میرے زمانے کا کراچی 

میرے زمانے کا کراچی 
میرے زمانے کا کراچی 

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app


شائد یہ1951ء اکتوبر /نومبر کی بات ہے کہ میَں لاہور سے پہلی مرتبہ کراچی گیا۔ کراچی سے پہلے میَں نے دو اور بڑے شہر دیکھے تھے۔ لاہور اور اس سے پہلے دھلی۔ لیکن یہ دونوں بڑے شہر آزادی سے نہیں دیکھ سکا تھا کیونکہ گھر والوں کی طرف سے پابندیاں تھیں باہر آنے جانے پر،عمر بھی اُس وقت میری ابھی 15سال تھی۔ میری پیدائش اور اِبتدائی زندگی تو بغیر بجلی اور نلکے کے پانی سے محروم مشرقی پنجاب کے ایک گاؤں میں ہوئی تھی لیکن دھلی میں 3سال رہنا اس لئے پڑا کہ میرے والد صاحب فوج کی ملازمت سے فارغ ہو کر IAS میں چلے گئے تھے اور دھلی میں ان کی پوسٹنگ ہوئی تھی۔ میَں جگراوں میں اپنے دادا کے پاس رہتا تھا۔ جب دادا جی پاکستان آنے لگے تو وہ مجھے میرے والد کی تحویل میں دینے کے لئے دھلی آئے۔

میری اپنی والدہ کا انتقال تو میری شیر خواری میں ہی ہو گیا تھا۔ دادا جی لاہور آ کر ایک سال بعد ہی انتقال کر گئے۔ البتہ دھلی میں رہ کر میَں نے 1950 میں ہائیر سیکنڈری کر لیا، اسی اثنا میں والد صاحب کو اندازہ ہو گیا کہ مسلمان نوجوانوں کا ہندوستان میں کوئی مستقبل نہیں ہے اس لئے اُنہوں نے مجھے لاہور پاکستان میرے چچا کے پاس بھجوا دیا۔ دھلی اور لاہور میں رہنے کے باوجود مجھے اِن دونوں شہروں کا مکمل جغرافیہ تک معلوم نہیں تھا۔ کراچی میں آتے ہی ائیر فورس میں اپرینٹس کی بھرتی کھلی ہوئی تھی مجھے بھی مواقع مل گیا اور میں بھرتی ہو کر جنرل سروس ٹرئینگ کے لئے لوئر ٹوبہ مری آگیا۔ ٹرئینگ کے بعد ہم لڑکے کراچی آئے اور یہاں کچھ ہفتے رہ کر UK ٹرئینگ کے لئے بھیج دیئے گئے۔انگلینڈ میں 3 سال آزاد رہ کر گورے ماحول میں رہتے ہوئے ہم نے اس عمر کی سب کارستانیاں سیکھ لیں تھیں۔ پاکستان واپس آکر RPAF کے ڈرگ روڈ سٹیشن پر ہم سارے لڑکوں کا عارضی پڑاؤ ہوا۔ ابھی ہماری مختلف یونٹس میں پوسٹنگ ہونی تھی۔

یہ 1953 کا دسمبر تھا۔ہمیں کراچی لندن سے بھی زیادہ دل کو موھ لینے والا لگا۔ پی اے ایف کا مزاج ابھی سیکولر ہی تھا۔ بڑے زور شور سے کرسمس کی تیاریاں ہو رہی تھیں۔ گورے آفسر اور ائیر مین RPAF میں خدمات دے رہے تھے۔ اُن دِنوں کرسمس سے جڑی ہر قسم کی تفریح کا انتظام کیا جاتا تھا۔ الفسٹن سٹریٹ کی گووا کی سانولی میمیں نئے سال کو خوش آمدید کہنے کے لئے گرم جوشی سے ہمارے ساتھ شامل ہوتی تھیں۔ کراچی کے کلب، کیبرے، بڑے ہوٹلز بُک ہو جاتے تھے۔ کراچی ابھی تک مخصوص نظرئے کی ڈنڈا بردار فورس سے بچا ہوا تھا۔ ائیر فورس اور پاکستان نیوی کا ماحول اُن دِنوں بڑا کھلا ڈولاتھا۔ کراچی کے باسی بھی کھلے دل کے لوگ تھے، کراچی کے علاقے ابھی اپنے Original ناموں سے جانے جاتے تھے، لالو کھیت، تین ہٹی، گولی مار، رنچھوڑ لائن، پٹیل پاڑہ، بندر روڈ، چاکی واڑہ۔ اب معلوم نہیں کہ انہیں کیا نام دیا گیا ہے۔ کراچی صدر کے ایرانی ہوٹل اپنے کھانوں کے لئے مشہور تھے۔ ہمارا پسندیدہ ریسٹورنٹ کیفے جارج ہوتا تھا۔ 3 روپے میں پیٹ بھر جاتا تھا۔ کھانوں کے نام فارسی،اُردو اور سندھی کا مکسچر ہوتے تھے۔ بیدا آلو کا مطلب تھا انڈے کا سالن۔    ”فرمائش“کا مطلب پراٹھا ہوتا تھا۔ کھارا  بسکٹ کا مطلب نمکین بسکٹ تھا۔ ابھی برنس روڈ کی فوڈ سٹریٹ نہیں بنی تھی۔ میر ی ویدر ٹاور کے قریب ایک دِلّی والا ہوٹل تھا۔ اُس کا نام شائد محمدی ہوٹل تھا۔ دِلّی کی بریانی اور نہاری کے لئے مشہور تھا۔ میَں نے کراچی میں یہ پہلا ہوٹل دیکھا جس کانام مذہبی تھا۔ یہ میں َبات کر رہا ہوں 1953/54کی۔ ابھی دُکانوں، ریسٹورنٹوں یا تجارتی کاروبار کو اسلامی نام نہیں دئیے جاتے تھے۔ آج تو پاکستان میں اسلامی شہد سے لے کر مکہ کالونی، مدینہ کلاتھ، الکرم ٹائلزاور قریباً ہر دوسری ہاوسنگ سوسائٹی رحمن، رحیم اور جلیل کے نام سے بِک رہی ہے۔ مذہبیت ہماری ظاہری زندگی میں چھا گئی ہے لیکن اصل اسلام کم کم ہی نظر آتا ہے۔ 


کراچی ائیر پورٹ شام کے ٹائم منچلوں کی سیر گاہ ہوتی تھی، نہ دھشت گردی کا نام سُنا تھا۔ ائیر پورٹ کی بالکنی پر غریب، امیر جا سکتے تھے، تمام دنیا کی ائیر لائینز کے جہاز اس ایئر پورٹ پر ضرور اُترتے تھے، بیروت کی ائیر پورٹ کے بعد رونق والی ایئر پورٹ صرف کراچی تھی۔ بالکونی پر شام 6 بجے سے ہی میلہ لگنا شروع ہو جاتا تھا، بئیر ابھی بوتلوں میں ہی ملتی تھی اور وہ بھی بغیر پرمٹ کے۔ ہم لندن سے تربیت یافتہ ائیر مینوں کی بڑی آؤ بھگت ہوتی تھی۔ ہمارے آفسر اِن دِنوں ہم لڑکوں کے ساتھ بڑے فرینڈلی ہوتے تھے۔ کراچی کے Beaches میں ہم لوگوں کو Sands pit بہت پسند تھا۔اُن دِنوں کراچی صحیح معنوں میں ایک انٹرنیشنل ہاربر سٹی نظر آتا تھا۔ بہت سالوں بعد (1992) میں جب پہلی مرتبہ میَں شنگھائی (چین)گیا تو وہاں کی ہاربر روڈ ہماری کراچی کی بندر روڈ کی طرح نظر آتی تھی۔ اُسی قسم کے پتھر کی بنی ہوئی عمارات، وہی  طرزِ تعمیر۔ مزے کی بات اِسی قسم کا نظارہ میَں نے کولالمپور(ملائیشیاء)اور مومباسا (کینیا)کی ہاربر روڈ پر بھی دیکھا۔ فارسی میں ہاربر کو بندر کہتے ہیں۔ اِسی لئے کراچی کی ہاربر روڈ، بندر روڈکہلاتی تھی۔ چونکہ شنگھائی، ملائیشیاء اور نیروبی (ہانگ کانگ)برطانوی کالونی رہے تھے اس لئے اِن ممالک کا طرزِ تعمیر بھی آپس میں مماثلت رکھتا تھا۔ دنیا کی بڑی بڑی نیوی کے جہاز یہاں لنگر انداز ہوتے تھے۔ صدر اور ایلفی کے گردونواح میں ہر قومیت کے Sailors گھومتے نظر آتے تھے۔ کئی تو سال میں 3/4 پھیرے لگاتے تھے۔ اِن کی pet گرل فرینڈز ہوتی تھیں زیادہ تر گووا سے آئی ہوئی کرسچن فملیز کی لڑکیاں۔

میرے بیچ کے لڑکے کچھ عرصے بعد اِدھر اُدھر پوسٹ ہو گئے، ہماری ریڈار کی ٹیم موبائیل یونٹوں میں پوسٹ ہو کر پاکستان کے شہروں اور دیہاتی علاقوں میں survey کے لئے گشت کرتی رہی۔ کراچی کو میں نے کبھی متواترسالوں کے حساب سے نہیں دیکھا تھا۔ بس چند مہنوں کے لئے ہی تین چار بار کراچی آنا میسر ہوا۔ آج تک میں کراچی میں زیادہ سے زیادہ 10 ماہ رہا ہوں۔ وہ بھی 1959/60 میں جب میَں نے ائیر فورس چھوڑ کر عارضی طور پر PIA بطور فلائٹ اسٹورڈجوائن کر لی تھی کیونکہ میرے CSS کے اِمتحان کا نتیجہ ابھی تک نہیں آیا تھا۔ 1960 میں میَں نے PIAچھوڑ دی اور میَں CSS پاس کر کے لاہور ٹرئینگ کے لئے چلا گیا۔ 1960 تک بھی کراچی رونقوں والا شہر تھا۔ البتہ ایرانی ہوٹل کم ہوتے جا رہے تھے۔ دھلی، یوپی اور مالاباری کلچر نمایاں ہو چکا تھا لیکن کراچی کی کشادگی ابھی بھی باقی تھی۔ کراچی جو پاکستان کے ماتھے کا جھومر تھا، آہستہ آہستہ افراتفری اور بے ھنگم آبادیوں کا شکار ہونے لگا۔ لمبی مسافت کے ہوائی جہازوں نے کراچی کی اہمیت ختم کر دی کیونکہ بڑے جہازوں کو اپنا ایندھن (پیٹرول) حاصل کرنے کے لئے کراچی میں روکنے کی ضرورت نہیں تھی۔ مذہبی شدّت پسندوں نے رہی سہی کسر پوری کر دی، دبئی نے کراچی کی تمام رونقیں چھین لیں۔ کراچی کی اقلیتیں ایک ایک کر کے پاکستان چھوڑ گئیں، اس شہر کی خوبصورتی کو آبادی کا نہ رُکتا ہوا سیلاب بھی اجاڑ گیا۔ میرے والا کراچی کہیں تحلیل ہو گیا۔ 

مزید :

رائے -کالم -