکھ ہی رہے تھے کہ چیتلوں کا ایک مند اس پھولوں کی چادر کے قریب سے گزرا ..... پیراں حسینی کو ان کے ساتھ چلتا ہوا نر بہت پسند آیا ..... واقعی اس کے سینگ اچھے تھے کہنے لگے ..... اس کو مار ہی دو .....
فاصلہ تقریباً چار سو گز ..... میرے ہاتھ میں تھرٹی اسپرنگ فیلڈ تھی ..... ڈیڑھ سو گرین کی گولیوں کے کارتوس لگے تھے ..... میں نے کہا بھی کہ فاصلہ بہت ہے ..... لیکن انھوں نے کہا کوشش کرنے میں کیا مضائقہ ہے ..... میں نے کہنی گھٹنے پر لگائی اور نشانہ لیا ..... بہت تامل اور احتیاط سے فائر کیا ..... اور ذرا اونچا نشانہ لیا چیتل ایک لمحہ کو جھٹکا ..... ساری چیتل ایک طرف بھاگے لیکن وہ رخ بدل کر آہستہ چلتا ہوا دوسری طرف گیا اور نظر سے اوجھل ہوگیا .....
’’اس کو گولی لگی ہے ..... ‘‘
’’پیراں معلوم تو ہوتا ہے ..... ‘‘
’’چلو دیکھتے ہیں ..... ‘‘
ہم دونوں تیز قدم اس پہاڑی سے اترے وادی سے گزرے اور دوسری پہاڑی پر چڑھے ..... جس طرف چیتل گیا تھا ان جھاڑیوں پر خون کے نشانات تھے ..... اور زیادہ دور نہیں گئے تھے کہ ایک جگہ چیتل بیٹھا نظر آیا ..... اس کے سینے کے کنارے سے خون بہہ رہا تھا ..... ہمیں دیکھ کر اس نے اٹھنے کی کوشش کی لیکن اب خون اتنا بہہ گیا ہوگا کہ اعضاء نے جواب دے دیا ..... میں نے کمر کی بلٹ سے چھرا نکالا ..... پیراں نے اس کوگرایا اور میں نے اس کو بسم اللہ اللہ اکبر پڑھتے ہوئے خبت کی خاک بنا دیا ..... اس کے سینگ واقعی اچھے ثابت ہوئے .....(جاری ہے )
شکاری۔۔۔ شہرۂ آفاق مسلمان شکاری کی سنسنی خیز داستان... قسط نمبر 23 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں