فلمی و ادابی شخصیات کے سکینڈلز...قسط نمبر 290

فلمی و ادابی شخصیات کے سکینڈلز...قسط نمبر 290
فلمی و ادابی شخصیات کے سکینڈلز...قسط نمبر 290

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

’’کنیز‘‘ کی نمائش کے بعد ہم نے کچھ دن آرام کیا۔ یعنی مری‘ اسلام آباد‘ کراچی کی سیر و سیاحت کرتے رہے۔ فلم نے ہمیں ذہنی اور جسمانی طور پر کافی تھکا دیا تھا۔ یوں بھی ہم اس قسم کے کاموں میں کاہل واقع ہوئے ہیں۔ ہر کوئی پوچھتا تھا کہ اگلی فلم کب شروع کریں گے تو ہم کوئی معقول جواب دے کر ٹال دیتے تھے۔ کئی مہینے گزر گئے تو ایک دن طارق صاحب نے بھی ہم سے کہا ’’آفاقی صاحب‘ اگلی فلم کی کہانی تو سوچیں۔‘‘
ہم نے کہا ’’سوچ رہے ہیں‘‘۔
اس سوچ بچار کے درمیان ہم دوسری دلچسپیوں میں بھی مصروف رہے۔ گورنمنٹ کالج میں کلاسیکی عالمی فلموں کا میلہ ہوا تو وہاں باقاعدگی سے جاتے رہے۔ امریکی محکمہ اطلاعات کی لائبریری میں جا کر یادگار پرانی فلموں کے سکرین پلے پڑھتے رہے۔ مال روڈ اور اس پر واقع روایتی ریستورانوں کی محفلوں میں شریک ہوتے رہے۔ دوستوں کے گھروں اور دفتروں کے علاوہ نگار خانوں میں بھی باقاعدگی سے حاضری دیتے رہے۔

فلمی و ادابی شخصیات کے سکینڈلز...قسط نمبر 289  پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
یہ 60ء کی دہائی کا زمانہ تھا۔ اس زمانے میں دنیا بھر میں حقیقت پسند اور زندگی سے قریب فلموں کا دور شروع ہو چکا تھا۔ اٹلی میں ’’بائیسکل تھیف‘‘ اور ’’بٹر رائس‘‘ جیسی فلمیں بنائی گئی تھیں جنہوں نے دنیا بھر میں مقبولیت حاصل کی تھی اور ان کی دیکھا دیکھی نیو رئیل ازم (NEO REALISM) کی لہر نے ساری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے لیا تھا۔ بھارت میں ستیہ جیت رئے نے ’’پاتھر پنچلی‘‘ جیسی فلم بنا کر دنیا کو خراج تحسین حاصل کیا تھا اور ان کی پیروی میں مغربی بنگال میں نوجوان اور حقیقت پسند فلم سازوں اور ہدایت کاروں کی ایک نئی کھیپ پیدا ہو چکی تھی۔ یہاں تک کہ بمبئی کی کمرشل دنیا میں بھی ہلچل پیدا ہو گئی اور وہاں بمل رائے نے ’’دو بیگہ زمین‘‘ اور راج کپور نے ’’بوٹ پالش‘‘ جیسی فلمیں بنا ڈالیں۔ آپ تو جانتے ہیں کہ ہم پاکستانی اس وقت تک جوش میں نہیں آتے جب تک کہ بھارت کی طرف سے کوئی للکار یا چیلنج وصول نہ ہو۔ یہ انڈین اور پاکستانی قوموں کی نفسیات ہے۔ دنیا کی کسی بھی کرکٹ ٹیم یا ہاکی ٹیم سے اگر ہار جائیں تو کوئی مضائقہ نہیں رو دھو کر چپ ہو جاتے ہیں۔ لیکن بھارت کا پاکستان سے یا پاکستانی ٹیم کا بھارت سے ہار جانا ایک قومی المیّہ بن جاتا ہے جس کا ہارنے والے ملک میں باقاعدہ سوگ منایا جاتا ہے۔
جب نیورئیل ازم کی لہر بھارت تک پہنچ گئی تو پاکستان کے نوجوان اور تعلیم یافتہ لوگوں نے بھی سوچنا شروع کر دیا کہ ہمارے ملک میں بھی حقیقت پسندانہ اور زندگی کی عکاسی کرنے والی فلمیں بنانی چاہئیں۔ ڈاکٹر اعجاز میر‘ احمد بشیر‘ حمید اختر‘ ریاض شاہد اور شمیم اشرف ملک وغیرہ نے اس انداز سے سوچنا شروع کیا تو باقاعدہ مباحثوں اور مذاکروں کا دور شروع ہو گیا۔ اسی تحریک سے متاثر ہو کر احمد بشیر نے ’’نیلا پربت‘‘ جیسی فلم بنائی تھی جس کی کہانی نفسیات داں ادیب ممتاز مفتی کے فلسفے سے متاثر ہو کر لکھی گئی تھی۔ ان ہی دنوں مظفر طاہر نے ’’کالے لوگ‘‘ بنائی۔ حمید اختر کی فلم ’’دور ہے سُکھ کا گاؤں‘‘ بھی اس سلسلے کی ایک کڑی سمجھ لیجئے۔ لیکن یہ سب فلمیں نیم پختہ تجربات سمجھ لیجئے۔ بات یہ تھی کہ اس قسم کی فلمیں بنانے کیلئے جس ذہنی اور تکنیکی پختگی‘ شعور اور کمٹمنٹ کی ضرورت تھی وہ مفقود تھا۔ دراصل یہ ایک جذباتی سی مہم تھی جسے یار لوگوں نے نام پیدا کرنے‘ کچھ مختلف نظر آنے اور بین الاقوامی پیمانے پر شہرت حاصل کرنے کے شوق میں اپنا لیا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان میں اس انداز میں بنائی جانے والی کوئی ایک فلم بھی نہ تو عوام کو پسند آئی اور نہ ہی نقّادوں کے معیار پر پوری اتری۔ حد تو یہ ہے کہ بمبئی میں ’’ہم لوگ‘‘ جیسی انقلاب آفریں فلم بنانے کے بعد جب مصنف و ہدایت کار ضیاء سرحدی پاکستان تشریف لائے تو انہوں نے اسی انداز میں فلم بنانے کا آغاز کیا۔ ان کی پہلی فلم ’’راہ گزر‘‘ کے ساتھ وہی معاملہ پیش آیا جو پہلے بیان کیا جا چکا ہے۔ یعنی نہ تو یہ فلم کمرشل تھی اور نہ ہی حقیقت آمیز آرٹ فلم تھی۔ صبیحہ اور اسلم پرویز اس میں مرکزی کردار تھے لیکن بہت سی خوبیوں کے باوجود یہ ایک بے ربط اور بے مقصد فلم بن کر رہ گئی تھی۔ ضیاء صاحب نے دوسری فلم ’’آخر شب‘‘ کے نام سے شروع کی لیکن بدقسمتی سے یہ پایہ تکمیل تک ہی نہ پہنچ سکی اور ادھوری رہ گئی۔ اس فلم میں طالش اور اسد جعفری بھی نمایاں کرداروں میں تھے۔ اگر مکمل ہو جاتی تو یہ فلم ’’راہ گزر‘‘ کے مقابلے میں کہیں بہتر ہوتی۔ حسن طارق اور شمیم اشرف ملک کی فلم ’’نیند‘‘ اور ریاض شاہد کی ’’سسرال‘‘ بھی فلموں میں حقیقت کا رنگ بھرنے کی ہی کوششیں کی جا سکتی ہیں۔
جس شخص نے اس شعبے میں بہت سنجیدگی اور لگن سے کام کیا اور اس کو باقاعدہ منصوبہ بندی کے تحت اپنایا اس کا نام اے جے کاردار تھا۔ اے جے کاردار (اختر کاردار) پاکستان کے اداکار نصرت کاردار کے چھوٹے بھائی تھے۔ بمبئی کے اے آر کاردار کے بھانجے تھے اور بمبئی میں کافی وقت وہ اے آر کاردار کے ساتھ رہ چکے تھے۔ ان کا رجحان ہدایت کاری کی طرف تھا۔ اداکاری سے انہیں ذرا بھی رُغبت نہیں تھی۔ وہ ہدایت کاری اور فلم سازی کی تربیت حاصل کرنے کی غرض سے انگلینڈ بھی گئے تھے۔ مختصر یہ کہ انہوں نے ایک رئیلسٹک (REALISTIC) فلم بنانے کیلئے پوری طرح تیاری کی تھی۔ وہ لندن میں بھی فلمی صنعت سے وابستہ رہے اور بہت کچھ سیکھا۔ انہوں نے اسی دوران میں ایک بہت معقول سرمایہ کار بھی تلاش کر لیا جس کا نام نعمان تاثیر تھا۔ اختر کاردار اے جے کے نام سے پکارے جاتے تھے۔ ہم نے ان کے بڑے بھائی نصرت کاردار کے سوا کسی اور کو انہیں اختر کے نام سے مخاطب کرتے ہوئے نہیں دیکھا یا سنا۔
اے جے نے نعمان تاثیر کو یہ سمجھا دیا تھا کہ اگر بین الاقوامی پیمانے پر اس قسم کی فلم بنائی جائے تو خواہ ملک کے اندر تجارتی انداز میں کاروبار نہ ہو‘ عالمی سطح پر بہت شہرت اور مقبولیت حاصل کر سکتی ہے۔ مثال کے طور پر انہوں نے ستیہ جیت رئے کا حوالہ دیا تو نعمان تاثیر کی سمجھ میں یہ بات آ گئی اور وہ پیسہ لگانے کیلئے تیار ہو گئے۔

ڈیلی پاکستان کے یو ٹیوب چینل کو سبسکرائب کرنے کیلئے یہاں کلک کریں
تمام ہتھیاروں سے لیس ہو کر اے جے کاردار پاکستان آئے اور عملی تیاریاں شروع کر دیں۔ وہ خود بھی اعلیٰ تعلیم یافتہ اور ہنرمند تھے اسلئے انہیں بہت اچھے لوگوں کا تعاون حاصل ہو گیا۔ یہاں تک کہ فیض احمد فیض اس فلم کیلئے سکرین پلے‘ مکالمے اور گانے لکھنے پر آماددہ ہو گئے جو کہ ایک اہم نکتہ اور نمایاں امتیاز تھا۔ پاکستان کی فلم دنیا کے دوسرے تعلیم یافتہ اور ترقی پسند لوگوں کی تائید اور حمایت بھی اے جے کو حاصل ہو گئی۔
اس فلم کا نام ’’جاگو ہوا سویرا‘‘ تھا اور اس کی شوٹنگ کے لئے مشرقی پاکستان کی سرسبز اور حسین سرزمین کا انتخاب کیا گیا تھا۔ اے جے کاردار اس فلم کیلئے کیمرا مین لندن سے لے کر آئے تھے۔ ان کا نام مارشل تھا (پورا نام اس وقت یاد نہیں آ رہا) مارشل بہت اچھے عکّاس اور بے تکلف قسم کے آدمی تھے۔ کم از کم ایک انگریز سے اس سادگی اور بے تکلفی کی توقع نہیں رکھی جا سکتی جس کا مظاہرہ مارشل کرتے تھے۔ اے جے کاردار انگلستان سے فلم سازی کے لئے ضروری سازوسامان بھی لے کر آئے تھے جو نہایت جدید اور اعلیٰ درجے کا تھا۔ انہوں نے مشرقی پاکستان میں فلم ’’جاگو ہوا سویرا‘‘ بڑی محنت اور عرق ریزی کے ساتھ بنائی تھی۔ فلم مکمل ہوئی۔ توقع کے عین مطابق عالمی پیمانے پر اسے بہت سراہا گیا۔ یہ پہلی پاکستانی فلم تھی جو بین الاقوامی فلمی میلوں میں پیش کی گئی تھی اور اسے اعزازات و انعامات سے بھی نوازا گیا تھا۔ گویا ’’جاگو ہوا سویرا‘‘ کو بین الاقوامی فلمی دنیا میں پاکستان کا پہلا تعارف سمجھ لیجئے۔ پاکستان میں بھی اس کی نمائش ہوئی تھی اور توقع کے مطابق یہ فلاپ ہو گئی تھی۔ مگر یہ کوئی خلاف معمول بات نہ تھی۔ دنیا بھر میں ایسی فلموں کے ساتھ تفریحی فلمیں دیکھنے والے ایسا ہی سلوک کرتے ہیں۔ سوئیڈن میں برگ مین کی فلموں کا یہی حشر ہوتا ہے۔ بھارت میں ستیہ جیت رئے کی کوئی فلم ایک ہفتہ بھی نہ چل سکی تھی حالانکہ ان دونوں کی فلمیں دنیا بھر میں انعامات بٹورتی رہی تھیں۔ چنانچہ اے جے کاردار کی ’’جاگو ہوا سویرا‘‘ کی مقامی سینماؤں پر ناکامی بھی کوئی خلاف توقع بات نہ تھی۔ اس فلم کے اداکاروں میں تمربرن‘ ترپتی مترا‘ زورین اور انیس شامل تھے۔ لاہور کی فلمی دنیا کی رقاصہ رخشی نے بھی اس میں کام کیا تھا۔ انیس وہی صاحب ہیں جو بعد میں عطا الرحمن خان کے نام سے بطور اداکار ہدایت کار مصنف موسیقار اور فلم ساز مشہور ہوئے۔ انہوں نے اردو میں فلم ’’سراج الدولہ‘‘ بنائی تھی۔ بنگالی فلموں میں ان کا بہت بڑا نام اور مقام ہے۔ خوش قسمتی سے وہ ہمارے بہت مخلص اور گہرے دوست رہے ہیں۔
رخشی فلموں کی معروف ڈانسر تھیں اور انہیں اس زمانے میں پاکستانی فلمی صنعت میں وہی حیثیت حاصل تھی جو ککو کو بھارتی فلموں میں حاصل تھی۔ یعنی ان کا رقص ہر فلم کی لازمی ضرورت سمجھا جاتا تھا۔ وہ کرسچن تھیں۔ خوبصورت اور تعلیم یافتہ تھیں۔ فلموں سے کنارہ کش ہونے کے بعد انہوں نے لاہور کا پہلا بوتیک ’’فینٹاسیا‘‘ کے نام سے قائم کیا تھا جو فلم والوں میں بہت مقبول ہو گیا تھا۔ ہماری کئی فلموں کیلئے ہیروئنوں کے ملبوسات انہوں نے ہی ڈیزائن کئے تھے۔
’’جاگو ہوا سویرا‘‘ کے تجربے سے حوصلہ پا کر اے جے کاردار نے مزید بین الاقوامی شہرت اور اعزاز سمیٹنے کی فکر کی اور دوسری فلم شروع کر دی مگر مختلف النوع وجوہات کی بنا پر یہ مکمل نہ ہو سکی۔

(جاری ہے)