شکاری۔۔۔ شہرۂ آفاق مسلمان شکاری کی سنسنی خیز داستان... قسط نمبر 21
صبح فجر کی نماز ہم دونوں نے باجماعت پڑھی ..... عظمت خاں نے امامت کی ..... میں اور ان کے تین ملازم مقتدی تھے ..... نماز کے بعدہی ناشتہ لگا دیا گیا ..... اور ہم چھ بجے کے قریب دو بیل گاڑیوں اور تین ملازمین کے ساتھ بیر کنڈ کے لیے روانہ ہوگئے..... سردیوں کا آغاز تھا ..... نومبر کا مہینہ ..... صبح خاصی سرد تھی ..... ہم لوگ گرم کپڑے پہنے تھے .....
شکاری۔۔۔ شہرۂ آفاق مسلمان شکاری کی سنسنی خیز داستان... قسط نمبر 20 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
عظمت خاں کے تین جوڑی بیل بہت قدر آور اور تیز رفتار تھے ..... ہم لوگ دوپہر سے پہلے ہی گبھا پہنچ گئے جو بلھار شا سے سولہ میل اور بیر کنڈ سے چھ میل پر ہے ..... یہاں گویا مختصر قیام یا BREAK JOURNEY کا منصوبہ تھا ..... بیلوں کو بھی آرام کرنا تھا..... گُبھا ..... سات گھروں کی زرعی آبادی ہے ..... سب ہی کسان ہیں ..... ہمیں کسی کے گھر جانے یا رکنے کی ضرورت نہیں ہوئی..... لیکن عظمت میاں کا نام یہاں بھی اجنبی نہیں تھا .....
گاؤں کے کنویں کے پاس ہماری گاڑیاں رکیں ..... بیل کھول دیئے گئے اور گھاس کی طرف باندھے تاکہ چارا کھا سکیں ..... پانی کا انتظام بھی کردیا گیا .....
ہم لوگ گاڑیوں س اتر کر کنویں کے نزدیک ایک صاف جگہ بیٹھے ..... یہاں ہاتھ منھ دھو کر تازہ دم ہوئے ذرا دیر میں دستر خوان لگایا گیا ..... اور ہم نے دوپہر کا کھانا کھالیا ..... ذرا دیر ادھر ادھر ٹہل کر ٹانگیں سیدھی کیں ..... میں نے دوچار فوٹولیے ..... اس کے بعد میں بیٹھا ہی تھا کہ عظمت میاں اور ایک گاؤں والا معمر آدمی میرے پاس آگئے .....عظمت خاں کسی قدر متفکر تھے .....ساتھی ان کا ایک ملازم بھی تھا .....
’’لوخاں ..... بات تو یہیں سے ہوگئی ہے گی..... ‘‘
’’کیا مطلب ..... ؟ ‘‘ میں نے پوچھا
گاؤں والے نے ہاتھ جوڑ کر اور ذرا جھک کر مجھے سلام کیا .....
’’یہ بھیل ہے گا ..... ‘‘ عظمت بولے’’ صرف کنٹری ہی بولتا ہیگا ..... ‘‘
یہ بھیل نے نہایت تیز زبان کنٹری میں اپنا بیان شروع کر دیا جس کا ایک لفظ میرے پلے نہیں پڑا ..... اور مجھے یقین تھا کہ عظمت میاں بھی کنٹری نہیں سمجھتے ..... ان کا ملازم اسی لیے ساتھ تھا کہ وہ بھیل کے بیان کر ترجمہ کر کے ہمیں بتائے .....
جب بیان نے طویل پکڑا تو میں نے ہاتھ کے اشارے سے اس کو روکا ..... اور وہ ایسے یکبارگی چپ ہوگیا جیسے کسی چلتی ہوئی ٹیپ کو روک دیا گیا ہو .....
’’یہ کیا کہنا چاہتا ہے ..... ؟ ‘‘ میں نے پوچھا
عظمت میاں نے اپنے ملازم کو اشارا کیا .....
’’سرکار ..... اس نے کل یہاں سے دو میل (بیر کنڈ کی طرف ) پر نہار دیکھا سرکار ..... بہت بڑا کلچھوں والا نہار ہے ..... اور اس سے دو دن پہلے وہ نہار ایک چرواہے کے پیچھے بھی آچکا ہے ..... بیر کنڈ سے آنے والے تین آدمیوں کے پیچھے پیچھے بھی وہ نہار آیا ..... شاید یہ وہی آدم خور ہے ..... جو اتنے کھا چکا ہے ..... یہ پہلے کبھی ادھر نہیں آیا تھا ..... ‘‘
یہ تھی ساری داستان.....
میں اب اس سوچ میں تھا کہ بیر کنڈ جانا چاہیے یا گبھا میں ہی ٹھہر کر اس آدم خور سے مقابلہ کرنا چاہیے .....
’’ کیا خیال ہے گا خاں ..... ‘‘عظمت میاں نے پوچھا .....
’’ ہوں ..... ‘‘ میں سوچنے ہوئے بولا ..... ’’ بات یہ ہے اجو میاں صاحب کہ ..... سوچنے کی بات ہے ..... ‘‘
’’کیا ..... ؟ ‘‘
’’ غالباً اس آدم خور نے اپنی آماجگاہ کا دائرہ وسیع کر دیا ہے .....یا ..... بیر کنڈ والے اتنے محتاط ہوگئے ہیں کہ وہاں سے اسے کچھ نہیں ملا تو اس نے گبھا کا رُخ کیا ہے ..... ‘‘
عظمت میاں بھی سوچ میں پڑ گئے .....
گاؤں والا ذرا دیر کھڑا ہم کو دیکھتا رہا..... پھر وہیں اکڑوں بیٹھ گیا ..... ایسا معلوم ہوتا تھا جیسے وہ منتظر ہو کہ ہم اس کو شیر کو ہلاک کرنے کے ارادے سے آگاہ کریں گے ..... یا اپنی سوچ میں شامل کریں گے ..... !
گاؤں والے ..... خواہ گاؤں بڑا ہو یا چھوٹا ..... شیر کی آدم خوری سے جتنے بھی خوفزدہ ہوں وہ تعجب خیز نہیں ..... اس لیے کہ ان بیچاروں کے پاس اس سے نجات کا کوئی انتظام نہیں ہوتا ..... اور ہر فرد بشر کی جان خطرے میں ہوتی ہے ..... جو شخص گھر سے نکلتا ہے وہ یہ سمجھتا ہے کہ آج شیر کا لقمہ بنایا کل ..... ! ..... ہم لوگوں کی آمد تو ان کے لیے نعمت تھی ..... ابھی ہم لوگ سوچ ہی رہے تھے کہ گاؤں کے دوسرے جانب سے ایک شور اٹھا ..... کچھ خوفزہ کچھ پر جوش ..... فوراً ہی ’’ نہار نہار ‘‘ ..... کتوں کے بھونکنے کی آوازیں ..... !
اب معاملہ صاف تھا ..... !
میں نے لپک کر گاڑی سے ٹکی ہوئی تین سوپچھتر میگنم اٹھائی ..... بولٹ چڑھا ا کر کارتوس چیمبر میں لگایا اور تیز قدم ادھر چلا ..... دو گھروں سے گزرتے ہی دوسری طرف کا منظر سامنے تھا ..... ایک کھیت کے کنارے کوئی سوگز پر چار پانچ مرد اور عورتیں اور چندکتے ..... باہمی تعاون کے ساتھ شور کر رہے تھے ..... میں جو ادھر چلا تو گویا ایک ہجوم میرے ساتھ ہوگیا ..... جو لوگ شور کر رہے تھے انہوں نے اس جلوس کے ساتھ مجھے آتے دیکھ کر ادھر کا رُخ کیا ..... اور ایک نقطے پر نزدیک آگیا ..... ان میں سے کئی لوگ ٹوٹی پھوٹی اردو بول لیتے تھے ..... اور ہر شخص نے بہ یک وقت ہی سب کچھ مجھے بتادینے کی کوشش کی .....
ایسے موقعوں پر جوش کے عالم میں ایسا ہی ہوتا ہے ... میں نے ان سب کو چپ ہونے کی ہدایت کی ..... پھر ایک شخص کی طرف اشارا کر کے پوچھا کہ معاملہ کیا ہے .....
’’نہار سرکار ..... نہار ..... یہ بڑا ..... ‘‘ اس نے دونوں ہاتھوں کو جسقدر ہو سکتا تھا اتنا پھیلا کر بتایا ..... ‘‘ ہم پر ہی گھات لگائے تھا ..... وہ توہم نے دیکھ لیا .....‘‘
میں شکار کے ہی لاب میں تھا ..... رائفل ہاتھ میں ..... دیر کی گنجائش نہیں تھی ..... میں نے عظمت میاں سے کہا ..... ’’ آج تو یہی رات گزاردیں گے ..... میں ایک چکر لگا کر آتا ہوں ..... خدا حافظ ‘‘
میں جو چلا تو چار پانچ جوان ساتھ ہو لیے ..... میں رک گیا .....
’’ تم لوگ سب واپس جاؤ..... ‘‘ میں نے کہا
اور وہ نہایت مایوسانہ انداز سے رک گئے .....
کوئی دو سوگز پر جہاں کھیت ختم ہوتا تھا ..... درختوں اور جھاڑیوں کا سلسلہ شروع ہوجاتا ہے ..... اور ذرا ہی دور پر دو پہاڑیوں کے درمیان نشیب میں وادی ہے جو گھاس جھاڑیوں اور درختوں سے بھری ہے .....
کھیت کے کنارے ایک جھاڑی کے پیچھے جہاں ان لوگوں نے نشاندہی کی تھی میں نے نرم مٹی پر شیر کے نشانات دیکھ لیے ..... اور اس کے پنجے کے نشان ..... ماگھ ..... سے اندازہ ہوتا تھا ..... بڑا شیر ہے ..... گاؤں کے بعض ماہر ماگھ کو دیکھ کر شیر کی جنس ‘ عمر اور جسامت کا قیاس کر لیتے ہیں ..... ! میں نر اور مادہ کے ماگھ میں تمیز کر سکتا ہوں ..... جو ماگھ میں دیکھ رہا تھا وہ نہایت جسیم اور تنو مند نرشیر کا ماگھ تھا .....
چند قدم کے فاصلے پر ایک اور جھاڑی کی آڑ میں شیر کے ماگھ اور بیٹھے رہنے کے نشانات تھے ‘ میرا خیال تھا کہ شیر اس جگہ ساری صبح بیٹھا رہا اور سامنے ہی سو ڈیڑھ سو گز پر تین کسان جو زمین میں کام کر رہے تھے اس کا ہدف تھے ..... اس کو صرف یہ انتظار رہا ہوگا کہ ان میں سے کوئی تنہا ادھر ادھر ہو تو وہ اپنا کام دکھائے ..... لیکن وہ تینوں اتفاقاً کسی ضرورت سے بھی ایک دوسرے سے علیحدہ نہیں ہوئے یا شاید ان کو ضرورت پیش ہی نہیں آئی .....
وہ تو شیر کو دیکھ ہی نہیں سکتے تھے ..... اتفاقاً ایک کتا شیر کی بو سونگھ کر بھونکنے لگا اور غالباً اس کے بھونکنے سے شیر نے اپنی جگہ تبدیل کی..... اس تبدیلی کے دوران دوسرے کتوں نے اور ان تینوں نے شیر کی جھلک دیکھ لی .....
شیر کی واپسی کے نشانات دو ایک جگہ پر ملے ..... ان سے اندازہ ہوتا تھا کہ شیر کو فرار کا خیال نہیں تھا ..... وہ نہایت سکوت اور سکون کے ساتھ واپس ہوا ..... اور سیدھا اس گھنی نشیبی گھاس میں داخل ہوگیا جس کا میں تذکرہ کر چکا ہوں ..... میں آدم خوروں کی اہلیتوں ’ چالاکیوں اور حرکات سے خوب واقف ہوں ..... اور مجھے خوب اندازہ ہوتاتھا کہ وہ موذی گھاٹی میں جانے کے بعد سیدھا تو ہر گز نہیں گیا ہوگا ..... یہ تو آدم خورشیروں کی جبلت کے ہی خلاف تھا ..... اور آدم خور ھی وہ جو دو سال سے انسانوں کے خلاف اعلانِ جنگ کئے ان کو قید ہستی سے نجات دے رہا تھا ..... مجھے یقین تھا کہ وہ اس علاقے سے نہیں جائے گا غالباً اس کو انسانی گوشت کی طلب تھی ..... اور گھاس میں اس کو شکار ملنے کے امکانات روشن نظر آرہے ہوں گے ..... (جاری ہے )
شکاری۔۔۔ شہرۂ آفاق مسلمان شکاری کی سنسنی خیز داستان... قسط نمبر 22 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں