آرمی چیف، ڈیوڈ اسٹار، تلاوت یا کام

  آرمی چیف، ڈیوڈ اسٹار، تلاوت یا کام
  آرمی چیف، ڈیوڈ اسٹار، تلاوت یا کام

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

 جرنیلوں کی آئین شکنی اورحدود سے متجاوز ان کے کالے سیاسی کام ذرا نظر انداز کر دیجئے۔ آپ دیکھیں گے کہ آئین اپنی روح (اسلام )کے ساتھ اگر کہیں نافذ ہے تو وہ افواج پاکستان ہیں۔ ام الخبائث (شراب) پر پہلی پابندی جنرل ضیا نے لگائی تھی. فوج میں مولوی کا مرتبہ کمی کمین جیسا تھا۔ اسے خاکروب کے ساتھ کوارٹر ملتا تھا۔ جنرل ضیا نے علما کا رتبہ نان کمیشنڈ افسر کے مساوی کر دیا۔ نیول چیف ایڈمرل عباسی ریٹائر ہوئے تو پتا چلا کہ انہوں نے نیوی میں ہر سطح پر قرآن کی تعلیم بڑی خاموشی سے لازم کر دی۔ جنرل ضیا نے بھی ایسے متعدد کام خاموشی ہی سے کیے۔ اسلام کی ترویج و اشاعت آئینی تقاضا ہے جو عوامی امنگوں پر آئین میں شامل ہوا تھا۔ اب ذرا سول کی طرف آئیے۔ 35 سال سے متعدد حکومتیں کوشاں رہیں کہ چھٹی تا بارویں تک مکمل با ترجمہ قرآن پڑھا دیا جائے۔ لیکن اداروں کے اندر چھپے دین دشمن عناصر نے اس پر عمل نہیں ہونے دیا۔ جنرل عاصم منیر آرمی چیف مقرر ہوئے تو دل کو خاصا اطمینان ہوا تھا کہ جنرل ضیا کا تسلسل جہاں ٹوٹا تھا اسے جنرل عاصم جوڑ دیں گے۔

 آرمی چیف آج بھی بااختیار ترین شخص ہے۔ لیکن ان اختیارات کا تعلق آئین شکنی وغیرہ سے نہیں ہے۔ اختیارات مٹھی بھر ریت ہوتے ہیں۔ مٹھی میں ذرا سختی پیدا ہو جائے تو ریت سرک کر زمین پر گر جاتی ہے۔ اختیارات کا معاملہ "جو بڑھ کے تھام لے ساقی" والا ہے. میرا اپنا دفتری تجربہ ہے کہ اختیارات مانگے نہیں, استعمال کیے جاتے ہیں. آرمی چیف کے با اختیار ہونے کی کئی وجوہ ہیں۔ سیاست دانوں کی کمزوریاں اور ان کا باہمی جنگ و جدل کچھ کم نہیں ہے۔ آرمی چیف ایسی ہی وجوہ کے باعث حد سے بڑھ کر با اختیار ہو جاتا ہے۔ خود مجھے جنرل عاصم کے ان اختیارات پر طمانیت ہے۔ کیوں؟ جنرل ضیا بااختیار بنے تو ایئر مارشل اصغر خان نے ان کی مخالفت میں 'جنرل ان پالیٹکس' لکھ ڈالی۔ لیکن جنرل پرویز مشرف صدر بنے تو انہوں نے آگے بڑھ کر ان کا خیر مقدم کیا۔ ہر شخص منزل پر نظر رکھتا ہے نہ کہ وسیلہ سفر یا سواری پر۔ مجھے جنرل عاصم منیر کے ان اختیارات پر خوب اطمینان تھا کہ ہماری منزل ایک ہے۔ میری دعائیں ان کے ساتھ ہیں۔ لیکن ہر آنے والا دن میرے اطمینان میں ارتعاش اور تزلزل پیدا کر رہا ہے۔

یہ اطمینان تب گھائل ہوا جب نگران وزیراعظم نے قائد اعظم کے صریح حکم سے منحرف ہو کر مسئلہ فلسطین کا حل دو ریاستی فارمولا قرار دیا۔ گویا نظری طور پر وہ اسرائیل تسلیم کر لیا گیا ہے جسے قائد اعظم نے ناجائز ریاست کہا تھا۔ لکھوکھ ہا مہاجرین سے نمٹتی اور کٹی پھٹی ریاست کے نحیف و نزار گورنر جنرل نے کسمپرسی کے عالم میں وائس آف امریکہ کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا تھا: " فلسطینیوں کی مدد کے لیے ہمیں طاقت کا استعمال کرنا پڑا تو ہم وہ بھی کریں گے"۔ اور اب نمبر ون آرمی والے ایٹمی پاکستان کا نگران وزیراعظم قائداعظم کا فرمان نظر انداز کر کے ناجائز اسرائیلی ریاست تسلیم کرنے کی طرف چل پڑے تو میں آرمی چیف کو با اختیار ترین شخص کیسے مان لوں؟

خیر گزری کہ ایرانی میزائل حملے پر دفتر خارجہ کا بڑا متوازن رد عمل آیا. تمام حکومتی اداروں میں مکمل ہم آہنگی کے باعث پاک ایران تعلقات اس ایک جھٹکے کے بعد اب کہیں بہتر انداز میں مرتب ہو رہے ہیں۔ دفتر خارجہ نے اپنا کام بڑی خوبصورتی سے کیا۔ ادھر مسلح افواج نے ایران کے اندر کارروائی کر کے 24 گھنٹوں میں حساب برابر کر دیا۔ جس کا کام اسی کو ساجھے۔لیکن آرمی چیف کو دو ہزار منتخب طلبہ کیا مل گئے کہ انہوں نے فی البدیہہ تقریر کرتے ہوئے دفتر خارجہ کا کام سنبھال لیا، ملاحظہ ہو: "میرے لیے ایک پاکستانی کی زندگی بچانا پورے افغانستان سے مقدم ہے". اس جملے میں "میرے لیے" میں ایک پیغام ہے، مشتری ہوشیار باش۔ تو کیا افغانستان مسلم جسد واحد کا حصہ نہیں ہے۔ اسلام میں یہ وطنی قومیت کہاں سے در آئی۔ اول تو یہ بات کھلے عام کہنے کی تھی ہی نہیں۔ اگر ضروری تھی تو یہ کام دفتر خارجہ کے کرنے کا تھا جس کے جملے کے ساخت کچھ یوں ہوتی: "ہمارے لیے ایک پاکستانی کی جان تمام دہشت گردوں اور افغانستان میں انہیں پناہ دینے والوں کی جان سے زیادہ مقدم ہے" چیف کے جملے نے تمام افغانوں کو ہمارے خلاف متحد کر دیا، دفتر خارجہ کا والا جملہ انہیں اہل حق اور اہل باطل کے زمروں میں منقسم کر دیتا۔

 100 روپے کا کرنسی نوٹ بغور دیکھیے۔ دنیا بھر میں ستارے کے پانچ کونے ہوتے ہیں تو اس نوٹ پر 6 کونوں والا ڈیوڈ اسٹار کیسے پہنچا۔ قائد کے بائیں طرف آپ کو یہ صیہونی علامت صاف نظر آئے گی۔ باہر کو حکومت پاکستان کا نشان 6 کونوں والی اس صیہونی علامت میں مکمل گھرا ہوا ہے۔ اسی کے ساتھ علامتی پھول بھی 6 پتیوں والا ہے۔ نوٹ کے خاکے کا تصور، ڈیزائن کی تیاری، غور کرنے اور منظوری دینے والے افراد، ادارے، کمیٹیاں وغیرہ مل کر کام کرتے ہیں۔ یہ ان پڑھوں کا کھیل تماشا نہیں ہے۔ ڈرائنگ ڈیزائن کا بی ایس کا کوئی طالب علم ہی آپ کو بتا دے گا کہ پھول کی پتیاں ہمیشہ طاق میں ہوتی ہیں۔ تو یہ اس کرنسی نوٹ پر چھ پتیوں والا پھول اور چھ کونوں والا ڈیوڈ اسٹار لانے والے کون عناصر ہیں؟ یہ نوٹ نگران وزیراعظم یا جنرل عاصم منیر کے دور میں اگر نہیں بنا تو حکومت میں ان صیہون دوست عناصر کا کھوج لگا کر انہیں انجام تک تو پہنچایا جا سکتا ہے جو آئے دن اسرائیل تسلیم کرنے کا شوشہ چھوڑتے رہتے ہیں۔

4 سال تک ہم ایاک نعبد کا ورد سہتے رہے اور عمل؟ پلیٹوں کی صدا آتی ہے اور کھانا نہیں آتا۔ بات بات پر قرآنی آیت نکال لانا بلاشبہ خوش آئند ہے۔ تاہم ہمارے آرمی چیف براہ کرم یہ عمل موقوف کر دیں۔ آج ہر ملکی ادارے میں دشمن کے افراد یہیں کے باشندے ہیں۔ ادھر چیف نے آیت پڑھی، ادھر ڈالر خور این جی اوز قرآنی تعلیم کی پوری اسکیم ٹارپیڈو کرنا شروع کر دیتی ہیں۔ کیا انہیں چوکنا کرنا لازم ہے؟ ہجوم کے آگے فی البدیہہ تقریر کرنا بجائے خود ایک نشہ ہے، اللہ رحم کرے۔ یہ عمل یہیں رک جانا چاہیے۔ قرآنی تعلیم روکنے اور صیہونی علامت کو ریاست کے ماتھے پر تھوپنے والوں اور ان جیسے دیگر ففتھ کالمسٹوں کا ذرا سراغ تو لگائیے۔ بصیرت ہمیں یہی بتاتی ہے کہ ایک عمل ہزاروں اقوال (اور فی البدیہہ تقاریر) پر بھاری ہوتا ہے۔ اے جنرل! نتیجہ خیز سکوت اور سناٹا، موتی اور صدف سمندر کے سکوت امیز سناٹے اور تہہ میں ملتے ہیں۔ اور سطح سمندر پر؟ ہیجان، تکدر، فی البدیہہ شور شرابہ اور ناکارہ خس و خاشاک! فی البدیہہ تقریر اہل سیاست کا کام ہے۔ جنرل ضیا اور ایڈمرل عباسی کی طرح نتائج بھرا کام اور کام، نہ کہ ایاک نعبد۔۔۔۔ایاک نعبد اور جا بجا قرانی آیات کا ورد۔

مزید :

رائے -کالم -