دلیپ کمار کی کہانی انہی کی زبانی ۔ ۔ ۔ قسط نمبر37
آخر وہ وقت بھی آہی گیا جس کا مجھے ڈر تھا۔میری فلم جگنو تقسیم ہند کے فوری بعد سینماوں کی زینت بن گئی،شہروں میں اسکے بڑے بڑے پوسٹر چسپاں تھے۔مجھے اندازہ تھا اب زیادہ دیر تک گھر والوں سے چھپا نہیں رہ سکتا تھا ۔ایک روز میں فٹ پاتھ پر چل رہا تھا لیکن کسی نے میری جانب توجہ نہیں دی حالانکہ میں تین فلمیں کرچکا تھا۔۔۔ لوگوں کا اپنا مزاج تھا ۔شاید ابھی میں مشہور نہیں ہوا تھا ۔
ادھر اشوک کمار بھیا ایس مکھر جی مجھے آڑے ہاتھوں لیتے،چھیڑتے ،انہیں معلوم تھا میں عورتوں سے شرماتا ہوں ۔ایک روز کہنے لگے’’ اب تو تم ہیرو ہو ۔لڑکیاں تمہاری جانب کھچی چلی آتی ہیں،یار ذرا تھوڑا سا ان پر ترس کھا لیا کرو۔یہ کیا کہ سر جھکا کر نظریں بھی نہیں ملاتے ‘‘
’’میں کیا کروں بھیا ‘‘ میرے اس جواب پر وہ کھلکھلا کر ہنس دیتے ۔عورتوں کے معاملہ میں ساری زندگی میرا رویہ اور جذبہ یہی رہا ۔
میں نے شروع میں ہی طے کرلیا تھا کہ مجھے کام سیکھنا اور اپنی منزل کا راستہ ٹھیک رکھنا ہے اسلئے میں نے انگریزی فلمیں دیکھنا شروع کردیں ،روزانہ دو دو شو بھی دیکھتا ۔اس سے مجھے خود کو سمجھنے کا موقع ملا ۔
دلیپ کمار کی کہانی انہی کی زبانی ۔ ۔ ۔ قسط نمبر36 پڑھنے کیلئے کلک کریں
آغاجان کوابھی تک بھنک نہیں پڑی تھی۔انکی خواہش تھی کہ یوسف کوئی سرکاری ملازمت کرے ۔ لیکن میں کوئی اور راہ چُن چکا تھا ۔
اس دن بشیش ورناتھ جی مونچھوں تلے مسکراہٹ دابے آغا جی سے ملنے آگئے۔وہ کہنے کہ آج ان کے پاس انہیں دیکھانے کے لئے بہت بڑی خبر ہے ۔آغا جی حیران ہوئے کہ ایسی کیا خبر ہے جو انہیں حیران کرسکتی ہے۔بشیش ورناتھ جی انہیں لیکر سڑک پر لے گئے اور سڑک کے اس پار دیوار پر لگے بہت بڑے پوسٹر کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا’’دیکھیں یہ فوٹو آپ کے یوسف کی ہے‘‘
آغا جی نے بہت بعد میں مجھے اپنی اس حیرت کے متعلق بتایا کہ اس وقت انہیں بالکل یقین نہیں آیا کہ یہ یوسف ہوسکتا ہے۔انہیں اپنی آنکھوں پر یقین نہیں آیا ۔لیکن وہ مجھے پہچاننے سے انکار نہیں کرسکتے تھے ۔
وہ اشتہار بہت بڑا اور سلور سکرین پر چمک رہا تھا ۔اس کے نیچے نام یوسف خان نہیں لکھا تھا ،دلیپ کمار کا نام درج تھا۔
بشیش ورناتھ جی آغا جی کی کیفیت بھانپ گئے کہ انہیں صدمہ پہنچا ہے ۔انہوں نے آغا جی کو دلاسہ دیا اور کہا ’’مایوس ہونے کی ضرورت نہیں۔اس نے اپنی نئی پہچان بنانے کے لئے دلیپ کمار نام رکھا ہے تاکہ خاندان کی عزت پر داغ نہ لگے‘‘
میں آغا جی کا سامنا کرنے سے کتراتا رہا۔انکی آنکھوں میں دیکھنے کی جرات نہیں کرسکتا تھا۔انہیں معمول پر لانے کے لئے میں نے راج کپور سے بات کی اور پھر اس نے پرتھوی راج کو ہمارے گھر بھیج دیا۔آغا جی انہیں دیکھ کر بڑے خوش ہوئے اور انکی خاطر مدارت کی۔والدہ نے بعد میں مجھے بتایا تھا کہ انکی آمد سے حالات اچھے ہوگئے تھے۔برف پگھل گئی تھی۔
اس کے چند دن بعد وہ گھر واپس آئے تو بڑے خوش تھے۔وہ اپنے دوست کے گھرسے ہوکر آئے تھے جہاں انکے دوست نے میری فلم ’’جگنو‘‘ دیکھنے کے بعد میری تعریفوں کے پل باندھ دئیے اور آغا جی سے کہا کہ وہ ایسے بیٹے کے باپ ہیں جسے سارا ہندوستان سلام کرے گا۔آغا جی گھر آئے اور مجھے پیار سے معمول کے مطابق بلایا اور مجھ سے بات چیت کرتے رہے۔انہوں نے اعتراف کیا کہ دراصل انہیں اس بات کوئی توقع ہی نہیں تھی کہ یوسف ایسا کوئی پیشہ بھی اختیار کرسکتا ہے۔وہ چارپائی پر حقہ پیتے ہوئے بڑے خوش اور نارمل تھے۔انہوں نے مجھے معاف کردیا تھا ۔اگرچہ وہ میرے پیشے پر خوش نہیں تھے لیکن اب اسکو ناپسند بھی کررہے تھے۔میرے لئے اتنا ہی کافی تھا۔
ڈیلی پاکستان کے یو ٹیوب چینل کو سبسکرائب کرنے کیلئے یہاں کلک کریں
حالات معمول پر تھے کہ اچانک ایک بری خبر نے ہمیں جھنجوڑکر رکھ دیا۔ بھائی ایوب صاحب اچانک پھیپپڑوں کے انتہائی خطرناک مرض میں مبتلا ہوگئے۔اگرچہ اسکے لئے بیرون ملک سے بھی ادویات منگوائیں لیکن ڈاکٹر مایوس تھے۔ایوب صاحب کو اندازہ ہوچکا تھا کہ اس مرض کا انجام کیا ہے۔ایک دن کہنے لگے کہ انہیں ساحل سمند پر لے جائیں ۔ہم دونوں ساحل پر گئے اور دھوپ میں مزہ لیتے رہے۔چند دنوں بعد کی بات ہے۔میں گھر واپس آیا تو دیکھا انکی حالت بگڑ رہی ہے۔میں پاس بیٹھا تو انہوں نے میرا ہاتھ تھام لیا اور جبراً مسکرانے کی کوشش کی۔آغاجی بھی پاس ہی بیٹھے تھے۔ڈاکٹر کے لئے ملازم کو دوڑایا گیا۔شام ہونے میں کچھ وقت باقی تھا ۔ایوب صاحب کھینچ کھینچ کر سانسیں لے رہے تھے اور چہرے پر مسکان تھی۔اسکی ہمت کا نقشہ ابھی تک ذہن پر نقش ہے۔میں نے دیکھا ان کے ہاتھ کی گرفت کمزور ہوتی جارہی ہے۔ڈاکٹر کے آنے سے پہلے ایوب صاحب نے ہچکی لی اور ہمارا سورج تاریکیوں میں ڈوب گیا ۔
ایوب صاحب کی موت کا صدمہ انتہائی گہرا تھا ۔گھر کی فضا مہینوں سوگوار رہی۔آغاجی تو بڑے مضبوط مرد تھے۔اماں بہت دلگرفتہ اور روتی نظر آتیں۔میں گھر آتا تو انہیں بہلاتا لیکن ایوب صاحب کی کمی پوری نہیں کرسکتا تھا میں۔۔۔۔۔۔(جاری ہے )
دلیپ کمار کی کہانی انہی کی زبانی ۔ ۔ ۔ قسط نمبر38 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں