دلائی ٹارچر کیمپ سے گونجتی بے بس جمہوریت کی چیخیں (۱)

دلائی ٹارچر کیمپ سے گونجتی بے بس جمہوریت کی چیخیں (۱)
دلائی ٹارچر کیمپ سے گونجتی بے بس جمہوریت کی چیخیں (۱)

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

زرداری صاحب کا یہ مقولہ زبان زد عام ہے ” جمہوریت بہترین انتقام ہے“بی بی بے نظیر بھی یہی کہا کرتی تھیں ، زرداری صاحب نے اسکو اپنا ایمان بناکر اسکا پرچار کیا ہے۔   لیکن تاریخ پیپلز پارٹی کی جمہوریت کے حقیقی فلسفہ کو نہیں بھول پائی ۔ پاکستان ایسے سماج میں جمہوریت کا انتقام زہریلی ناگن سے بھی زیادہ پُر اثر اور مہیب ثابت ہوا ہے ۔ ان کے سسر پاکستان کے سابق وزیر اعظم ذوالفقارعلی بھٹو نے شرارجمہوریت سے سیاست کی اخلاقیات کو جلاکر خاکستر کردیاتھا،غریب کو زبان دینے کے نام پر بدتمیزاور قانون شکن بنادیاتھا۔آزادی اظہار کا نعرہ لگایا مگر خود ہر اسکی زبان سلب کرلی جس نے انکے خیالات سے مہذبانہ طور پر بھی اختلا ف کیا ۔پارٹی کے ابتدائی دنوں سے ان کے رفیق کار بھی انکے انتقام سے نہ بچ پائے تھے۔محمد حنیف رامے جیسا متین اور شریف النفس ساتھی بھی انکے بدترین انتقام کا نشانہ بنا،سیاست ،ادب، صحافت سے وابستہ کوئی بھی نفیس اور حق گو ان کی فسطایت سے نہ بچ پایا تھا ۔

شاہی قلعہ سے دلائی کیمپ تک ابھی  بھی جمہوریت  کے انتقام  کی چیخیں سنائی دیتی ہیں۔ بھلے سے بھٹو مرحوم کی خدمات جلیلہ کو سراہ لیں لیکن انہیں پھانسی پر چڑھائے جانے میں ایسے ہوشربا جرائم موجود تھے جن سے تاریخ کے صفحات ابھی تک خون تھوک رہے ہیں ۔بھٹو کی جرات و لیاقت خود ان کے پھندہ بن گئی ،انکی ذہانت نے لیاقت کی بجائے بہمیت کا راستہ اختیار کیاتھا جس کا سب سے بڑا ثبوت ایف ایس ایف جیسا گسٹاپو ادارہ تھا ۔فیڈرل سکیورٹی فورس کے نام سے 1972میں بنائے جانے والے ادارے پر ان کا ایمان استوار تھا ،فوج ،ملٹری انٹیلی جنس ،پولیس اور سی آئی ڈی سمیت دیگر حفاظتی ادارے ایف ایس ایف پر ترجیحاً نظر انداز کئے جاتے تھے ۔وہ اپنی سکیورٹی کے لئے ایف ایس ایف کو فوقیت دیتے تھے ۔ تاریخ کے اوراق کھنگالتے ہوئے ایک ہیڈ کانسٹیبل رشید الدین کی سلگتی کہانی ہاتھ لگی ہے ،جس نے مجھے بھٹوازم اور فاشزم کی ایک جھلک دکھائی ہے ،یہ اسکی بنائی فورس کا وہ بھیانک چہرہ ہے جس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر آپ بھٹو کی دی گئی جمہوریت کا چہرہ دیکھ سکتے ہیں ۔زرداری صاحب کے مقولے کی اصل روح کو دیکھنا ہوتو بھٹو ازم کی اس کتاب کو پڑھ کر دیکھئے جسے دنیا گسٹاپو فورس کہتی رہی ہے۔میں ذاتی طور پر کوئی کمنٹ کئے بغیر ایف ایس ایف کے ہیڈکانسٹبیل بشیر الدین کی کہانی آپ کے سامنے رکھنا چاہتا ہوں ،اس پر پرانے قلم کار قلم اٹھا چکے ہیں ،لیکن سوشل میڈیا کی وساطت سے یہ میرے ہاتھ ا ب لگی ہے ، ان کے بیٹے نصیر الدین جو کہ انجینئر ہیں اور جرمنی میں مقیم ہیں ،انہوں نے اپنے ابا سے سن کر اسکو لکھا تھا ،وہ کیا لکھتے ہیں ،ذرا دل تھام کرپڑھئے ۔نصیر الدین لکھتے ہیں ۔

  ” یہ میرے ابا رشید الدین اور فیڈرل سیکیورٹی فورس (ایف ایس ایف ) کی کہانی ہے۔گسٹاپو سٹائل کی یہ فورس وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو نے 1972کے آخر میں بنائی تھی ۔ اس کہانی کی شروعات 1973ءمیں اس وقت ہوتی ہیں جب ایف ایس ایف نے بھرتیوں کا آغاز کیا ۔ ایف ایس ایف کے قیام کا مقصد سول ایڈمنسٹریشن کے ساتھ تعاون کرنا تھا تاکہ ایف ایس ایف کو فوج کی مدد کے بغیر پولیس کے ساتھ ملک کر سول ایڈمنسڑیشن کا ساتھ دےنے اور امن عامہ کو بحال رکھنے میں مدد حاصل ہوسکے ۔ تاہم یہ بات وثوق سے کہی جاسکتی ہے کہ بھٹو نے جس مقصد کے لئے اس ادارہ کو بنایا تھا اس میں انکے اپنے سیاسی مفادات کارفرما تھے ۔ جب ایف ایس ایف میں بھرتیوں کا آغاز ہوا تو اسکے نمائندے ہر گاوں اور قصبے میں جاتے اورکہتے ”تعلیم کوئی مسئلہ نہیں ،ہمیں جوان ،پرعزم اور قدآور نوجوان بھرتی کرنے ہیں“میرے ابا نے بھی یہ جانے بغیر کہ اس فورس کے اصل مقاصد کیا ہیں انہوں نے بھی ایف ایس ایف کا فارم بھر دیا اور اگلے ہی ہفتے انکی تربیت کا عمل شروع ہوگیا ۔یہ تربیت انتہائی سخت تھی،جس کی وجہ سے کئی لوگوں کو نکال بھی دیا اور نہ جانے وہ کہاں گئے،معلوم نہیں۔

 ابا نے کامیابی سے روہڑی سندھ میں اپنی تربیت مکمل کی ۔انہیں ہیڈ کانسٹیبل کے طور پر بھرتی کرلیا گیا اور تربیت کے بعد انہیں لاہور ہیڈ کوارٹر بھیج دیا گیا ۔تاہم جلد ہی انہیں اپنے انسپکٹر اور تیس سپاہیوں کے ساتھ مظفر آباد آزاد کشمیر بھیج دیا گیا ۔ابا کو قطعی معلوم نہیں تھا انہیں اس جگہ کس کام کے لئے بھیجا گیا ہے اور انکے فرائض کیا ہیں ۔ یہ کوئی بھی نہیں جانتا تھا ۔انہیں ایک ماہ تک اسی کیمپ میں ٹھہرایا گیا اور پھر اچانک ایک دن آدھی رات کے وقت سی آئی ڈی کے افسرہر سپاہی اور افسر کے پاس گئے اور انہیں فوری اسلحہ اکٹھا کرنے اور وردی پہن کر کاروں میں بیٹھنے کا حکم دیا ۔ سی آئی ڈی ایف ایس ایف کے ساتھ مل کر کام کرتی تھی۔انہیں مظفر آباد سے دلائی کیمپ لے جایا گیا ۔
دلائی کیمپ دلائی کی پہاڑیوں سے ذرا ہٹ کر سڑک سے دور انتہائی خفیہ اورمحفوظ ترین جگہ پر واقع تھا۔اسکو دہشت کی آماجگاہ کہا جاتا تھا جہاں ذوالفقارعلی بھٹو کے مخالفین کو لاکر بے پناہ تشددسے دوچار کیا جاتا اور انہیں قتل بھی کردیا جاتا تھا ۔
ابا اور انکے سپاہیوں نے اگلے حکم کے انتظار میں رات وہیں بسر کی ،اگلی صبح انہیں بتایا گیا کہ دلا ئی کیمپ میں ملک کے نامور سیاستدان ،وزرا اور انکے سپورٹرز کو ایک گاڑی میں لاد کر لایا جارہا ہے ،یہ تیس لوگ تھے جنہیں ایف ایس ایف نے پکڑا تھا ۔ایف ایس ایف اور سی آئی ڈی کے افسروں نے میرے ابا اور انکے ساتھیوں سے کہا کہ ان تیس لوگوں کو ٹارچر سیل میں الگ الگ کمروں میں بند کرکے ان پر لگاتار تشدد کیا جائے۔یہ سنتے ہی میرے ابا نے تشدد کرنے سے انکار کردیا ۔وہ ان کے ٹارچر سیلوں میں جاتے اور انہیں تشدد سے بچانے کی کوشش کرتے ۔اس دوران ابا نے ان قیدیوں سے بات چیت شروع کرکے ان کی کہانیاں سننی شروع کردیں تاکہ معلوم ہوسکے کہ ملک کے اس قدر نمایاں اور معتبر لوگوں کو کس جرم میں بدنام زمانہ دلائی کیمپ میں لاکر تشدد کا نشانہ بنایا جارہا ہے (جاری ہے )

۔۔

یہ بلاگرکا ذاتی نقطہ نظر ہے جس سے ادارہ کا  متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

مزید :

بلاگ -