بجلی سہولت پیکیج نامنظور
حکومت کی طرف سے دیا جانے والا بجلی سہولیت پیکج پاکستان کی بزنس کمیونٹی نے مکمل طور پر مسترد کردیا ہے اور اسے محض وقت کا زیاں قرار دیا ہے۔ اس سے بھی بڑھ کر بدقسمتی کی بات یہ ہے کہ آئی پی پیز سے نپٹنے کا حکومتی عمل بھی تاخیر کا شکار ہو رہا ہے۔ بزنس کمیونٹی سمجھتی ہے کہ حکومت اگر سستی بجلی کا پیکج دینا چاہتی ہے تو سنجیدگی اختیار کرتے ہوئے 26روپے فی یونٹ کے حساب سے بجلی کے ٹیرف کا اعلان کردے کیونکہ آئی پی پیز کے چنگل سے آزادی کے بعد ٹیرف کی اصل حد یہی بنتی ہے۔
حکومت کی سست روی کا نتیجہ ہے کہ فیڈریشن ہر روز ایک فیکٹری کا جنازہ اٹھارہی ہے کیونکہ آئے روز کوئی نہ کوئی فیکٹری بند ہو رہی ہے جبکہ پریشان حال صنعت کار خودکشیوں پر مجبور ہو رہے ہیں۔ گزشتہ ہفتے وفاقی وزیر توانائی اویس لغاری فیڈریشن کے اسلام آباد میں واقع دفتر میں تشریف لائے اور بزنس کمیونٹی کی قیادت کو بجلی سہولت پیکج پر اعتماد میں لینے کی کوشش کی۔ اس موقع پروفاقی وزیر نے حکومت اور ایف پی سی سی آئی کی مشترکہ کمیٹی کے قیام کی تجویز دی جو تین روز تک تین تین گھنٹے کی میٹنگ کرکے بجلی سہولت پیکج کو بزنس کمیونٹی کے لئے قابل قبول بنائے گی۔
اس کے جواب میں بطور سرپرست اعلیٰ میں نے فوری طور پر صدر ایف پی سی آئی عاطف اکرام، ریجنل وائس چیئرمین پنجاب ذکی اعجاز، صوبہ خیبر پختونخوا سے سنیٹر نعمان وزیر، سندھ سے کورنگی ایسوسی ایشن سے ریحان جاوید، آصف انعام، اور اپٹما کے انرجی ایڈوائزر طاہر بشارت چیمہ پر مشتمل کمیٹی کا اعلان کردیا ہے جس کی باضابطہ اناؤنسمنٹ ایف پی سی سی آئی پنجاب کی پریس کانفرنس میں بھی کر دی گئی ہے۔ اب انتظار ہے کہ وفاقی وزیر توانائی اویس لغاری حکومتی کمیٹی کا اعلان کریں تاکہ بجلی سہولت پیکج پر گفت و شنید کا عمل مکمل کرکے ملکی صنعت کے لئے قابل قبول انرجی ٹیرف پر اتفاق کیا جا سکے اور بند ہوتی انڈسٹری کو بچایا جا سکے۔
بجلی سہولت پیکج کے تحت ایک مقرر شدہ بینچ مارک سے اوپر بجلی کے استعمال پردسمبر 2024ء سے فروری 2025ء تک رعائتی ٹیرف دیا جائے گا۔ مثال کے طور پر کسی فیکٹری نے گزشتہ برس اگر ایک لاکھ یونٹ استعمال کیا تو اس سال اسے پیکج کا کوئی فائدہ نہیں ہوگا جب تک کہ وہ گزشتہ برس کے بینچ مارک سے پچیس فیصد اوپر بجلی استعمال نہیں کرتی۔ اس وقت پیک آورز کے لئے بجلی کا ٹیرف 37 روپے 83پیسے فی یونٹ ہے۔ رعائتی پیکج میں 26 روپے سات پیسے فی یونٹ کا رعائتی ٹیرف ہو گا۔
حقیقت یہ ہے کہ بجلی کے ٹیرف میں ہوشربا اضافے اور مشکل معاشی صورت حال نے ملک میں بجلی کی ڈیمانڈ کو خطرناک حد تک کم کردیا جس میں بہتری لانے کے لئے حکومت نے بجلی سہولت پیکج کا اعلان کیا ہے۔ اعدادوشمار کے مطابق سال 2023کے موسم سرما میں بجلی کی ڈیمانڈ 6فیصد گری تھی تو سال 2024میں یہ ڈیمانڈ مزید8فیصد گھٹ گئی ہے جو محض 11,196میگاواٹ رہ گئی ہے۔ابھی تک یہ واضح نہیں ہے کہ حکومت نے بجلی کے یونٹ کے استعمال کی کیلکولیشن کس طرح کی ہے اور یہ کیسے فرض کرلیا ہے کہ اس پیکج سے بجلی کے استعمال میں 11فیصد اضافہ ممکن ہوگا۔ فیڈریشن کے اندازے کے مطابق زیادہ سے زیادہ تین فیصد اضافہ ہو سکتا ہے کیونکہ 25فیصد کی کیپنگ سے سارا پیکج بے معنی ہو کر رہ گیا ہے۔ حکومت اس بات کو نظر انداز کر رہی ہے کہ اس وقت کئی ایک انڈسٹریل یونٹ 40فیصد پیداواری استطاعت پر چل رہے ہیں اورمہنگی بجلی کے باعث اصل پیداواری استطاعت پر نہیں چل پا رہے ہیں، وہ کیسے گزشتہ برس کی استطاعت تک پہنچ سکتے ہیں جب بجلی اس قدر مہنگی نہ ہوئی تھی۔ یعنی پہلے تو انہیں گزشتہ برس کی پیداواری استطاعت کا فرق ختم کرنا ہوگا اور پھر اس پر بھی 25فیصد اضافی استعمال کرنا ہوگا تاکہ رعائتی ٹیرف کے اہل ہوسکیں۔ یعنی نہ نو من تیل ہوگا نہ رادھا ناچے گی ایسی صورت حال ہے اور حکومت اپنی طرف سے بجلی سہولت پیکج کا اعلان کرکے حاتم طائی کی قبر پر لات مار رہی ہے۔
انڈسٹری کے حلقوں کا خیال ہے کہ اگر حکومت اس 40فیصد پیداواری استطاعت پر 25فیصد کا کیپ ہٹا بھی دے تو بھی فی یونٹ چار روپے کا فائدہ ہو سکے گا، یعنی 37روپے والا یونٹ 33 روپے کا ہو جائے گا۔ 26روپے فی یونٹ کا خواب پھر بھی پورا نہ ہوگا جو کہ انڈسٹری کی ڈیمانڈ ہے اور آئی پی پیز کے کپیسٹی چارجز کے ہٹ جانے سے ٹیرف کی اصل قیمت رہ جاتی ہے۔ گزشتہ رعائتی پیکج کا بھی کراچی کی انڈسٹری کو فائدہ نہ ہو سکا تھا اس لئے حکومت کو چاہئے کہ اسے فائنل کرنے سے پہلے انڈسٹری کے نمائندوں کے ساتھ بیٹھ کر ورک آؤٹ کرے تاکہ حقیقی فائدہ اٹھایا جا سکے۔ اس سے بھی بڑھ کر افسوس کی بات یہ ہے کہ پاور ڈویژن کے بابو حضرات کو اندازہ ہی نہیں ہوتا کہ انڈسٹری کی کاسٹنگ کا کمرشل ویو کیا بنتا ہے۔ اس لئے ان کا حساب کتاب زمینی صورت حال میں خاطر خواہ تبدیلی لانے میں ناکام رہتا ہے۔ اس وقت سب سے بڑا مسئلہ بھی یہی ہے کہ پاور ڈویژن کے بابو حضرات دفاتر میں بیٹھ کر کیلکولیشن کرتے ہیں اور ایک ماڈل بنا کر وزراء کو پیش کردیتے ہیں۔ ان کے مطابق ڈسکاؤنٹ آفر کرنے سے بجلی کی ڈیمانڈ میں اضافہ ہو جائے گا۔ عملی طور پر ایسا ممکن نہیں ہوتا۔ ہونا یہ چاہئے کہ جب بھی ایسا پیکج ڈیزائن کیا جائے، انڈسٹری کے نمائندوں کو ساتھ بٹھایا جائے اور ان کی مشاورت سے اسے فائنل کیا جائے۔ اگر ہدف یہ ہے کہ بجلی کی ڈیمانڈ میں 11فیصد اضافہ کرنا ہے تو اس کا کیا طریقہ ہوگا؟ان کے اپنے بنے ہوئے ماڈل غلطیوں کا شاہکار ہیں۔ مثال کے طور پر انہوں نے نیٹ میٹرنگ کو ہی سولر کے طورپر رکھا ہوا ہے جبکہ اس وقت ملک میں نیٹ میٹرنگ سے چار گنا زیادہ سولر انرجی سسٹم میں شامل ہو چکا ہے جس کی وجہ سے ان کی کیلکولیشن کی بنیاد ہی غلط ہوجاتی ہے اور حکومتی پالیسی ناکام ہوجاتی ہے۔
جہاں تک فکسڈ چارجز کا تعلق ہے تو پاور ڈویژن نے اس پہلو کو یکسر نظر انداز کردیا ہے کہ کچھ فیکٹریاں 12گھنٹے چلتی ہیں اور کچھ فیکٹریاں 24گھنٹے چلتی ہیں۔ جو فیکٹریاں 24گھنٹے چلتی ہیں ان کے لئے ہائر فکسڈ چارج اور لوئر ویری ایبل چارج سودمند رہتا ہے جبکہ بارہ یا آٹھ گھنٹے کی شفٹوں میں چلنے والی فیکٹریوں کے لئے ہائر ویری ایبل چارج اور لوئر فکسڈ چارج موزوں ہے۔ اس قسم کی درجہ بندی سے ہی بجلی سہولت پیکج کا فائدہ ہو سکتا ہے۔اگر حکومت کا مقصد ریونیو جنریشن ہے تو یہ اسی صورت میں ممکن ہے، لکیر کا فقیر بننے سے فائدہ نہیں ہوگا۔