ناول "اداس نسلیں " کے ایک کردار کو لکھنے کیلیے 15 میل پیدل سفر کیا "ماں سے دوری نے لکھنا سکھا دیا" ۔۔۔داستان عبداللہ حسین کی
مشکلات اور آسانیوں کے نشیب و فراز میں زندگی بِتانے والے عالمی سطح کے ناول نگار عبداللہ حسین 14 اگست 1931ء کو راولپنڈی میں پیدا ہوئے، والدین نے نام محمد خان رکھا، ان کا تعلق بنوں سے تھا تاہم وہ پنجاب میں آ بسے۔ عبداللہ حسین 4 بیٹیوں کے بعد اکلوتے بیٹے ہونے کے ناطے والد کے بہت قریب رہے،صدر الدین نامی مولوی صاحب نے مذہبی علوم سے آراستہ کیا۔ 1946 میں اسلامیہ ہائی سکول گجرات سے میٹرک اور 1952 میں زمیندار کالج گجرات سے بی ایس سی مکمل کی۔ادب سے دلچسپی جیسے عبداللہ حسین کی فطرت ثانیہ تھی، بی ایس سی کے بعد کئی انگریزی ناول پڑھ ڈالے، ساتھ ساتھ دیگر یورپی ممالک کا ادب بھی نظر سے گزرتا رہا، روسی اور فرانسیسی ناول میں بھی بھرپور دلچسپی لی۔ مالی حالات اچھے نہیں تھے لہٰذا تعلیمی سلسلہ مزید جاری نہ رکھ سکے اور ایک سیمنٹ فیکٹری میں بطور کیمسٹ ملازمت اختیار کر لی۔ 1959ء میں کولمبو پلان کے تحت فیلو شپ ملا، میک ماسٹر یونیورسٹی کینیڈا سے کیمیکل انجنیئرنگ میں ڈپلوما لیا اور وطن واپس لوٹ کر پاکستان انڈسٹریل ڈویلپمنٹ کارپوریشن سے بطور سینئر کیمسٹ منسلک ہو گئے۔
اکثر تخلیقی شخصیات کی طرح عبداللہ حسین کی طبیعت میں بھی بے چینی تھی جس نے انہیں ملازمت کے دوران ایک جگہ نہ ٹکنے دیا۔ بطور کیمسٹ مختلف کمپنیاں بدلنے کے بعد لندن چلے گئے اور کول بورڈ نامی ادارے میں ملازمت کی۔2 سال بھی نہ گزرے کہ لندن کے نارتھ تھامس گیس بورڈ میں شمولیت اختیار کر لی۔ 1975ء میں گیس بورڈ سے بھی استعفیٰ دیدیا اور پاکستان واپس لوٹ آئے۔ اپنے ملک میں آئے تو سیاسی سرگرمیوں میں بھی مشغول ہوئے، الیکشن کے دوران پرانے دوست حنیف رامے کا بھرپور ساتھ دیا مگر وہ ہار گئے تو عبداللہ حسین کو بہت دکھ ہوا۔ انتخابی سرگرمیوں کے سبب فوجی حکومت کی نظروں میں آ چکے تھے لہٰذا ایک بار پھر برطانیہ کا رخ کیا۔ اسی دوران اہلیہ ڈاکٹر فرحت آراء کو لیبیا میں ملازمت ملی تو ان کے ساتھ وہیں منتقل ہو گئے جہاں ادب سے مزید طبع آزمائی کا موقع ملا۔ ڈاکٹر فرحت سے عبداللہ حسین کی 1963 میں شادی ہوئی جن سے ایک بیٹا علی خان اور بیٹی نور فاطمہ نے گھر کی رونق بڑھائی۔
عبداللہ حسین کہتے تھے کہ والد کے ساتھ شفقت اور محبت بھرا وقت گزارنے کا یہ فائدہ ہوا کہ زندگی بھر یہ احساس ان کے ساتھ ساتھ رہا کہ ایک مضبوط اور دانا آواز ان کو ہر مشکل وقت سے نکالنے کیلئے مدد فراہم کرتی رہے گی۔ جتنا زیادہ وقت عبداللہ حسین نے باپ کے ساتھ خوشگوار گزارا تو ماں کے رشتے میں اتنی ہی محرومی ملی۔ عبداللہ حسین نے اپنی ماں کو نہیں دیکھا، یہ ملال ساری زندگی ان کا پیچھا کرتا رہا کہ ممتا آخر ہوتی کیسی ہے؟ عبداللہ حسین کہتے تھے کہ میری شخصیت کو ماں کی کمی نے گہرا گھاؤ لگایا مگر اس کا بھی مثبت پہلو یہ تھا کہ چونکہ میرا بچپن ماں کے بغیر گزرا تو اس دکھ نے مجھے لکھنا سکھا دیا۔ گہرے انسانی جذبات کا اظہار کرنا اسی دکھ نے سکھایا جو شاید عام حالات میں تجربے میں نہ ہونے کے سبب اتنا اچھا کبھی نہ لکھ پاتا۔ عبداللہ حسین کہتے تھے کہ کسی قسم کی بھی جسمانی تکلیف تخلیقی صلاحیت کو جنم دیتی ہے۔ ان کو اپنا نام محمد خان پسند نہیں تھا لہٰذا کسی کا ملتا جلتا نام سنا تو اپنے لئے قلمی نام عبداللہ حسین پسند کیا۔
انہوں نے پہلی کہانی 1962 میں لکھی جو لاہور سے شائع ہونے والے "سویرا" نامی رسالے میں شائع ہوئی۔ ایک برس بعد مزید 3 کہانیاں "پھول کا بدن، جلا وطن اور سمندر" شائع ہوئیں۔ اس سےپہلے 1956 میں والد صاحب انتقال کر گئے تو حساس احساسات کے مالک عبداللہ حسین کو شدید ذہنی جھٹکا لگا جسے برداشت نہ کر سکے اور نروس بریک ڈاؤن کا شکار ہو گئے۔ وقت نے کچھ مرہم رکھا تو اسی دوران مشہور ناول "اداس نسلیں" لکھنا شروع کیا جو 1961ء میں مکمل ہوا اور اشاعت 1963ء میں ہوئی۔ اس شہرہ آفاق ناول سے متعلق عبداللہ حسین کہتے تھے کہ جب لکھنا شروع کیا تو یہ میرے لئے اتنا اہم نہیں تھا، پھر اپنے ناول کےپلاٹ سے متعلق مواد اکٹھا کرنا شروع کیا، کتابیں پڑھیں، لوگوں سے ملاقاتیں کیں، حتیٰ کہ دور دراز علاقوں کا سفر کر کے ناول کے کرداروں سے ملتے جلتے کرداروں کے ذاتی تجربات خود ان کی زبانی سنے۔
ان کی اپنے کام سے شدید محبت کا اندازہ اس طرح لگایا جا سکتا ہے کہ ایک صوبیدار سے ملنے کیلئے عبداللہ حسین کو 15 میل پیدل سفر کرنا پڑا۔ وہ چاہتے تھے کہ ان کے ناول میں حقیقی کردار اور واقعات شامل ہوں۔ وہ اس زمانے کے واقعات کو ایسی ادبی کیفیت دینا چاہتے تھے کہ تاریخی حقائق بھی قاری کے سامنے ابھر کر واضح ہو جائیں۔ انہوں نے اس مقصد کیلئے جواہر لال نہرو اور مہاتما گاندھی کو بھی پڑھا۔ ان کی اس حد سے زیادہ محنت کا یہ نتیجہ نکلا کہ "اداس نسلیں" کو یونیسکو نے انگریزی زبان میں ترجمے کیلئے اپنے انتخاب میں شامل کیا جس کوبرطانیہ کے ادبی حلقوں میں خاصی پذیرائی ملی۔ عبداللہ حسین کی آج جو پہچان ہے وہ دراصل "اداس نسلیں" کے سبب ہی ملی۔ اس ناول کی مقبولیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ اس کے 50 سے زائد ایڈیشن شائع ہو چکے ہیں اور یہ عالمی ادب کے معیار کا سمجھا جاتا ہے۔
عبداللہ حسین کی دیگر تصنیفات میں 5 افسانے اور 2 ناولٹ ہیں جن میں باگھ، قید، رات، نادار لوگ اور فریب شامل ہیں۔ انگریزی میں "Émigré Journeys" لکھا جبکہ ایک ناول "The Afghan Girl" بھی لکھا جس میں افغانستان کو موضوع بنایا۔ جیسا کہ پہلے کہا کہ "اداس نسلیں" ہی عبداللہ حسین کا تعارف تھا، اس پر انہیں آدم جی ادبی ایوارڈ سے نوازا گیا۔ 2012ء میں اکادمی ادبیات نے کمال فن انعام عطا کیا۔ فکر و تحریر کا یہ درخشاں ستارہ 4 جولائی 2015ء کو خالقِ حقیقی سے مل کر حقیقی آسودگی پا گیا۔