برطانوی راج کے سکولوں کا ہند میں کِردار 

برطانوی راج کے سکولوں کا ہند میں کِردار 
برطانوی راج کے سکولوں کا ہند میں کِردار 

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app


 جو لوگ قیامِ پاکستان کے وقت 10,12 سال کی عمر کے تھے اُنہیں برطانوی راج کے سکولوں کا زمانہ ضرور یادہوگا۔ ہم میں سے اکثر پاکستانیوں کی تعلیم کا آغاز سرکاری یا مونسپل بورڈ کے سکولوں سے ہوا تھا۔ اِن سکولوں کی تعلیم کا معیار آج کے عصری تقاضوں سے بہت بہتر تھا، بلکہ بہت ہی بہتر تھا۔ آج کل کے سرکاری سکولوں کی طرح لاوارث اور Neglected ماحول نہیں تھا۔ برطانوی راج کو ہم بُرا بھلا کہتے ہیں، غلامی کا دور کہتے ہیں، لیکن یہ نہیں کہتے کہ انگریز کی حکومت کی برکات سے ہم مسلمانوں نے جدید طریقہ تعلیم میں قدم رکھا۔ خطہِ پاکستان میں تو پہلے ہی تعلیم کا فقدان تھا۔ دھلی کے سلطانوں، مغلوں اور سکھوں کے دور میں مسلمانوں کے لئے مدرسے ہوا کرتے تھے، جہاں عربی، فارسی اور درسِ نظامی پڑھایا جاتا تھا۔ بہت ہوا تو قرآن اور حدیث کی تعلیم بھی دی جاتی تھی۔ ہندوؤں کے لئے دھرم شالائیں ہوتی تھیں، جہاں گیتا، رامائین، علمِ جوتش اور حساب پڑھایا جاتا تھا۔ سائنس، حساب اور ٹیکنالوجی کی تعلیم تو مسلمانوں کے ہاں 800 سال سے ناپید ہو چکی تھی۔ ہمارا علمی سنہری دور تو 13ویں صدی عیسوی ہی میں ختم ہو چکا تھا۔ اُس وقت کے برصغیر میں خواتین کے لئے تو مدرسے بھی نہیں ہوتے تھے۔ مسلمان محلوّں میں عموماً لڑکیاں کسی معزز مسلمان گھرانے میں قرآن کی تعلیم حاصل کرنے کے لئے چلی جاتی تھیں۔ خاتونِ خانہ باقاعدہ کوئی مدرسہ نہیں چلاتی تھی۔ قرآنی تعلیم کے لئے یہ ایک قسم کا بارٹرسسٹم ہوتا تھا۔ غریب گھرانوں کی لڑکیاں ”اُستانی جی“ سے پڑھتی بھی تھیں اور اُس کے بدلے میں وہ ”اُستانی جی“ کے گھر کا کام کرتی تھیں۔


 اس قسم کا غیر روائتی طریقہ برائے تعلیم نسواں تمام ہندوستان کی شہری آبادی میں رائج تھا۔ دیہی علاقوں میں تو یہ سہولت بھی نہیں تھی۔ پاکستان کے پسماندہ دیہات میں تو آج بھی ہماری خواتین اَن پڑھ ہیں۔ عورتوں کی دنیاوی اور مذہبی تعلیم کی ضرورت کو محسوس کر  کے مولانا اشرف تھانوی نے بڑی محنت سے آج سے 150 سال پہلے اپنی مشہور زمانہ تصنیف ”بہشتی زیور“تحریر فرمائی تھی۔ یہ کتاب لڑکیوں کے جہیز کا اہم حصہ ہوتی تھی۔ میری ماں 1920ء میں جب بیاہ کر آئی تو بہشتی زیور اپنے ساتھ لائی تھی۔ میَں نے اس ضخیم گھریلو انسائیکلوپیڈیاکو 15 سال کی عمر میں شوقیہ کچھ کچھ پڑھا تھا۔اُس زمانے کے لحاظ سے یہ کتاب پہلی رسمی کوشش تھی مسلمان بچیوں کی تعلیم کے لئے……برصغیر میں جب انگریز کی سامراجی حکومت آئی تو ہم ہندوستانیوں کو جدید مضامین کی تعلیم حاصل کرنے کی سہولت 1832ء سے ملنا شروع ہوئی۔ اِسی غلامی کے دور نے ہمیں بڑے اعلیٰ پائے کے ڈاکٹر، انجینئر، ریاضی دان، کیمیادان، ماہرِ تعمیرات،ماہرِطبیعات اور قانوندان دیئے۔ اِن ہی قانون کے ماہرین نے انگریز کے پڑھائے ہوئے قوانین کے ذریعے انگریز ہی سے ہمارے لئے آزادی حاصل کی۔ میَں جب ہندوستان کا ذکر کرتا ہوں تو اُس میں وہ علاقہ بھی شامل ہے، جسے اَب پاکستان کہا جاتا ہے۔ پاکستان کی بنیاد بھی انگریز کے دئیے ہوئے سکولوں، کالجوں اور یونیورسٹیوں سے فارغ التحصیل افراد نے ہی ڈالی تھی۔ مسلمانوں نے ہندوستان پر 900 سال تک حکومت کرتے ہوئے نہ کوئی یونیورسٹی بنائی، نہ کوئی کام کا  ہسپتال۔ جن مسلمان ملکوں کو جدید تعلیم کا شوق تھا، اُنہوں نے 9ویں صدی میں ہی مراکش اور مصر میں یونیورسٹیاں قائم کر دی تھیں۔ کافر برطانیہ بھی آکسفورڈ یونیورسٹی 1096ء میں بنا چکا تھا۔ 


دراصل میَں موازنہ کر رہا تھا کہ پاکستان کو اَب تک جو بھی مِلا ہے وہ ٹاٹ کے سرکاری سکولوں سے پڑھے ہوئے افراد کی محنت، ذہانت، جدّت اور کوشش کی وجہ سے مِلا ہے۔ سر سید احمد خان ہوں، قائدِاعظم، علامہ اقبال، ڈاکٹرعبدالقدیر خان، مولانا مودودی، ڈاکٹر عبدالسلام، ڈاکٹر خلیق الزماں صدیقی، ائیر مارشل نور خان، اصغر خان ہوں یا 20ویں صدی کے عظیم ادیب، شاعر اور کھلاڑی اکثر میونسپل سکولوں سے ہی آگے آئے۔ بلکہ بہت سے تو ٹاٹ سکولوں سے پڑھ کر بام ِ عروج پر پہنچے۔ پاکستان کے قائم ہونے کے 15 سال بعد تک پرائیویٹ سیکٹر میں اِنگلش میڈیم ٹائپ سکول نہیں آئے تھے۔ اِبتداء میں پرائیویٹ سکولوں میں خونخوار قسم کی کمرشل مقابلہ بازی بھی شروع نہیں ہوئی تھی۔ پرائیویٹ سکولوں کے نام بھی مقامی زبان میں ہوتے تھے، مثلاً دبستانِ صوفیاء سر سید سکول، علی گڑھ سکول، دستگیر سکول، مون سکول وغیرہ۔ اِن سکولوں میں تعلیم پر زور تھا۔ آج کے دور کا وحشیانہ گلیمر نہیں تھا۔ طرح طرح کے سلیبس بھی  نہیں تھے۔ انگریزی زبان بطور مضمون بڑے اچھے طریقے سے پڑھائی جاتی تھی۔ سکولوں کا ماحول آج کی طرح انگریزی زدہ اور مادر پدر آزاد نہیں تھا۔ سرکاری سکولوں سے پڑھے ہوئے اعلیٰ افسروں نے ہی پاکستان بننے کے بعد اس کا اِبتدائی ڈھانچہ تشکیل دیا تھا۔ چند ہی افسران تھے جو مِشن سکولوں  اور کانونٹ سکولوں سے پڑھ کر آئے ہوں گے۔میونسپل سکولوں سے پڑھے ہوئے کئی مشہور افسران کا نام قارئین نے ضرور سُنا ہوگا۔ میاں ریاض الدین احمد، اے جی این قاضی، ڈاکٹر عثمانی، حافظ عبدالمجید، ہاشم رضا، اے ٹی نقوی،ظفر الاحسن لاری، چودھری محمد علی، ملک غلام محمدؐیہ سب مرحوم ہو چکے ہیں۔


پاکستان کا ابتدائی ڈھانچہ کھڑا کرنے والے اعلیٰ سروس کے صرف90 افسران تھے جو پارٹیشن کے وقت پاکستان کے حصے میں آئے اور جن میں سے زیادہ کی اِبتدائی تعلیم سرکاری سکولوں سے شروع ہوئی ہوگی۔ اُن میں سے کچھ نے مشنری سکولوں سے میٹرک کیا ہو گا ورنہ زیادہ تر سی ایس افسر،جو ہمارے حصے میں آئے، اُن کا پس منظر عام شہریوں کا تھا۔ میرے والد برٹش انڈین آرمی میں میجر رہے، اُن کی تعلیم تو بالکل ہی ٹاٹ سکول سے شروع ہوئی تھی۔ میَں خود چوتھی جماعت تک ٹاٹ سکولوں میں پڑھتا رہا ہوں۔ میرا سکول گھر سے 2-3 میل دُور تھا۔ کبھی کبھی دادا جی کا ذاتی تانگہ سکول جانے کے لئے میّسر آجاتا تھا ورنہ پیدل ہی آنا جانا ہوتا تھا۔ دیہات کے سکولوں میں اُن دِنوں امیری اور غریبی کا کوئی فرق نہیں ہوتا تھا اور نہ ہندو مسلمان کا۔ہمارا سکول گوٹاٹ کا سکول کہلاتا تھا، لیکن یہ بہت بڑا تھا، کیونکہ آس پاس کے تمام دیہات کے بچوں کے لئے ہمارا سکول ہی نزدیک ترین تھا۔ ہمارے ہیڈ ماسٹر مسلمان تھے، جن کو ہم طالبِ علم بھی اور ماسٹر صاحبان بھی شاہ جی کہا کرتے تھے۔ شاہ جی ہم سب لڑکوں کو اپنے گھر میں محرم کی مجلس میں لے جاتے تھے۔ ہندو،سکھ، مسلمان سب ہی شاہ جی کو خوش کرنے کے لئے ماتم کے وقت مقابلے میں آکر زور دار ماتم کرتے تھے۔ ہمارے چھوٹے چھوٹے سینے ماتم کی وجہ سے سرخ ہو جاتے، بلکہ بعض دفعہ تو خون بھی رسِنا شروع ہو جاتا تھا۔ ماتم کے بعد ہمیں نان اور حلوہ مِلتا تھا۔ یہ ہوتا تھا ہماراا ِنعام۔ ہمارے ماں باپ شاہ جی سے کسِی قسم کا شکوہ شکائت نہیں کرتے تھے۔ 


یہ بات ہے 1946ء کی۔ ہمارا ضلع لدھیانہ تھا جو مشرقی پنجاب کا حصہ تھا، ہمارے آس پاس کے دیہات میں نہ پارٹیشن کا کچھ پتہ تھا، نہ ہندو مسلم نفرتوں کا۔ جو بھی نفرتیں تھیں وہ بڑے شہروں میں ہی تھیں اور وہیں سے یہ ہمارے دیہات میں آئیں اور اپنے ساتھ خون خرابہ، لوٹ مار اور ہجرتیں لے کر آئیں۔میَں تو آج بھی سمجھتا ہوں کہ پتہ نہیں کس سازش کے تحت ہندوؤں، مسلمانو ں اور سکھوں کے درمیان اِتنی خون ریزی ہوئی اور پنجاب میں ہی زیادہ کیوں ہوئی؟……سکول سسٹم خواہ وہ ٹاٹ کے سکولوں کا تھا یا کانونیٹ ٹائپ سکولوں کا، اسے برٹش حکومت نے شروع کیا۔جیسا کہ مَیں نے اوپر لکھا ہے کہ انگریزی راج سے پہلے مدرسے اور دھرم شالائیں ہوتی تھیں، جہاں زیادہ تر مذہبی تعلیم دی جاتی تھی۔ سچ پوچھیں تو اُس وقت کے مسلمانوں کے مذہبی اکابر نے بزعم خود اسلام کی حفاظت کے لئے مذہبی مدرسے بنائے تھے، جہاں زیادہ تر مسلکی تعلیم دی جاتی تھی۔ انگریز کے لائے ہوئے جدید علوم سے اِن مدرسوں کو دُور رکھا گیا۔ مدرسہ دیو بند ہندوستان کے صوبہ اُتر پردیش کے شہر سہارنپورکے ایک چھوٹے سے گاؤں دیو بند میں 19 ویں صدی میں بنا تھا۔ ندوۃ العلماء  اعظم گڑھ اور اس کے علاوہ قریباً 16000 مدرسے پاک ہند و میں 1947ء تک بن چکے تھے، لیکن یہ مدرسے ہندوستان کے مسلمانوں کو جدید علوم سے آراستہ نہ کر سکے۔ برطانوی حکومت نے مسلکی مدرسوں کی بالواسطہ زیادہ مدد کی تاکہ ہندوستان کے مسلمان جدید تعلیم کی طرف رُخ ہی نہ کریں اور اُن کے ذہن زمانہِ قدیم کے خیالات میں ہی پھنسے رہیں۔ 


دراصل پاکستان کی تعمیر میں روشن خیال اور جدید علوم سے آراستہ افراد نے اپنا حصہ ڈالا تھا۔ اِن روشن خیالات کے حامل مسلمانوں کی زیادہ تعداد سرکاری ٹاٹ کے سکولوں سے پڑھ کر ہی یونیورسٹیوں اور کالجوں میں گئی تھی۔ برطانوی راج میں اِنگلش سکول صرف کانونیٹ سکول ہوا کرتے تھے جو عموماً مسیحی Convernts کے لئے ہوتے تھے۔ اِن سکولوں میں خوشحال مسلمان اور ہندو بھی اپنے بچوں کو تعلیم کے لئے بھیجتے تھے۔ غریب ہندوؤں اور مسلمانوں کے لئے عیسائی مشنری سکول ہوتے تھے جہاں ذریعہ تعلیم انگریزی اور لوکل زبان ہوتی تھی۔ جس طرح لاہور کا رنگ محل مشن سکول ہے، جو قریباً 175 سال پُرانا ہے۔ اسی امریکی مشن سکول کے بانی مسٹر فورمین نے ایف سی کالج بھی شروع کیا تھا۔ مشنری تعلیمی اِداروں کی دیکھا دیکھی مسلمانوں، ہندؤوں اور سکھوں نے بھی انگریزی تعلیم سے آراستہ فلاحی تعلیمی اِدارے بنانے شروع کر دئیے۔ پنجاب کے مسلمانوں کی انجمن حمائتِ اسلام لاہور میں 1884ء میں قائم ہوئی۔ اس کے مقاصد کا بڑا حصہ مسلمان نوجوان نسل کے لئے نئے زمانے کی تعلیم مہیا کرنا تھا، یعنی برطانوی ذریعہ ِ تعلیم میں رہتے ہوئے مسلمان بچوں اور بچیوں کے لئے جدید سکول اور کالج بنانا۔ ایک زمانے میں لاہور کا اسلامیہ کالج گورنمنٹ کالج کے مقابلے کا تھا۔ اس کالج نے مشہور Noteables پیدا کئے۔ اسی طرح 1885ء میں سندھ مدرستہ الاسلام کراچی میں قائم ہوا۔ 20 ویں صدی کے شروع میں صوبہ سرحد (KPK) میں صاحبزادہ سر عبدالقیوم خان نے برطانوی ذریعہ تعلیم کو متعارف کروایا۔خان عبدالغفار خان(باچا خان) جو خود بھی پشاور مشن سکول کے پڑھے ہوئے تھے، اُنہوں نے ”آزاد سکولوں“کے نام سے صوبہ سرحد میں 27 سکول قائم کئے۔ یہاں بھی برطانوی ذریعہِ تعلیم تھا۔ اَب تک پاکستان نے جو بھی ترقی کی ہے، خواہ ایٹم بم اور میزائل بنائے یا دوسرے بڑے علوم میں نام کمایا ہے، وہ  انگریزی ذریعہِ تعلیم کی وجہ سے ہی حاصل ہو سکے ہیں۔  
   

مزید :

رائے -کالم -