ہاتھ پکڑ کر نہر سے باہر کھینچا تو سکتہ طاری ہو گیا وہ بالکل سوکھا تھا، بت تھا جیسے جسم میں جان ہی نہ ہو، زبان گنگ، اسے باوا جی کی آواز پھر سے سنائی دی

 ہاتھ پکڑ کر نہر سے باہر کھینچا تو سکتہ طاری ہو گیا وہ بالکل سوکھا تھا، بت تھا ...
 ہاتھ پکڑ کر نہر سے باہر کھینچا تو سکتہ طاری ہو گیا وہ بالکل سوکھا تھا، بت تھا جیسے جسم میں جان ہی نہ ہو، زبان گنگ، اسے باوا جی کی آواز پھر سے سنائی دی

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

مصنف:شہزاد احمد حمید
قسط:43
 اچانک نہر میں گرنے سے اُسے غوطے آیا۔ وہ بری طرح پانی میں بھیگ چکا تھا۔ اب وہ انتہائی خوف زدہ بھی تھا۔ دوسرے کنارے کھڑے باواجی نے اس کا ہاتھ پکڑ کر اسے نہر سے باہر کھینچا تو اس پر ایک اور سکتہ طاری ہو گیا وہ تو بالکل سوکھا تھا۔ اب وہ بت تھا جیسے جسم میں جان ہی نہ ہو، اس کی زبان گنگ ہو چکی تھی۔ اسے باوا جی کی گرجدار آواز پھر سے سنائی دی؛”سمجھ آئی پانی سے کتابیں سوکھی کیسے نکلتی ہیں۔“وہ کوئی بھی لفظ کہے بغیر آپ کے قدموں میں گر کر دائرہ اسلام میں دخل ہو چکا تھا۔ایسے معجزے اللہ اپنے دوستوں کے و سیلے دکھاتا رہتا ہے تاکہ ہم یہ مت بھولیں کہ اللہ آج بھی اپنے دوستوں کی بات سناتا ہے، معجزے دکھاتا ہے اور اللہ اپنے دوستوں کی فریاد کبھی رد بھی نہیں کرتا۔ وہ اللہ کی عبادت ویسے ہی کرتے ہیں جیسے اللہ کو پسند ہے پھر اللہ بھی اپنے دوستوں کو کبھی مایوس نہیں کرتا۔یہ انعام اللہ کے محدود اور مخصوص دوستوں کے حصے میں ہی آتا ہے۔  
باوا جی کے لاتعداد مرید ملک کے طول و عرض اور غیر ممالک میں پھیلے ہیں۔ ہر سال ان کے آستانے پر ”آئی کیمپ“ کا انعقاد ہوتا ہے جہاں ہزاروں مریض ہر سال آنکھوں کے جدید علاج کی سہولت دنیا بھر کے مختلف ممالک سے آئے بہترین آئی سرجنوں سے مفت حاصل کرتے اور روشنی سے مستفید ہوتے ہیں۔یہ سلسلہ باوا جی نے اپنی زندگی میں شروع کیا تھا اور اب تک لاکھوں مریض آنکھ کی روشنی لوٹنے سے اللہ کی اس خوبصورت دنیا کو دیکھ رہے ہیں۔ یہ دنیا آج بھی اللہ کے ایسے برگزیدہ بندوں کی اچھائی کی بدولت قائم ہے۔ افراتفری کے اس عالم میں، جہاں سب کچھ مطلب اور کمرشل ہو چکا ہے، اللہ کے کچھ بے لوث بندے اللہ کی خوشنودی کے لئے انسانیت کی خدمت میں مصروف صرف اللہ سے ہی صلہ کی آس لگائے ہیں۔
شربت صندل؛
ابا جی کو صندل کا شربت بہت پسند تھا۔ کمپنی کے کام کے سلسلے میں ابا جی کا لائل پور آج کے فیصل آباد اکثر چکر لگتا ہی رہتا تھا۔کئی بار میں بھی ابا جی کے ساتھ ہوتا تھا۔ لائل پور گھنٹہ گھر  کے 8 باراز میرے ذہن کے کسی کونے میں آج بھی دھندلے سے آباد ہیں۔ جہانگیر ی پلا ؤ کی دوکان کے قریب ہی خالص صندل اور ایسے ہی دیگر لوازمات بیچنے والے پنساری کی دوکان بھی میں نہیں بھولاہوں۔ گرمی کے موسم میں ابا جی صندل کے شربت کی کئی بوتلیں خرید کر لے جاتے تھے۔ اس شربت صندل میں تیرتے صندل کے ٹکڑے اور اس کی خوشبو سے کمرہ مہک جاتا تھا۔ اس شربت کا ذائقہ مجھے بھی بھا گیا تھا لیکن افسوس اب صندل کا اصل شربت دستیاب ہی نہیں ہے اور اگر ہے بھی تو اس کی قیمت پہنچ سے باہر ہو چکی ہے۔آج کل بازار میں ملنے والا صندل کا شربت صرف نام کا ہی صندل ہے۔ اس دور کے جہانگیری پلاؤ،شامی کباب اور دہی کا رائتہ کا چسکا ایسا زبان کو لگا کہ آج بھی یہ 3 چیزیں کھانے میں مل جائیں تو میں کوئی اور کھانا پسند ہی نہیں کرتا ہوں۔ ابا جی اکثر لائل پور ویلیز جیپ  یا اسی برانڈ کی سبز رنگ کی سٹیشن ویگن میں ہی آتے جاتے تھے اور میرا جیپ چلانے کا شوق انہی دنوں سے ہے۔
(جاری ہے)
نوٹ: یہ کتاب ”بک ہوم“ نے شائع کی ہے (جملہ حقوق محفوظ ہیں)ادارے کا مصنف کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مزید :

ادب وثقافت -