وکلاء سیاسی پارٹیوں کے نمائندے بن کر اپنی حیثیت کمزور کر لیتے ہیں، قانون کے پیشہ سے وابستہ افراد کو صرف کالے کوٹ میں ہی امتیاز پیدا کرنا چاہیے

 وکلاء سیاسی پارٹیوں کے نمائندے بن کر اپنی حیثیت کمزور کر لیتے ہیں، قانون کے ...
 وکلاء سیاسی پارٹیوں کے نمائندے بن کر اپنی حیثیت کمزور کر لیتے ہیں، قانون کے پیشہ سے وابستہ افراد کو صرف کالے کوٹ میں ہی امتیاز پیدا کرنا چاہیے

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

مصنف:جسٹس (ر) بشیر اے مجاہد 
 قسط:42
ہماری انتخابی مہم کافی مشکل تھی کیونکہ بار ایسوسی ایشن کی صدارت کے امیدوار راجہ افراسیاب کا تعلق مسلم لیگ سے تھا جبکہ مخالف اُمیدوار سید افضل حیدر تھے۔ ایم آر ڈی کی چند جماعتیں اُنہیں سپورٹ کر رہی تھیں۔ میں اکیلا ووٹرز کی نظر میں دائیں بازو کا امیدوار تھا۔میری پوزیشن سیاسی نہیں صرف پیشہ ور وکیل کی تھی جسے وکلاء کی اکثریت پسند کرتی ہے۔ وکلاء سیاسی پارٹیوں کے نمائندے بن کر اپنی حیثیت کمزور کر لیتے ہیں۔ قانون کے پیشہ سے وابستہ افراد کو صرف کالے کوٹ میں ہی امتیاز پیدا کرنا چاہئے اور یہی بات میرے کام آئی۔ مقابلہ بہت سخت تھا۔ اللہ کا شکر ہے کہ کامیابی میرے حصہ میں آئی۔ چونکہ اس دوران ملک کے سیاسی حالات کی وجہ سے اپوزیشن کی تمام جماعتیں ایم آر ڈی کی صورت میں اکٹھی ہو چکی تھیں اور پیپلز پارٹی کے ساتھ تھیں۔ مخالفت جنرل ضیاء الحق کی تھی۔ مارشل لاء کی وجہ سے سیاسی سرگرمیاں صرف بار کے پلیٹ فارم تک محدود ہو گئی تھیں۔ اس دوران انہوں نے بھوک ہڑتال اور گرفتاریاں دینا بھی شروع کر دیں۔ لاہور میں سیاسی رہنما دو دو کے گروپ میں اور کبھی زیادہ بھی گلے میں ہار پہن کر گرفتاری پیش کرتے اور اُنہیں گرفتار کر کے جیل بھیج دیا جاتا۔ بار میں بھوک ہڑتال کا سلسلہ بھی جاری تھا۔ ایک روز کچھ سیاسی رہنما میرے پاس بھی آئے اور انہوں نے مجھے پیش کش کی کہ میں بھی (بار کے جنرل سیکرٹری کی حیثیت سے) گرفتاری پیش کر دوں، ملک محمد قاسم جو کہ ایم آر ڈی کے سیکرٹری جنرل ہیں آپ کے ساتھ گرفتاری دیں گے۔ میں نے فیصلہ کرنے کے لئے کچھ وقت مانگا تو مجھے محسوس ہوا کہ تمام سیاست دان بھی ذاتی عزائم کی خاطر سیاست کر رہے ہیں۔ خاص طور پر بھوک ہڑتال کا سلسلہ ختم ہونے میں ہی نہیں آ رہا تھا کیونکہ ہر روز اخبارات میں خبریں اور تصویریں چھپتی تھیں۔ ہر ایک سیاسی لیڈر اور کارکن اپنی اپنی کارروائی بھی ڈال رہا تھا۔ میں چونکہ کسی سیاسی پارٹی کا متحرک رُکن یا عہدیدار نہیں تھا اس لئے میں نے چند دوستوں اور اپنی بیگم صاحبہ کے مشورہ کے بعد فیصلہ کیا کہ چونکہ میرے کوئی سیاسی عزائم نہیں اور کسی پارٹی کا میں عہدیدار بھی نہیں تھا اور خاندان کا واحد کفیل بھی میں تھا اگر میں جیل چلا جاؤں تو گھر میں سبزی لانے والا بھی کوئی نہیں تھا اس بات کا مجھے پہلے سے تجربہ ہو چکا تھا۔ سید افضل حیدر جو ہماری بار کے صدر تھے گرفتار ہو گئے تو کسی سیاسی لیڈر نے اُن کے گھر کی خبر تک نہ لی اور نہ ہی اُن کے گھر والوں سے کبھی کوئی رابطہ کرنا مناسب خیال کیا۔ لہٰذا مجھے اس یقین پر کہ سیاسی آدمی کا اپنا سیاسی ایجنڈا ہوتا ہے جس کو وہ خود سمجھتے ہیں اور کسی کو کسی دوسرے سے کوئی خاص ہمدردی نہیں اس لئے میں نے گرفتاری دینے سے معذرت کر لی۔ اس سلسلہ میں مناسب ہو گا کہ میں یہ بھی بیان کر دوں کہ ہمارے ایک بہت اچھے دوست خالد لطیف کاردار تھے جو کہ لاہور کے ایک حلقہ سے پی پی پی کے ٹکٹ پر ایم این اے منتخب ہوئے تھے انہوں نے بھی گرفتاری دی اور چھ ماہ سے زیادہ عرصہ جیل میں رہے۔ وہ یونیورسٹی لاء کالج کے جز وقتی لیکچرار اور میرے ساتھی تھے۔ جب وہ جیل سے رہا ہوئے تو نہ صرف اُن کی وکالت نہ ہونے کے برابر رہ گئی بلکہ یونیورسٹی لاء کالج سے بھی اُنہیں نکال دیا گیا اور ایسے حالات میں وہ کچھ عرصہ کے بعد وفات پا گئے۔
میں نے بطور سیکرٹری جنرل لاہور ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن آل پاکستان لائرز کنونشن طلب کیا۔ پاکستان کے تمام صوبوں اور تمام شہروں مع آزاد کشمیر وکلاء کی بھرپور اکثریت نے اس کنونشن میں شرکت کی۔ کنونشن کے بعد وکلاء نے جلوس نکالا جس میں کافی وکلاء گرفتار بھی ہوئے۔ ہائی کورٹ کے گیٹ پولیس نے بند کر دیئے تھے۔ ہم ہائی کورٹ کے اندر ہی مقید رہے۔ گیٹ پر سے پولیس نے لاٹھی چارج کیا جس میں میرے ہاتھ کی انگلی لاٹھی لگنے سے زخمی ہوئی اور میری قیمتی گھڑی بھی ٹوٹ کر گم ہو گئی۔ کئی ایک اس سے قبل ہی گرفتاریاں دے چکے تھے۔ لہٰذا ہم نے گرفتار وکلاء کی فلاح و بہبود کے لئے بہت سی کاوشیں کیں۔ گرفتار وکلاء میں سے جو لوگ مالی طور پر کمزور تھے، اُن کی فیملیز کے لئے فنڈ اکٹھا کیا۔ حسب ضرورت تمام خاندانوں کی مدد کرتے رہے اور عدالتوں میں اُن کی رہائی کے لئے بھی کوشاں رہے۔(جاری ہے)
نوٹ: یہ کتاب ”بک ہوم“ نے شائع کی ہے (جملہ حقوق محفوط ہیں)ادارے کا مصنف کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مزید :

ادب وثقافت -