فلمی و ادبی شخصیات کے سکینڈلز۔ ۔ ۔قسط نمبر581
قابل ذکر بات یہ ہے کہ حسن لطیف کو ناکامیوں، محرومیوں، مایوسیوں اور اپنوں کی بے وفائیوں نے کبھی بددل اور اداس نہیں رہا۔ وہ جب بھی ملے ہنستے ہوئے ہی ملے۔ زندگی سے انہیں دلچسپی تھی۔ ہر اچھی اور خوب صورت چیز انہیں اچھی لگتی تھی۔ اچھے دوستوں کی صحبت ان کے لیے ٹانک کی حیثیت رکھتی تھی۔ ان کے ساتھ ہم نے تنویر نقوی، علاؤ الدین اور لقمان صاحب کے گھروں میں بہت وقت گزارا۔ ان کے سامنے دوسرے موسیقار فلموں پر فلمیں بنا رہے تھے اور کامیابیاں سمیٹ رہے تھے۔ حسن لطیف ہمیشہ ان کی تعریف کرتے ہوئے ہی نظر آئے۔ کسی کی غیبت، برائی ان کے مزاج میں نہ تھی۔ دل کھول کر دوسروں کے کاموں کی تعریف کرتے تھے۔ طنزیا حسد کا کوئی شائبہ تک ان کی گفتگو میں نہیں ہوتا تھا۔
فلمی و ادبی شخصیات کے سکینڈلز۔ ۔ ۔قسط نمبر580 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
حسن لطیف خوش پوش اور خوش ذوق انسان تھے اور دوسروں کی خوش لباسی اور خوش ذوقی کی داد دینے میں بھی بخل سے کام نہ لیتے تھے۔
’’واہ آفاقی صاحب۔۔۔کیا خوب صورت میچنگ ہے۔ فان کلر کا سوٹ، گہری میرون رنگ کی ٹائی۔ آپ ایسے خوب صورت کپڑے کہاں سے لے آتے ہیں؟‘‘
’’لنڈے بازار سے‘‘ تنویر صاحب کہتے۔
’’ہے تو درست مگر آفاقی صاحب کا ذوق بہت اچھا ہے۔‘‘
وہ ہمیشہ صاف ستھرے خوش لباس نظر آئے۔ عموماً سوٹ، کوٹ پتلون اور قمیص پتلون پہنتے تھے۔ شلوار قمیص میں ہم نے کم ہی انہیں دیکھا۔ کسی کی بھی فلم ہٹ ہوتی تھی تو وہ خوش ہوتے تھے۔ اچھے گانوں کی دل کھول کر تعریف کرتے تھے۔ ان کے چہرے پر ہر وقت مسکراہٹ رہتی تھی مگر آنکھوں اور چہرے پر ایک دکھ بھرا غم بھی سایہ فگن نظر آتا تھا۔ ان کی آواز بہت خوب صورت، سریلی اور بھرپور تھی۔
اسمیں ایک قدرتی سوز اور کرب تھا۔ ان کی دوسری باتیں ایک طرف مگر یہی ایک خوبی کیا کم ہے کہ انہوں نے منیر نیازی کو اس وقت دریافت کر لیا تھا جب بہت سے لوگ ان کے شاعرانہ وجود سے ہی منکر تھے۔ یہ غلط نہیں ہے کہ منیر نیازی کو فلمی دنیا سے متعارف کرانے اور پھر اس ذریعے سے ایک مقبول شاعر تسلیم کرانے کا سہرا حسن لطیف ہی کے سر ہے۔ انہوں نے منیر نیازی کی جو غزلیں اور نغمے ترتیب دیئے ہیں وہ کبھی بھلائے نہیں جا سکتے۔ یہ ان کے ادبی ذوق اور موسیقی کے رموز و اسرار سے مکمل واقفیت کا ایک نمایاں ثبوت ہے۔
بعض لوگوں کو قدرت ان کی صلاحیتوں کے مطابق شہرت، عزت اور دولت نہیں عطا کرتی جبکہ اس کے برعکس بعض اوسط درجے کی صلاحیوں کے حامل افراد بے پناہ مقبولیت، شہرت اور دولت سے نواز دیئے جاتے ہیں۔ اسے آپ تضاد قدر کے فلسفے کے سوا اور کس زمرے میں رکھیں گے۔ سچ ہے۔ وہ جسے چاہے عزت دے ساور جسے چاہے ذلت۔ ہم خاکی انسان اس مسئلے پر مداخلت نہیں کرسکتے۔
***
پاکستان کے فلمی موسیقاروں میں فیروز نظامی کو ایک امتیازی مقام حاصل ہے۔ فیروز نظامی صاحب کے بارے میں اس سے پہلے بیان کیا جا چکا ہے لیکن ان کے بہت سے مداحوں اور پرستاروں کو شکایت ہے کہ ان کے بارے میں اتنی تفصیل سے نہیں بیان کیا گیا جس کے وہ حق دار تھے۔ امریکا سے ایک صاحب نے ٹیلی فون کے ذریعے شکوہ کرتے ہوئے فرمائش کی کہ فیروز نظامی صاحب کے بارے میں تفصیل بیان کی جائے۔
فیروز نظامی صاحب ۱۹۱۰ء میں لاہور پیدا ہوئے تھے اور ۱۵ نومبر ۱۹۷۵ء کو لاہور ہی میں دنیا سے رخصت ہوگئے۔ اس طرح انہوں نے ۶۵ سال کی عمر پائی۔
فیروز نظامی کا تعلق موسیقی سے تعلق رکھنے والے ایک گھرانے سے تھا۔ انہون ںے موسیقی کی تعلیم کے ساتھ ساتھ اسکول اور کالج کی تعلیم کا سلسلہ بھی جاری رکھا۔ اسلامیہ کالج لاہور سے بی ، اے کرنے کے بعد وہ ریڈیو پاکستان لاہور سے وابستہ ہوگئے۔ یہ وہ زمانہ تھا جب خواجہ خورشید انور جیسے لوگ بھی ریڈیو سے وابستہ تھے۔ موسیقی میں انہوں نے استاد(عبدالوحید خاں) تعلیم اور تربیت حاصل کی تھی۔ لاہور سے ان کا تبادلہ دہلی ہوگیا جہاں سے انہوں نے ریڈیو کی ملازمت ترک کرکے فلمی دنیا میں قسمت آزمانے کا فیصلہ کیا۔
وہ ۱۹۴۲ء میں بمبئی گئے تھے۔ قسمت نے یادوری کی اور انہیں واڈیا مووی ٹون کی فلم’’وشواس‘‘ کی موسیقی مرتب کرنے کے لیے منتخب کر لیا گیا۔ یہ فلم ۱۹۴۳ء میں ریلیز ہوئی تھی۔ اس فلم میں فیروز نظامی کی موسیقی کو پسند کیا گیا اس وقت تک وہ ریڈیو کی ملازمت بھی کر رہے تھے لیکن ’’وشواس‘‘ کی کامیابی کے بعد انہوں نے ریڈیو کی ملازمت سے استعفیٰ دے دیا اور مکمل طور پر خود کو فلمی موسیقی کے لیے وقف کر دیا۔
’’وشواس‘‘ کی کامیابی کے بعد انہیں تین فلموں کی موسیقی بنانے کا موقع ملا جن میں امنگ، اس پار اور بڑی بات شامل ہیں۔ ان تینوں فلموں کی موسیقی اوسط درجے کی تھی۔ واڈیا مووی ٹون کی دو مزید فلموں پیا ملن اور شربتی آنکھیں میں بھیا گلے سال انہوں نے موسیقی مرتب کی۔ پیا ملن کے ہدایت کار ایس ایم یوسف تھے۔ انہوں نے ایس ایم یوسف کی ایک اور مشہور فلم ’’نیک پروین‘‘ کی موسیقی ترتیب دی تھی۔ یہ فلم ایک معاشرتی اور اصلاحی فلم تھی جو یوسف صاحب نے اپنے مخصوص انداز میں بنائی تھی۔ اس فلم کی ہیروئن راگنی تھیں۔ یہ ایک کامیاب فلم تھی اور ۱۹۴۶ء میں نمائش کے لیے پیش کی گئی تھی۔
اس زمانے میں بمبئی میں بڑے بڑے نامور موسیقاروں کا شہرہ اور اجارہ داری تھی اس لی کسی نووارد کو جگہ بنانے کے لیے بہت زیادہ تگ و دو کرنے کی ضرورت تھی۔ فیروز نظامی ایک سادہ دل، سادہ لوح، کم آمیز اور اپنے کام سے کام رکھنے والے درویش صفت انسان تھے۔ فلمی حلقوں میں زیادہ گھومنے کی انہیں عادت نہیں تھی۔
۱۹۴۷ء برصغیر کے لیے ایک ہنگامی اور تاریخی سال تھا۔ اس سال فیروز نظامی نے ایس ایم یوسف کی فلم ’’پتی سیوا‘‘ اور ہدایت کار انجم کی فلم ’’رنگین کہانی‘‘ کی موسیقی مرتب کی۔ ان دونوں فلموں کو قابل ذکر کامیابی نہ مل سکی۔ ایس، ایم یوسف کی فلم ’’پتی سیوا‘‘ نیک پروین قسم ہی کی کہانی تھی جس کو ہندو ماحول میں فلمایا گیا تھا۔
فیروز نظامی کو اس وقت تک کوئی قابل ذکر کامیابی حاصل نہیں ہوئی تھی لیکن اسی سال سید شوکت حسین رضوی کی فلم ’’جگنو‘‘ نے سارے ملک میں تہلکہ مچا دیا تھا۔ ’’جگنو‘‘ میں دلیپ کمار اور نور جہاں مرکزی کردار ادا کئے تھے۔ کہانی اور ہدایت کاری سے قطع نظر اس فلم کی کامیابی میں فیروز نظامی کی موسیقی کا بھی بہت بڑا ہاتھ تھا۔ ’’جگنو‘‘ کے گانے گھر گھر گلی گلی گونجنے لگے اور آج بھی کلاسیکی فلمی موسیقی میں اس کا شمار ہوتا ہے۔ محمد رفیع کی آواز کو اس فلم میں پہلی بار نہایت خوبی سے استعمال کیا گیا تھا۔ محمد رفیع فیروز نظامی کے شاگرد بھی تھے۔’’جگنو‘‘ نے بھارتی فلمی صنعت میں ایک نئی روایت کو جنم دیا تھا۔ ’’جگنو‘‘ دلیپ کمار کی پہلی سپرہٹ فلم تھی جس کے بعد انہوں نے پیچھے پلٹ کر نہیں دیکھا اور ہندوستان کے عظیم ترین اداکار کہلائے۔ اس فلم میں پہلی بار شوکت صاحب نے موسیقی میں نئے تجربات کیے تھے۔ اس کے چند گانے ملاحظہ کیجئے۔
۱۔ یہاں بدلہ وفا کا بے وفائی کے سوا کیا ہے (محمد رفیع ، نور جہاں)
۲۔ ہمیں تو شام غم میں کاٹنی ہے زندگی اپنی ۔ جہاں وہ ہوں وہیں اے چاند لے جا روشنی اپنی (نور جہاں)
۳۔ آج کی رات ساز درد نہ چھیڑ (نور جہاں)
’’جگنو‘‘ صحیح معنوں میں فیروز نظامی کی پہلی سپرہٹ فلم تھی جس نے فیروز نظامی کو ایک ہی جست میں بمبئی کے چوٹی کے موسیقاروں کی صف میں لا کر کھڑاکر دیا تھا۔
اس فلم سے محمد رفیع اور دلیپ کمار کے ساتھ ساتھ فیروز نظامی کی شہرت کا بھی آغاز ہوا تھا۔
’’جگنو‘‘ کی ریلیز کے بعد بمبئی میں ہر فلم ساز کی زبان پر فیروز نظامی کا نام تھا۔ اگر وہ بمبئی میں قیام کرتے تو یقیناًانہیں نامور فلم سازوں اور ہدایت کاروں کی فلمیں مل جاتیں مگر قیام پاکستان کے بعد انہوں نے اپنی سر زمین میں رہنے کا فیصلہ کیا اور عروج اور دولت ، شہرت ہر چیز کو چھوڑ کر پاکستان چلے آئے۔(جاری ہے )
فلمی و ادبی شخصیات کے سکینڈلز۔ ۔ ۔قسط نمبر582 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں