فلمی و ادبی شخصیات کے سکینڈلز۔ ۔ ۔قسط نمبر582
دیکھا جائے تو بمبئی میں فیروز نظامی کا واحد کارنامہ ’’جگنو‘‘ کی موسیقی تھی۔ انہوں نے زیادہ کام پاکستان میں کیا مگر اسے بھی زیادہ نہیں کہا جاسکتا کیونکہ ان کی فلموں کی تعداد کبھی زیادہ نہیں رہی۔
پاکستان آکر انہوں نے فلمی مرکز لاہور میں قیام کیا جو کہ ان کا آبائی شہر میں تھا۔ وہ کافی عرصے بعد اپنے وطن کی سر زمین پر واپس آئے تھے اور بہت خوش اور پر امید تھے۔
پاکستان میں اس وقت فلم سازی برائے نام ہی تھی۔ ہر طرح کی مشکلات کا سامنا تھا۔ یہاں ان کی پہلی فلم ’’ہماری بستی‘‘ تھی جس کے ہدایت کار مشکور قادری تھے۔ اس فلم میں اس زمانے کے رواج کے مطابق آٹھ گانے تھے۔ بدقسمتی سے ’’ہماری بستی‘‘ فلاپ ہوگئی اور اس کے ساتھ ہی فیروز نظامی کے گانے بھی سامنے نہ آسکے حالانکہ اس فلم کی انہوں نے اچھی موسیقی بنائی تھی۔ چند نغمات ملاحظہ کیجئے۔
فلمی و ادبی شخصیات کے سکینڈلز۔ ۔ ۔قسط نمبر581 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
۱۔ محبت کرنے والوں پر کبھی تو ظلم کم ہوتے ۔ نہ کرتے ہم محبت اور نہ ہم پرستم ہوتے
۲۔ ہم کسی کے ہوگئے کوئی ہمارا ہوگیا ۔ پیارکی دنیا میں جینے کا سہارا ہوگیا
۳۔ چھپ گیا دن رات کالی آگئی
۴۔ اک شہری بابو آیا ۔ سپنوں میں آن سمایا۔
یہ فلم ۱۹۵۰ء میں ریلیز ہوئی تھی۔ اس وقت تک سید شوکت حسین رضوی بھی اپنے خاندان کے ساتھ لاہور آگئے تھے۔ یہاں انہوں نے شاہ نور اسٹوڈیو بنایا اور فلم سازی کا آغاز کر دیا۔
ان کی پہلی فلم پنجابی زبان میں تھی۔ ’’چن وے‘‘ میں ہدایت کار کی حیثیت سے میڈم نور جہاں کا نام دیا گیا تھا لیکن حقیقت میں اس کے ہدایت کار شوکت حسین رضوی ہی تھے۔ پنجابی زبان پر مکمل عبور نہ ہونے کی وجہ سے انہوں نے اس فلم پر بطور ہدایت کار اپنا نام دینا مناسب نہیں سمجھا تھا۔
’’چن وے‘‘ کے لیے انہون نے فیروز نظامی کو موسیقار کی حیثیت سے منتخب کیا۔ ’’چن وے‘‘ کی نمائش پر پاکستان بھر میں بہت زیادہ جوش و خروش پایا جاتا تھا۔ پاکستان کی پہلی فلم تھی جو کسی نامور سکہ بند ہدایت کار اور فلم ساز نے بنائی تھی۔ نور جہاں، شوکت حسین رضوی اور فیروز نظامی جیسے نام اس فلم سے وابستہ تھے۔ جب یہ فلم نمائش کے لیے پیش کی گئی تو سینما گھر کے سامنے ٹریفک تھم گئی۔ لاہور کے زندہ دل ’’چن وے‘‘ کو دیکھنے کے لیے سینما گھروں پر ٹوٹ پڑے۔
’’چن دے‘‘ میں فیروز نظامی کی موسیقی یادگار تھی۔ اس کے کئی نغمے عوامی لوک گیتوں کی طرح مشہور اور مقبول ہوگئے۔
۱۔ منڈیا سیالکوٹیا ۔ تیرے مکھڑے پہ کالا کالا تل وے ۔ میرا کڈھ کے لیے گیا دل وے (نور جہاں)
۲۔ چنگا بنایا ای سانوں کھڈونا ۔ آپے بناؤں ناتے آپ ای مٹاؤ ناں(نور جہاں)
۳۔ چن دیا ٹوٹیا دلاں دیا کھوٹیا
۴۔ بچے جامنڈے موڑتوں ۔ میں صدقے تیری ٹورتوں(نور جہاں)
۵۔ جادو کوئی چلا گیا
۶۔ وے بھل نہ جاویں نیناں نال نیناں جوڑ کے
۷۔ باغ خوشی کے مہکے مہکے
یہ فلم ۱۹۵۱ء میں نمائش کے لیے لیے پیش کی گئی تھی اور اس کے معیار اور کامیابی کیو جہ سے پاکستان کی فلم صنعت میں نئے سرے سے خود اعتمادی پیدا ہوگئی تھی۔ اس فلم کی کامیابی میں فیروز نظامی کی موسیقی نے نمایاں کردار ادا کیا تھا اورایک بار پھر فیروز نظامی فلمی موسیقاروں کی صفوں میں سر فہرست آگئے۔اگلے سال یعنی ۱۹۵۲ء میں سبطین فضلی صاحب کی اردو فلم ’’دوپٹہ‘‘ نمائش کے لیے پیش کی گئی۔
’’دوپٹہ‘‘ ہر اعتبار سے ایک بلند پاییہ معیاری فلم تھی۔ اس فلم میں نور جہاں اور اجے کمار نے مرکزی کردار ادا کیے تھے۔ سدھیر سائیڈ ہیرو کے کردار میں تھے۔ اپنی وجاہت اور اداکاری کے معیار کی وجہ سے فلم بینوں کے دلوں میں سما گئے اور بعد میں سپر اسٹار کی حیثیت سے عرصہ دراز تک فلمی صنعت پر حکمرانی کرتے رہے۔ اس زمانے میں فلموں میں گانوں کی تعداد بہت زیادہ ہوتی تھی۔ آتھ نو گانے معمول میں داخل تھے۔
’’دوپٹہ‘‘ میں بھی نو گانے تھے اوعر قریب قریب سبھی ہٹ تھے۔ فیروز نظامی کی موسیقی اس فلم میں پورے عروج پر نظر آتی تھی۔ دراصل تجربے نے یہ بتایا کہ ایک اچھے اسکرپٹ اور اچھے ہدیات کار کے بغیر فیروز نظامی اپنے فن کے جوہر نہیں دکھا سکتے تھے۔ وہ بذات خود ایک تعلیم یافتہ آدمی تھے۔ ان کا مطالعہ بہت گہرا تھا۔ اردو، پنجابی اور انگریزی تینوں زبانوں پر انہیں عبور حاصل تھا۔ فلمی موسیقی سے دل برداشتہ ہونے کے بعد انہوں نے مضمون نگاری اور کالم نویسی شروع کر دی تھی اور پاکستان ٹائمز جیسے معیاری اخبارات میں لکھا کرتے تھے۔
فلم ’’دوپٹہ‘‘ایک ایسی فلم تھی جس نے پاکستان کی فلمی صنعت میں ایک نئی شمع جلائی تھی۔ ہر اعتبار سے یہ ایک معیاری فلم تھی۔ یہ وہ فلم تھی جس نے بھارتی فلم سازوں کو چونکا دیا تھا بلکہ فکر مند کر دیا تھا۔ انہیں پہلی بار یہ احساس ہوا تھا کہ پاکستان کی جس فلمی صنعت کو وہ بے حد پس ماندہ اور کم تر سمجھ رہے تھے اس میں ایک انقلاب رونما ہو رہا ہے۔’’دوپٹہ‘‘ نے بھارتی فلم صنعت اور فلم بینوں کو نہ صرف پریشان کر دیا تھا بلکہ وہ مشتعل ہو کر ان سنیما گھروں کو نذر آتش بھی کرنے لگے تھے جہاں ’’دوپٹہ‘‘ نمائش کے لیے پیش کی گئی تھی۔ کاش پاکستان کی فلمی صنعت وہ معیار برقرار رکھنے میں کامیاب ہوتی جو ’’چن وے‘‘ اور ’’دوپٹہ‘‘ نے قائم کیا تھا۔ ’’دوپٹہ‘‘ کے چند سپرہٹ گانے یہ تھے۔
۱۔ چاندنی راتیں ہو چاندنی راتیں
سب جگ سوئے ہم جاگیں
تاروں سے کریں باتیں
چاندنی راتیں(نور جہاں)
۲۔ تم زندگی کو غم کا فسانہ بنا گئے
آنکھوں میں انتظار کی دنیا بسا گئے (نور جہاں)
۳۔ مورے من کے راجا
آجا صورتیا دکھا جا
۴۔ بات ہی بات میں
پہلی ملاقات میں
جیا مورا کھو گیا
ہائے کسی کا ہو گیا(نور جہاں)
۵۔ میں بن پتنگ اڑ جاؤں
ہوا کے سنگ لہراؤں
’’دوپٹہ‘‘ میں فیروز نظامی کی موسیقی اور میڈم نور جہاں کی آواز نے مل کراس فلم کی موسیقی کو لازوال بنا دیا تھا۔ افسوس کہ فیروز نظامی کو اس کے بعد ایسی ٹیم اور ایسا موقع نہ مل سکا اور نہ ہی نور جہاں کی آواز انہیں اس فراوانی سے میسر آئی ورنہ ان کی اور پاکستانی فلمی موسیقی کی کہانی مختلف ہوتی۔(جاری ہے )
فلمی و ادبی شخصیات کے سکینڈلز۔ ۔ ۔قسط نمبر583 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں