ڈاکٹر سعید اقبال سعدیؔ کا ”مذاق“ میری نظر میں
مزاح کیا ہے؟ ایسی تحاریر جو آپ کو ہنسنے پر مجبور کر دیں اس تحریر میں تنقید کو مزاح کا جامہ پہنا دیا جائے،تو بھی قاری ہنسنے پر مجبور ہو جائے طنزو مزاح کہلاتا ہے۔تلخ لہجوں،بدلتے رویوں کے برعکس جب معاشرہ مجموعی طور پر بگڑنے لگتا ہے توایسے میں مزاح نگار کا یہ احساس شدت اختیار کر جاتا ہے کہ معاشرے کی اصلاح ممکن نہیں ہے اس وقت وہ انسانیت سے بیزار ہو جاتا ہے اور طنز پر اُتر آتا ہے اور یہی طنز جب شدت اختیار کر لیتا ہے تو اپنی قوت کھو دیتا ہے اور مذمت بن کر رہ جاتا ہے۔ مزاح نگار کے دل میں فرد اور معاشرے کے لئے رحم اور محبت کا جذبہ بیدار ہوتا ہے، جبکہ طنز نگار کے دل میں نفرت اور دشمنی کے سوا کچھ نہیں ہوتا۔ کیونکہ مزاح نگار کا مقصد لوگوں کو ہنسانا اور خوش کرنا ہوتا ہے، جبکہ طنز نگار جس پر ہنستا ہے، اس سے نفرت بھی کرتا ہے،اُسے تبدیل کرنے کا خواہاں بھی ہوتا ہے۔ ڈاکٹر سعید اقبال سعدیؔ کا شمار بھی ایسے ہی باکمال مزاح نگاروں میں ہوتا ہے۔ جن کی زندگی کا مقصد دوسروں کو ہنسانا اور خوش کرنا ہے۔ وہ شعبہ کے اعتبار سےSkin Specialist ڈاکٹر ہیں،وہ مریض کی Skin پر لگے داغ دھبے ہی نہیں دیکھتے بلکہ دُکھ اور درد کے ہاتھوں مات کھائے ہوئے دلوں کے زخم بھی دیکھنے میں مہارت رکھتے ہیں۔ ڈاکٹر سعدیؔدکھنے میں ایک سنجیدہ، رعب دار اور خاموش طبع انسان نظر آتے ہیں، حقیقت میں ایسا بالکل نہیں، وہ ہر عام و خاص سے بات کرنے کا رویہ ایک جیسا ہی اپناتے ہیں۔ وہ مذاق کرنے اور مذاق اڑانے میں فرق کو بخوبی سمجھتے ہیں۔ڈاکٹر سعید اقبال سعدیؔ کے مزاحیہ اور طنزیہ کلام پر مبنی شعری مجموعہ ”مذاق“ کے مطالعہ سے یہ بات بڑے وثوق کے ساتھ کہی جا سکتی ہے کہ ڈاکٹر صاحب جیسے ادب دوست کی موجودگی ہمارے لئے بہت ضروری ہے، ایسا دوست جو مثبت باتیں مذاق کی صورت میں کرتے ہوئے خود بھی ہنستا ہے اور دوسروں کو بھی ہنساتا ہے۔ اس کتاب کے آغاز میں چند قطعات خواتین کے لئے شامل کئے گئے ہیں، جس میں سے ایک قطعہ دیکھئے جو مجھے بھی بہت پسند ہے۔
کہا بیوی نے موبائل بٹن والا دیا ہے کیوں
چلے انگلی سے میری اس میں یہ جوہر نہیں ہے
کہا شوہر نے چھوٹی سی مشینی چیز ہے یہ
چلے انگلی پہ تیری یہ تیرا شوہر نہیں ہے
میاں بیوی کی نوک جھوک پر مبنی ایک قطعہ خواتین کے لیے شوہرانہ مذاق سے:
بیوی بولی جب کبھی بازار جاتی ہوں میں
مجھ کو اس کھوکھے کا مالک دیکھتا ہے گھور کر
بولا شوہر جانِ من وہ ہے کباڑی اصل میں
ڈالتا ہے وہ پرانی شے پہ ایسے ہی نظر
مزاح میں نئی جہات کی تشکیل نا ممکن ہے کیونکہ بڑے بڑے مزاح نگاروں نے یہ کام تو کر لیاہے، ہمارے عہد کے سید محمد جعفری، دلاور فگار، سید ضمیر جعفری، انور مسعود، سرفراز شاہد اور انعام الحق جاوید جیسے صاحبِ طرز مزاح نگاروں کی طرح الفاظ سے حسب ِ منشا کام لینے کی اچھی مثالیں مل جاتی ہیں۔ ڈاکٹر سعدیؔ بھی الفاظ کے فن کارانہ استعمالات کا تخلیقی شعور رکھتے ہیں، اسی لیے ان کی شاعری میں الفاظ اور معانی کا تسلسل ایک ساتھ پایا جاتا ہے۔ ڈاکٹر سعدیؔ کے ہاں آج کے نمائشی اور فیشن ایبل مولوی کے حوالے سے ان کی منظر کشی دیکھے:
میں نے پوچھا مولوی صاحب سے رائے دیں مجھے
گوشت دنبے کا ہے یا کہ ران بکرے کی لذیذ
مولوی صاحب یہ بولے رائے دوں گا میں تمہیں
بھون کر جب دونوں چیزیں لاؤ گے میرے عزیز
ڈاکٹر سعدیؔ کے ”مذاق“ میں کرونائی دور کی سنگین صورت حال میں بھی خوشی کی لہر نظر آتی ہے:
اب آ گئی ہیں عورتیں ساری نقاب میں
کووِڈ نے اپنا خوف حسینوں میں بھر دیا
وہ کام جو بڑے بڑے عالم نہ کر سکے
وہ کام ایک چھوٹے سے وائرس نے کر دیا
ڈاکٹر سعدیؔ کے ”مذاق“ میں طنز کے اثرات بہت کم کم ملتے ہیں۔ ان کا ہلکا پھلکا مزاح ہر طبقے کو پسند آتا ہے اور آسانی سے سمجھ میں آجاتا ہے، وہ مشکل ردیف،قافیوں کے چکر میں نہیں پڑتے بلکہ نہایت سادہ اور سلیس زبان میں اپنی بات کا اظہار کر دیتے ہیں۔ اس کالم کے دوران ممتاز شاعر، افسانہ نویس، ڈرامہ نگار اعتبار ساجد بتاتے ہیں کہ”مجھے ڈاکٹر سعید اقبال سعدیؔ کے ہاں تنوع کا احساس ملتا ہے اور اُنہیں پڑھ کر ہمیشہ راحت محسوس ہوتی ہے، ان کا شعری مجموعہ ”مذاق“ مجموعی طور پر مختلف موضوعات پر محیط ہے جو رنگ برنگے، کھٹے میٹھے ذائقے دار ہیں“۔
ڈاکٹر ہونے کے کارن وہ عام زندگی کی طرح اپنے مریضوں سے بھی ہلکا پھلکا مذاق کر لیتے ہیں۔ ان کے ”مذاق“ میں میڈیکل مذاق بھی شامل ہے جس میں ایمرجنسی کال، ذہانت کی دوا، خوبصورتی کا راز، محبوبہ کے نظر انداز کرنے پر ڈاکٹر کا پلان، فون پر مزاج پرسی، سرجری، سرکاری ڈاکٹر، لیبارٹریز، لیب ٹیسٹ، پرائیویٹ ہسپتال، کالی بھیڑیں اور عطائی قصائی سمیت دیگر موضوعات پر قطعات پڑھنے کو ملتے ہیں۔ ان قطعات میں نظر سے اوجھل سچائیاں بھی بڑی صاف گوئی کے ساتھ بیان کی گئی ہیں۔ بحیثیت سکن سپیشلسٹ ڈاکٹر وہ لکھتے ہیں کہ:
جلد کے ماہر جلد سنوارا کرتے ہیں
مرد و زن کا حُسن اُبھارا کرتے ہیں
اپنی چمڑی بے شک حد سے کالی ہو
اوروں کی اسکن نکھارا کرتے ہیں
ڈاکٹر سعدیؔ گذشتہ کئی سالوں سے ملک میں ہونے والی چور دروازے کی سیاست سے اس قدر مایوس دکھائی دیتے ہیں کہ جس کا اظہار وہ اپنے سیاسی مذاق میں کچھ اس طرح کرتے نظر آتے ہیں:
زرداروں مالداروں وڈیروں کی موج ہے
اپنے وطن میں فصلی بٹیروں کی موج ہے
ہو دور کوئی یہ تو حکومت کا جزو ہیں
جمہوریت میں اونچے وڈیروں کی موج ہے
اپنے سیاسی مذاق میں انہوں نے جمہوری دور، مقروض اور مفلس وطن کو کھوکھلا کرنے والے چہروں کو بے نقاب کرنے، آنکھوں دیکھے حالات و واقعات پر چپ سادھ رکھنے والے نابینا چہروں کو روشنی دینے اور آج کے سیاست دانوں کو پاکستان کا زخم کوردہ چہرہ دکھانے کا کام کیا ہے۔
یوں تو سب اللہ کا احسان کہتے ہیں مجھے
میرے سارے لوگ اپنی جان کہتے ہیں مجھے
زخم خوردہ خوں رسیدہ میرا چہرہ دیکھ کر
اب زمیں کے لوگ پاکستان کہتے ہیں مجھے
ڈاکٹر سعدیؔ کے اس شعری مجموعہ”مذاق“ میں ان قطعات کے علاوہ عیدالفطر، عیدالاضحی بجلی، متفرق قطعات، مزاحیہ نظمیں اور زعفرانی غزلیں شامل ہیں۔ اس کتاب کا انتساب انہوں نے اپنے اُستادِ محترم ڈاکٹر انعام الحق جاوید کے نام کیا ہے۔ جو ان کی دلی عقیدت اور والہانہ محبت کا اظہار ہے۔ ڈاکٹر سعدیؔ سنجیدہ شاعری کے بھی بہت عمدہ شاعر ہیں، لیکن اُن کی پہچان مزاحیہ شاعری ہی بنی، وہ ver style ااداکار بھی رہ چکے ہیں، جی ہاں وہ پاکستان ٹیلی وژن کے کئی ڈراموں میں اپنی اداکاری کے جوہر بھی دکھا چکے ہیں، مگر اُن کی وجہء شہرت ادب کا میدان ہی ثابت ہُوا۔ وہ عرصہ تک ادبی تنظیم سفینہ ادب کے زیرِ اہتمام مشاعروں کا انعقاد بھی کرتے رہے۔ افسوس بہت سے نقلی چہروں کی مفاد پرستی کے سبب یہ سلسلہ ہمیشہ کے لیے ختم کر دیا گیا۔کالم کے اختتام پر یہی کہوں گا کہ ڈاکٹر سعدیؔ جیسے انمول لوگ ڈھونڈنے سے بھی نہیں ملتے، کیونکہ ایسے لوگوں کی باتیں اور الفاظ بھی انمول ہوتے ہیں۔ آخر میں ان کا مہنگائی اور بکرا عید کے حوالے سے ایک قطعہ ملاحظہ کیجیے:
مفلس و نادار قوموں کے نمائندوں میں ہے
تو ابھی تک تیسری دنیا کے باشندوں میں ہے
اتنی مہنگائی میں قربانی کی صورت ہے یہی
اپنا بکرا آپ پیدا کر اگر زندوں میں ہے